اقبال کا ترانہ بانگ درا
ہے گویا
ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا
زندگی کی برق رفتاریوں نے معاشرتی زندگی کی کایا پلٹ دی ہے ۔جس سمت نظر
اٹھتی ہے ایک گہما گہمی کی کیفیت ہے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ رخش عمر اب حد
سے زیادہ برق رفتاری کا مظاہرہ کر رہا ہے ۔ اقدار و روایات کی زبوں حالی کو
خطرے کی گھنٹی خیال کیا جاتا ہے ۔جسے دیکھو اپنی اپنی ڈفلی لیے اپنا اپنا
راگ الاپنے میں مصروف ہے ۔ عقابوں کے نشیمن پر زاغ و زغن غاصبانہ طور پر
قابض ہیں اور جید جاہل اپنی جہالت کا انعام پا کر خوشی سے پھولے نہیںسماتے
اور جامے سے باہر آکر خوشی کے شادیانے اور کامرانی کی غیر مختتم گھنٹیاں
بجانے میں مصروف ہیں۔ میرے پڑوس میں ایک ایسا شخص رہتا ہے جو میٹرک میں چار
بار فیل ہوا لیکں اب اس نے فلسفی ہونے کا سوانگ رچا رکھا ہے اور نہایت
ڈھٹائی سے رواقیت کا داعی بن بیٹا ہے ۔اس کا مکان جو اپلو ں کے ڈھیرکے
مانند ہے اس پر جلی حروف میں یہ کذب و افترا پر مبنی عبارت درج ہے ”Nasif
Khabal M.A.B.F یار لوگوں کو تو بس بہانہ چاہیے ۔سب لوگ سنگ ملامت لیے اس
متفنی جعل ساز پر چڑھ دوڑے ۔محلے والے جو کہ اس چربہ ساز ،کفن دزد او سارق
کی ہف وات سے پہلے ہی عاجز آچکے تھے ،سب نے مل کر اس جو فروش گندم نما ننگ
انسانیت کے خلاف فریب کاری ،ٹھگی اور دھوکہ دہی کے الزامات پر مبنی ایک
درخواست تھانے میں دے دی ۔ناصف کھبال یہ تاثر دیتا تھا کہ اس نے بریڈ فورڈ
یونیورسٹی سے فلسفہ میں ایم۔اے کی ڈگری حاصل کی ہے ۔یہ بات سب کو معلوم تھی
کہ اس بھڑوے خاندان کا کوئی فرد چودہ پشتوں سے ملک سے باہر تو دور کی بات
ہے قصبے سے باہر نہیں نکلا ۔معاملہ عدالتی چارہ جوئی تک جا پہنچا جب ناصف
کھبال کو طلب کیا گیا تو وہ بے غیرتی ،بے ضمیری ،بے حیائی اوربے حسی کی
تصویر بنا عدالت کو بتا رہا تھا کہ MABFسے میری مراد جعل سازی کب تھی،میں
نے تو واشگاف الفاظ میں لکھ دیا ہے کہ میں میٹرک فیل ہوں (Matric appeared
but failed)اس کا یہ کہنا تھا کہ محفل کشت زعفران بن گئی اور اسے بری کر
دیا گیا ۔
معاشرتی ،سماجی اور اخلاقی و روحانی اقدار کو جس قدر نا قابل اندمال صدمات
سے دوچار ہونا پڑا ہے وہ بلا شبہ خطرے کی گھنٹی ہے ۔اجلاف و ارزال اور سفہا
کی پانچوں گھی میں ہیں مگر مفلوک الحال طبقے کا کوئی پرسان حال نہیں ۔چور
محل میں جنم لینے والے سانپ تلے کے بچھو بھی اب چور دروازے سے گھس کر کاخ و
ایوان میں دخیل ہیں ۔ان کی شقاوت آمیز نا انصافیوں سے اہل درد خوار و زبوں
ہیں ۔کئی خفاش ایسے ہیں جو اپنی بے کمالی کا زخم کھا کر اہل کما ل کے درپئے
