#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ حٰمٓ السجدة ، اٰیت 26
تا 32 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
قال الذین
کفروا لاتسمعوا
لھٰذالقراٰن والغوا
فیه لعلکم تغلبون 26
فلنذیقن الکفروا عذابا شدیدا
ولنجزینھم اسواالذی کانوا یعملون
27 ذٰلک جزاء اعداء اللہ النار لھم فیھا
دارالخلد جزاء بماکانوا باٰیٰتنا یجحدون 28
وقال الذین کفروا ربنا ارنا الذین اضلٰنا من الجن
والانس نجعلھما تحت اقدامنا لیکونا من الاسفلین
29 ان الذین قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا تتنزل علیھم
الملٰئکة الّا تخافوا ولاتحزنوا وابشروا بالجنة التی کنتم
توعدون 30 نحن اولیٰئکم فی الحیٰوة الدنیا وفی الاٰخرة و
لکم فیہا ماتشتھی انفسکم ولکم فیھا ما تدعون 31 نزلا من
غفور رحیم 32
اور ایک قُرآن دشمن جماعت کے سرپرست نے اپنے زیرِ سرپرستی لوگوں کو حُکم
دیا کہ جو شخص تُم سے اَحکامِ قُرآن کے بغیر بات کرتا ہے تو تُم صرف اُس کی
بات سنا کرو اور جو شخص تُم سے اَحکامِ قُرآن کے ساتھ بات کرتا ہے تو تُم
اُس کی اُس بات پر اتنا شور مچا دیا کرو کہ اُس کی بات تُمہارے شور میں دَب
جاۓ لیکن قُرآن کی اتباع کرنے والوں کو اِن کے اِس دشمنانہ عمل سے اِس لیۓ
پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہم قُرآن کے اِن دشمنوں کے اِس عمل کو
دُنیا میں بے اثر بناکر اِن کو مُتواتر ذہنی اذیت پُہنچاتے رہیں گے اور جب
اللہ کے یہ دشمن دُنیا سے جائیں گے تو اپنے اُس جلنے اور جلانے والے جہنم
کے دائمی ٹھکانے میں پُہنچ جائیں گے جہاں پر وہ یہ آرزُو کیا کریں گے کہ
ایک بار اگر وہ دُنیا میں واپس چلے جائیں تو اپنے اُن سرپرستوں کو ضرور
اپنے پیروں پرجھکائیں جو دُنیا میں اُن کو قُرآن دشمنی کی یہ بُری تعلیم
دیا کرتے تھے جس بُری تعلیم نے اُن کو جہنم کے اِس بُرے ٹھکانے میں پُہنچا
دیا ہے ، قُرآن کے اِن بدترین حریفوں کے برعکس قُرآن کے جو بہترین حلیف
دُنیا میں اِن کے مقابلے میں استقامت کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں تو ہم اُن پر
اپنے اُن نادیدہ فرشتوں کو مامور کردیتے ہیں جو اُن کی دل جوئی کرتے ہوۓ
اُن کو یہ یقین دلاتے رہتے ہیں کہ تُم کو قُرآن کے اِن دشمنوں سے خوف زدہ
ہونے کی اِس لیۓ ضرورت نہیں ہے کہ ہم اللہ کی طرف سے تمہیں یہ خوش خبری
دیتے ہیں کہ ہم دُنیا میں بھی اللہ کی طرف سے تُمہارے حمایت کار و مدد گار
ہیں اور آخرت میں بھی اللہ کی طرف سے تُمہارے حمایت کار و مدد گار ہوں گے
اور تُمہارا ٹھکانا اللہ کی وہ جنت ہو گا جس جنت میں جا کر تُمہارے جی جو