آزار ہو جاتے ہیں۔کھسیانی بلی کی طرح کھمبا نوچنا ان کا وتیرہ ہے ۔مولانا
الطاف حسین حالی نے ایسے ہی کو ر مغز ،بے بصر ،لکیر کے فقیر جید جہلا اور
سادیت پسندی (Sadism)کے مریضوں کے بارے میں کہا تھا :
کمال ہے ضد بے کمالی اسی میں ہے خیر حرف گیرو
جو ہم پہ کچھ چوٹ کیجیے گا تو آپ بے جا نہ کیجیے گا
ہمارے سامنے والی گلی میں شباہت شمر نام کی ایک ڈھڈو کٹنی ایک عالی شان
مکان میں رہتی ہے ۔وہ جس طرف جاتی ہے دو طرفہ ندامت اور اہل علاقہ کی ملامت
اس کا تعاقب کرتی ہے ۔اس کی آہٹ سنتے ہی لوگ جل تو جلال تو آئی بلا ٹال تو
کا ورد شرودع کر دیتے ہیں اس کی آواز کو جرس سے تعبیر کرتے ہیں اور خطرے کی
گھنٹی کے مترادف سمجھتے ہوئے رد بلا کی کوئی صورت تلاش کرتے ہیں۔بعض
دوشیزاﺅں نے اس کی کالی زبان اور بد نظر سے بچنے کی خاطر نظر بٹو لگانا
شروع کر دیا ہے اس مقصد کے لیے تلک کا سہارا لیا جاتا ہے ۔اس کٹنی کے
ہاتھوں متعدد خاندان تباہ و برباد ہو گئے ۔تیسری دنیا کے غریب اور پس ماندہ
ممالک میںتو اب جہالت کو بھی ایک مسلک کے انداز میں دیکھا جاتا ہے۔جس
معاشرے میں عقل کے اندھوں کی فراوانی ہو وہاں توہم پرستی کے باعث جعلی
عاملوں ،شعبدہ بازوں اور کٹنیوں کی چاند ی ہو جاتی ہے ۔ایسے لوگ شب تاریک
میں لوگوں کو تاریکی میں رکھ کر سب کچھ لوٹ لیتے ہیں اور کانوں کان خبر
نہیں ہوتی ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے دھرتی کے لیے باعث ننگ و عار
درندوں کے مکر و فریب پر مبنی وجود کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کی تدابیر
کیوں کامیاب نہیں ہوتیں ۔اس کا جواب بالکل سیدھا سادا ہے ۔ہماری صفوں میں
شامل کچھ افراد ان عوام دشمن عناصر کا آلہءکار بن جاتے ہیں ۔یہ لوگ مادر
وطن سے بھی مخلص نہیں۔جسم و جان ،دین و ایمان اور عزت و وقار کا سودا کرنے
میں ان کو کبھی تامل نہیں ہوتا ۔۔ان کی لوٹ مار صرف افراد تک محدود نہیں
بلکہ اقوام اور پورا ریاستی ڈھانچہ ان کی غاصبانہ دستبرد کی وجہ سے لرزہ بر
اندام ہوتا ہے ۔ان کو کھل کھیلنے کی جو آزادی حاصل ہے وہ اہل جور کی ریشہ
دوانیوں کا نتیجہ ہے ۔اب ان پر ہاتھ ڈالنا بعید از قیاس ہے ۔کون ہے جو بلی
کے گلے میں گھنٹی باندھے ۔یہی مسئلہ ہے جو کہ روز بہ روز گمبھیر ہوتا چلا
جا رہا ہے ۔ظالم و سفاک ،موذی و مکار استحصالی مافیا وطن ،اہل وطن اور مادر
وطن کی بدنامی کا باعث بن رہا ہے مگر کسی کے کانوں پر جوں تک
نہیںرینگتی۔ایسے سخن فروش سفاک درندے فطرت کی تعزیروں کو یکسر فراموش کر
چکے ہیں۔ان کے لیے صرف یہی کہا جا سکتا ہے :
تہمت لگا کے ماں پہ جو دشمن سے داد لے
ایسے سخن فروش کو مر جانا چاہیے
زمانہ قبل از تاریخ میں بھی گھنٹی کے وجود کے شواہد ملے ہیں ۔یہ بات بلا
خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ گھنٹی انسانی تہذیب و ثقافت کے ارتقا کی علامت
ہے ۔ہردور میں گھنٹی کی اہمیت و افادیت مسلمہ رہی ہے ۔یہ جانوروں کے گلے کا
ہار ،خواتین کے پاﺅں کی جھنکار اور رہروان دشت کے لیے ایک پیکار کی حیثیت
رکھتی ہے ۔مندروں ،کلیساﺅں،درباروں اور مختلف عبادت گاہوں میں گھنٹی اور
سنکھ کا رواج ہزاروں سال سے ہے ۔موہنجو دارو،ٹیکسلا ،ہڑپہ ،شورکوٹ اور پنڈی
لا ل مرید سے کھدائی کے دوران جو آثار قدیمہ ملے ہیں ان میں گھنٹی کی
موجودگی اس با ت کا ثبوت ہے کہ چار ہزار سال قبل مسیح میں بھی گھنٹی کا چلن
عام تھا۔اہرام مصر اور ابوالہول کے ارد گرد بھی کئی گھنٹیاں بکھری ہوئی ملی
ہیں ۔پرانے زمانے میں رتھ ،بیل گاڑی ،کولھواور متعد دیگر سواریوں میں گھنٹی
کا کثرت سے استعمال ہوتا تھا ۔قربانی کے جانور کے گلے میں گھنٹی کا باندھنا
اسے یہ احساس دلاتا ہے کہ یہی تو خطرے کی گھنٹی ہے ۔اب اس کا جانا ٹھہر گیا
ہے صبح گیا کہ شام گیا ۔مجھے توایسا محسوس ہوتا ہے کہ دنیا بھر کے غریب
ممالک کے عوام کو سپر طاقتوں نے قربانی کا بکرا سمجھ رکھا ہے اور ان کے گلے
میں جو قرض در قرض کا طوق ہے اس کے ساتھ دائمی غلامی کے خطرے کی گھنٹی بھی
بندھی ہوئی ہے ۔دکھ کی بات یہ ہے کہ تیسر ی دنیا کے گونگے اور بہرے عوام کو
اس گھنٹی کی آواز بالکل سنائی نہیں دیتی۔وہ اپنی دھن میں مگن ہیں ،روم جل
رہا ہے اور یہاں کے عاقبت نا اندیش فرمانروا دیپک راگ الاپ کر اپنی بے بصری
کی داد چاہتے ہیں ۔ہر بار جب نئی حکومت آتی ہے تو لوگ سمجھتے ہیں کہ اب
امید کی کوئی کرن دکھائی دے گی مگر فقیروں کے حالات تو جوں کے توں رہتے ہیں
البتہ بے ضمیروں کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔دکھی انسانیت کے لبوں پر یہ
فریاد ہوتی ہے :
پھر بھیانک تیرگی میں آگئے
ہم گجر بجنے سے دھوکا کھا گئے
دانا یہ بات بڑے وثوق سے کہتے ہیں کہ گھنٹی کی آواز جہد و عمل اور زندگی کی
حرکت و حرارت کی نقیب ہے ۔ایک حکایت ہے کہ ایک فلسفی کا گزر ایک کولھو کے
قریب سے ہوا ۔کولھومیں بیل جوت کر کولھوکا مالک لمبی تان کر سو گیا ۔بیل کے
گلے میں گھنٹی بندھی دیکھ کر فلسفی گہر ی سوچ میں پڑ گیا ۔اس نے کولھو کے
مالک کے جاگنے کا انتظار کیا۔فلسفی نے یہ سوال پوچھا :”تم نے جو بیل کولھو
میں جوت رکھا ہے اس کے گلے میں گھنٹی کیوں باندھ رکھی ہے ؟اس قدر بھاری
گھنٹی کی بلند آواز سے تو تمھاری نیندمیں خلل پڑتا ہو گا ۔تم یہ گھنٹی اتار
کیوں نہیں دیتے ؟“
کولھو کا مالک اس اجنبی راہ گیر کی ہیئت کذائی دیکھ کر جان گیا کہ اس کے