خواہش بھی آۓ گی وہ خواہش پُوری کی جاۓ گی اور تُمہاری یہ دل داری و دل
جوئی تُمہارے خطا پوش اور مہربان اللہ کی طرف سے ایک مہمان داری ہوگی اور
تُمہارے اعمالِ خیر کا اَجرِ خیر اِس کے سوا ہو گا !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم کی اٰیاتِ بالا میں بیان کی ہوئی قُرآنِ کریم کی جن دو حریف
اور حلیف جماعتوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ ذکر ماضی کے اُس حرفِ قال کے ساتھ
کیا گیا ہے جس حرفِ قال کا ایک ماضی ہمارے معلوم زمانے سے نزولِ قُرآن کے
معلوم زمانے تک اور دُوسرا ماضی نزولِ قُرآن کے معلوم زمانے سے ماضی کے کسی
نامعلوم زمانے تک پھیلا ہوا ہے کیونکہ ماضی کا یہ نمائندہ حرفِ قال نزولِ
قُرآن کے زمانے میں بھی اسی حرفِ قال کے ساتھ نازل ہوا ہے جس حرفِ قال کے
ساتھ وہ قُرآنِ کریم میں موجُود ہے ، اِس کی وجہ یہ ہے کہ قُرآنِ کریم کا
بیان کیا ہوا یہ اَحوال صرف عہدِ نبوی کی اُن دو جماعتوں کا اَحوال نہیں ہے
جن میں سے ایک جماعت قُرآنی اَحکام پر عمل کرنے والی قُرآن کی حلیف جماعت
تھی اور دُوسری جماعت قُرآنی اَحکام کی مخالفت کرنے والی قُرآن کی حریف
جماعت تھی بلکہ قُرآن کا یہ اَحوال ماضی کے اُن تمام زمان و مکان کا اَحوال
ہے جن زمان و مکان میں قُرآن نازل ہوتا رہا ہے اور قُرآنِ کریم کے ماضی میں
نازل ہونے والے مِنجُملہ دیگر حوالوں کے ایک حوالہ سُورَةُالحِجر کی اٰیت
19 و 20 اور 21 ہے جس میں قُرآن نے ایک نامعلوم ماضی کے حوالے سے قُرآن کی
اُس حریف جماعت کا ذکر کیا ہے جس جماعت کے فرقہ بند اَفراد نے قُرآن کو
اپنے اپنے فرقوں کے خود ساختہ نظریات کا حوالہ بناکر ٹُکڑے ٹکڑے کردیا تھا
اور اُس جماعت کے یہ فرقے قُرآن کی تشریح قُرآن کے مطابق نہیں کرتے تھے
بلکہ اپنے باطل فرقے کے باطل نظریات کے مطابق کیا کرتے تھے ، قُرآنِ کریم
نے اٰیاتِ بالا کے علاوہ جہاں جہاں پر اور جن جن اٰیات میں قُرآن کی اِس
حریف جماعت کا ذکر کیا ہے اُس ذکر سے ایک تو یہ بات بتانا مقصود ہے کہ ہر
زمین اور ہر زمانے کی علمی و عملی کتاب صرف قُرآن رہا ہے اور صرف قُرآن رہے
گا جبکہ دُوسری بات یہ بتانا مقصود ہے کہ قُرآنی اَحکام کی عملی اطاعت کی
جب کبھی اور جہاں کہیں بھی تعلیم دی گئی ہے تو وہاں پر ہمیشہ وہی لوگ
قُرآنی اَحکام کے مخالف بن کر سامنے آتے رہے ہیں جن کا دین و ایمان دُنیا
طلبی و دُنیا پرستی کے سوا کُچھ بھی نہیں ہوتا تھا اِس لیۓ جب بھی اور جہاں
بھی قُرآن کی دینی و رُوحانی تعلیم کی دعوت شروع ہوتی تھی انسانی معاشرے کے
یہ بااثر لوگ قُرآن کی دینی و رُوحانی تعلیم کے مخالف بن کر کھڑے ہوجاتے
تھے اور اپنے زیرِ اثر لوگوں کو بھی اِن قُرآنی اِن تعلیمات کی مخالفت کی