ذہن کے پرزے کچھ ڈھیلے ہیں ،وہ بے فکری سے بولا”جب تک بیل کولھو کو کھینچتے
ہوئے گھومتا رہتا ہے گھنٹی کی آواز آتی رہتی ہے اور میں تسلی سے لیٹا رہتا
ہو ں اور آرام کرتا ہوں ۔جب بیل رک جاتا ہے تو میں اسی وقت اس کی پیٹھ پر
زور سے ڈنڈا رسید کرتا ہوں اور بیل پھر سے اپنے کام میں لگ جاتا ہے اور میں
بھی حسب سابق سو جاتا ہوں “
”یہ تو کوئی دلیل نہ ہوئی“فلسفی نے حیرت سے کہا” اگر بیل رک جائے اور کھڑے
کھڑے سر ہلاتا رہے تو اس طرح گھنٹی بھی بجتی رہے گی اور اسے کولھو کھینچنے
کی مشقت سے بھی نجات مل جائے گی “
کولھو کے مالک نے سٹھیائے ہوئے اجنبی سے کہا ” یہ محض ایک بیل ہے یہ کوئی
فلسفی تو ہے نہیں جو اس قدر گہرائی میں جا کر حالات کے بارے میں سوچ بچار
کرے ۔مجھے تو تم کوئی فلسفی لگتے ہو ۔چلو راکشس اپنا رستہ لو ۔تمھارا بیل
کے ساتھ کون سا سمبندھ ہے جو اس کے لیے اتنے فکر مند ہو ۔مان نہ مان میں
تیرا مہمان۔“
کو لھو کے مالک بوڑھے کسان کی یہ دھمکی سن کر وہ نام نہاد فلسفی وہاں سے
ایسے غائب ہوا جیسے گدھے کے سر سے سینگ ۔واپسی پر وہ دیر تک بڑ بڑا تا رہا
کہ نہ جانے کیو ں لو گ منطق کی رو سے بات کرنے اور سمجھنے پر آمادہ ہی نہیں
ہوتے ۔اس کے بعد اس نے بلند آواز سے ارسطو کا تصور المیہ پڑھنا شروع کر دیا
۔ساتھ ہی ساتھ یہ شعر بھی گنگنا رہا تھا
سرہانے بیل کے آہستہ بولو
ابھی گھنٹی بجا کے چل رہا ہے
تاریخی حقائق سے یہ بات کالنقش فی الحجر ہے کہ معاشرتی زندگی کے ہر دور میں
گھنٹی کو کلیدی مقام حاصل رہا ہے ۔ہاتھی کے گلے میں بندھا گھنٹ ہو یا حسینہ
کی کلائی پر بندھی گھڑی ہر ایک کو گھنٹی کی علامت قرار دیا جا سکتا ہے ۔ہر
کوئی گھنٹی کا محتاج ہے ۔تارے انساں ،شجر ،حجر سب اس گھنٹی کے اسیر ہیں
۔ملازم حاکم ،آمر ،بیوروکریٹ ،منصف اور مدعی کون ہے جو گھنٹی کی آواز پر
ہمہ تن گوش نہ ہو ۔گھنٹی کی آواز تقدیر کی تحریر کا پرتو ہے ۔لندن ہو یا
فیصل آباد ہر جگہ گھنٹا گھر بنے ہیں جو زبان حال سے یہ کہہ رہے ہیں کہ اب
بھی وقت ہے سنبھل جاﺅ۔
غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹا دی
غریب عوام کو سمپت کرنے کے داعی اس وقت تک سادہ لوح عوام کو جھوٹی تسلیاں
دیتے رہتے ہیں جب تک کہ ان کو رخصت کرنے والا کوئی اور نجات دہندہ ان کے
کوچ کی گھنٹی نہیں بجا دیتا ۔اس کے ساتھ ہی ایک اور دور کا آغاز ہو جاتا ہے
اور پرانا آموختہ مسلسل دہرایا جاتا ہے ۔
گھنٹی کی اہمیت اور افادیت کا ایک عالم معترف ہے ،اس کے باوجود استحصالی
معاشرے نے گھنٹی کو اس کے جائز حقوق سے محروم کر رکھا ہے ۔مردوں کی بالا
دستی والے معاشرے میں گھنٹی اب تک اپنا حقیقی مقام حاصل نہیں کر پائی۔سنا
ہے روس نے ہتھوڑ ی اور درانتی کو اپنا قومی نشان قرار دے رکھا ہے ۔کاش دنیا
کا کوئی روشن خیال ترقی یافتہ ملک یا سپر پاور گھنٹی کو اپنی پہچان سمجھتے
ہوئے اسے اپنے قو می نشان سے سرفراز کرے ۔میرا خیال ہے عالمی مجلس اقوم کے
لیے گھنٹی کا نشان بہت بر محل ہے ۔یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ
وہ دن دور نہیں جب جانوروں کی طرح انسان بھی گھنٹی سے پہچانے جائیں گے
۔پرانے زمانے میں تو گھنٹی صرف جانوروں کے گلے میں باندھی جاتی تھی لیکن اب
تو ہر شخص کے پاس موبائل فون کی گھنٹی موجود ہے ۔جیسے ہی یہ گھنٹی بجتی ہے
گھوڑے بیچ کر سونے والے بھی ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھتے ہیں۔یہ ہے گھنٹی کی ہوش
ربا تاثیر ۔ہر طرف اس قدر گھنٹیاں بج رہی ہیں کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں
دیتی ۔ماہرین علم بشریات کا خیال ہے کہ یہ کائنات ابھی نا تمام ہے ابھی اس
کی تکمیل کے متعدد مراحل طے ہونے والے ہیں ۔جب ایک مرحلہ مکمل ہوتا ہے تو
ایک گھنٹی بج جاتی ہے ۔مردوں کے ساتھ شرط باندھ کر سونے والے غافل انسانوں
کی خاطر قدرت کاملہ نے موت کی گھنٹی کا اہتمام کر رکھا ہے ۔جب بھی کوئی
انسان بچھڑ کر چلا جاتا ہے تو موت نقارہ بجا کر رخصت ہو تا ہے ۔اس لحاظ سے
دیکھیں تو یہ گھنٹی جہاں چشم کشا ہے وہاں عبرت کا سامان بھی لیے ہوئے ہے
۔اس لیے ضروری ہے کہ خواب غفلت میں مبتلا بھٹکے ہوئے انسان جاگ اٹھیں اور
عدم کے کوچ کی فکر کریں ۔
یہ کائنات ابھی محو خواب ہے شاید
کہ آ رہی ہیں دما دم صدائیں گھنٹی کی
مطلق العنان بادشاہوں کے عہد حکومت میں جب زنجیر عدل لٹکانے کا منصوبہ
بنایا گیا تو اس کے ساتھ کثیر تعدادمیں گھنٹیاں بھی آویزاں کی گئیں ۔اس کا
مقصد یہ تھا کہ جس کسی کو بھی کوئی شکایت ہو وہ گھنٹی بجائے اس کی شکایت کا
ازالہ کر دیا جائے گا ۔یہ تاریخی روایت اب پورے زور و شور سے ہر مقام پر
اپنا رنگ جما رہی ہے ۔ہر گھر کے دروازے پر گھنٹی نصب ہے ۔گھر کی گھنٹی بجاﺅ
تو صاحب خانہ حاضر خدمت ہو جاتاہے ۔ایک خسیس ایک مکان کی چوتھی منزل پر
رہتا تھا ۔اس کے بارے میں مشہورتھا کہ ان کے مطبخ سے کھانا پکاتے وقت سال
میں ا گر کبھی دھواں اٹھتا تو سارے پلازے میں کہرام مچ جاتا،پڑوسی اسی وقت
آگ بجھانے والے عملے کو فون کر کے طلب کر لیتے ۔ایک دن کسی حاجت مند فقیر
نے اس کے فلیٹ کی گھنٹی بجائی ۔وہ سمجھا کہ کوئی اس کو رقم ادا کرنے آیا ہے
۔اس نے آﺅ دیکھا نہ تاﺅدھوتی اور بنیاں پہنے پرانے سلیپر پاﺅں میں گھسیٹتے
ہوئے سیڑھیوں کے راستے گراﺅنڈ فلور پر ہانپتا ہوا پہنچا۔فقیر نے اسے دیکھ
کر کہا ”اللہ کے نام پر میری کچھ امداد کرو میں اور میرے بچے کل شام سے
بھوکے ہیں“
یہ سنناتھا کہ اس خسیس کے تیو ربد ل گئے اگر اس کے پاس اسلحہ ہوتا تو وہ
فقیر کو ٹھکانے لگا دیتا ۔خسیس نے مصنوعی خندہ پیشانی سے کام لیتے ہوئے کہا
”تم میرے ساتھ ساتھ اوپر آجاﺅ۔“ فقیر کو اپنی امید بر آتی دکھائی دی
۔پیرانہ سالی کے باوجود وہ جیسے تیسے چوتھی منزل پر پہنچا تووہاں جا کر
خسیس نے اسے مخاطب ہو کر کہا ” یہ گھنٹی فقیروں کے لیے نہیںکہ وقت بے وقت
بجا کر اہل خانہ کے آرام میں خلل ڈالیں ۔اب جاﺅ میرے پاس تمھیں دینے کے لیے
کچھ نہیں ۔میری نظروں سے دور ہو جاﺅ۔“
فقیر نے بڑے صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا” اگر تمھارے پاس فقیروں کو دینے
کے لیے کچھ نہیں تو دروازے پر لگی گھنٹی کو اتار دو تاکہ کوئی اور غریب
مسکین تمھاری بے حسی کا نشانہ نہ بنے۔“ خسیس نے اس عاجز بھکاری کو دھکے دے
کر وہاں سے نکال دیا ۔فقیر دامن جھاڑ کر روتا ہو ا نیچے اترا وہ یہ کہہ رہا
تھا اب اس کے لیے خطرے کی گھنٹی بج گئی ہے ۔
اس کے بعد سنا ہے وہ خسیس فطرت کی تعزیروں کی زد میں ایسے آیا کہ آتش زدگی
میں گھر کا تمام اثاثہ جل گیا تمام عمارت جو اس کی ملکیت تھی ملبے کاڈھیر
بن گئی ۔وہ خسیس ہر روز سر راہ کھڑے ہو کر راہ گیروں کے سامنے دست سوال
دراز کرتا اور لوگ اس کے حال کو دیکھ کر عبرت حاصل کرتے ۔چیرہ دستوں کو یہ
حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ فطرت کی تعزیریں نہایت سخت ہیں ۔
طیور کی زبانی ایک اڑتی سی خبر ہے کی گزشتہ دنوں کافرستان میں بہت سے خواجہ
سرا اکٹھے ہوئے انھوں نے ہاتھوں اور پاﺅں میں گھنگرو باندھ رکھے تھے۔وہ
اپنے حقوق کی بحالی کے لیے جد و جہد کرنے کا اعلان کرنے کے لیے یک جا ہوئے
تھے ۔ان کے رقص سے ٹریفک رک گئی اور امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو گیا
۔مقامی انتظامیہ اور سماجی تنظیموں نے بڑے تدبر سے مسئلہ سلجھایا۔گھنٹی کی
قدامت اور اس کے استعمال پر ابلق ایام کے سمو ںکی گرد کچھ اس طرح پڑی ہے کہ
کچھ سجھائی نہیں دیتا ۔چرواہا ،چوکیدار ،ساربان،گلہ بان اور نگہبان غرض کون
ہے جس کی گردن گھنٹی سازوں کے بار احسان سے خم نہ ہو ۔المیہ تو یہ ہے کہ
بھاڑ جھونکنے والوں نے لوگوں کو چلو میں الو بنا رکھا ہے اور گھڑیالی در بہ
در اور خاک بہ سر جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیںکوئی ان کا پرسان حال نہیں۔
کس نے پہلی گھنٹی باندھی ،گھنٹی سے پازیب بنی
رقص و سرود کے سب افسانے بھٹیاروں کے ساتھ رہے
گھنٹی کی متنوع ضروریات نے اسے طلسم ہوش ربا کا درجہ دے دیا ہے ۔افسر کی
گھنٹی بجے تو ماتحت حاضر ہو جاتا ہے ۔سکول کی گھنٹی صبح بجے تو طالب علم
چار و ناچار سکول کا رخ کرتے ہیں جب بریک یا چھٹی کی گھنٹی بجتی ہے تو ان
کے چہرے کھل اٹھتے ہیں۔انھیں دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا یہ شاہین
بچے قفس سے رہا ہو کر اب اپنے آشیاں کی جانب محو پرواز ہیں ۔ہوٹل کی گھنٹی
بجی اور بیر ا کھانے لے کر آ دھمکا ۔پلیٹ فار م پر ریل کی آمد کی گھنٹی
بجتے ہی مسافر یا تو ٹکٹ گھر کا رخ کرتے ہیں یا ٹکٹ بلیک میں فروخت کرنے
والو ں کے سامنے کورنش بجا لاتے ہیں۔اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں ۔یہاں تو
آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے ۔جہاں اہل ہوس نے ہر سو اپنے دام بکھیرے ہوں
وہاں کوئی کسے وکیل کرے اور کس سے منصفی کا طلب گار ہو ؟گھنٹی کی آواز
جاندارو ں کے اجتماعی لا شعور کا حصہ بن جاتی ہے اور وہ گھنٹی کی ہر آواز
پر اپنے مناسب رد عمل کا اظہار کرتے ہیں۔ٹیلی فون کی گھنٹی نے تو اب سوچ کے
دائرے ہی بدل دیئے ہیں ۔ہر شخص نے اپنے ٹیلی فون کے لیے ایک خاص انداز میں
بجنے والی گھنٹی کی آواز منتخب کر رکھی ہے ۔جیسے ہی یہ آواز گونجتی ہے سننے
والا سمجھ جاتا ہے کہ یہ کس کا فون آیاہے۔فائر بریگیڈ کی گھنٹی بجتے ہی دل
دہل جاتا ہے اور میر تقی میر کا یہ شعر ذہن میں گونجنے لگتا ہے ؛
دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
یاد رکھنا چاہیے جگر کی آگ بجھانا فائر بریگیڈ والوں کے بس کی بات نہیں ۔جب
اپنے پیارے لوگ جنھیں ہم دیکھ کر جیتے ہیں نہاں خانہ ءدل میں چراغ تمنا جلا
کے خواب استراحت کے مزے لیتے ہیں تودل میں اک غم کی لہر سی اٹھتی ہے ۔اس کی
آتش فشانی سے سب کچھ جل جاتا ہے ۔اس آگ کو بجھانے کے لیے ساقی کی خدمات
درکارہیں۔
جگر کی آگ بجھے جس سے جلد وہ شے لا
لگا کے برف میںساقی صراحی ءمے لا
فنون لطیفہ کے ماہرین کے خیال میں رقص اور گھنٹی لازم و ملزوم ہیں۔جھانجر
کی آواز اور رقص کرنے والوں کے پاﺅں کی چاپ اور طبلے کی تھاپ کے امتزاج سے
دلوں کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے ۔رقص کے دوران گھنٹی کی آواز اور چشم غزال کے
اشارے ناظرین کو بے خو د کر دیتے ہیں۔یہ انداز حجابانہ گھنٹی کے مرہون منت
ہیں ۔ڈوم ڈھاڑی ہاتھو ں میں بھی گھنٹیاں تھامے گھنگرو بجا کر ایسا ہاتھ کر
جاتے ہیں کہ محفل کو لوٹ لیتے ہیں۔
کسی دانا کا قول ہے کہ موت کی بھی گھنٹی ہوتی ہے لیکن یہ صرف اسی شخص کو
سنائی دیتی ہے جس کا نام اجل کے ہاتھ میں تھامے ہوئے پروانے میںدرج ہوتا ہے
۔وہ اس گھنٹی کی آواز سن کر دم سادھ لیتا ہے اور اس کی آنکھیں مند جاتی
ہیں۔کاش ہم اس گھنٹی کی آواز کا ادراک کر سکیں ۔ |