ترغیب دیتے تھے ، اٰیت ہٰذا کے لفظِ { لھٰذی } میں جو حرفِ لام وارد ہوا ہے
وہ معیت کا مفہوم ظاہر کرنے کے لیۓ وارد ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ قُرآن
کے وہ با اثر دشمن اپنے زیرِ اثر لوگوں سے کہتے تھے کہ عام حالات میں تو
تُم ہر شخص کی ہر بات سن سکتے ہو لیکن جب کوئی شخص تُم سے قُرآن کی بات کرے
یا قُرآن کے حوالے سے کوئی بات کرے تو تُم اتنا غل غپاڑہ مچا دیا کرو کہ
کان پڑی آواز بھی سنائی نہ دے یہاں تک کہ قُرآن کی بات یا قُرآن کے حوالے
سے بات کرنے والا شخص قُرآن کی بات سنانے میں ناکام ہو جاۓ ، قُرآن دشمنوں
کے اِس جماعت جَتھے میں ایک طرف تو دُنیا دار اور دُنیا کے پرستار یہ لوگ
پیش پیش تھے جن کا ہم نے ذکر کیا ہے اور دُوسری طرف اِن دُنیا داروں اور
دُنیا کے پرستاروں کے ساتھ اہلِ مذاہب کے وہ اَحبار و رہبان بھی شریکِ جُرم
ہوتے تھے جن کے نزدیک دین فروشی ہی حصولِ منفعت کا ایک ذریعہ ہوتی تھی اور
یہ دین فروش لوگ اپنے اُن سرمایہ دار سرپرستوں کی سیاسی مدد کے لیۓ وہ
مذہبی فرقے قائم کرتے رہتے تھے جو مذہبی فرقے اُن کے اُن صنعتی کار خانوں
کا ایندھن ہوتے تھے اور جن کو اُن قُرآن دشمن سرپرستوں کی طرف سے مذہبی
معاونت کے نام پر مالی و سیاسی امداد بھی ملتی رہتی تھی ، اِن سرمایہ
پرستوں اور سرمایہ دار پرستوں کی یہی ایک مُنکرِ حق جماعت ہوتی تھی جو ہر
زمین و ہر زمانے میں قُرآن کی ایک مُتحرک و فعال حریف جماعت ہوتی تھی اور
قُرآن کی یہی وہ حریف جماعت تھی جو عہدِ نبوی میں بھی ایک مُتحرک اور فعال
فتنے کی صورت میں موجُود تھی اور قُرآن کی اِس خطرناک حریف جماعت کے مقابلے
میں ہر عہد کی طرح عہدِ نبوی میں بھی قُرآن کی وہی چھوٹی سی ایک نحیف اور
حلیف جماعت موجُود تھی جو اپنی پُوری دینی و ایمانی استقامت کے ساتھ قُرآن
کی اُس حریف جماعت کے مقابلے میں کھڑی تھی ، قُرآنِ کریم نے اٰیاتِ بالا
میں اِن دونوں جماعتوں کو دُنیا و آخرت میں ملنے والی جزا و سزا کا ذکر
کرتے ہوۓ جو ارشاد فرمایا ہے اُس کا ماحصل یہ ہے کہ قُرآن کی اِس حریف
جماعت کے لیۓ اِس دُنیا میں سب سے بڑی سزا یہ ہوتی ہے کہ وہ جب تک زمین پر
زندہ رہتی ہے اپنی بڑی بڑی شیطانی روایات کے مقابلے میں قُرآنی اَحکام کے
ماننے والوں کو ملنے والی چھوٹی چھوٹی خُدائی عنایات پر بھی کڑھتی رہتی ہے
اور جب کڑھتے کڑھتے مر مٹ جاتی ہے تو سیدھی آتشِ جہنم میں پُہنچ جاتی ہے
اور آتشِ جہنم میں جانے کے بعد وہ اِس بات کی آرزُو کرتی رہتی ہے کہ اگر وہ
دُنیا میں واپس چلی جائے تو اپنے اُن سرپرستوں کو اپنے پیروں پر جُھکا کر
نیچا دکھاۓ جن کی اندھی تعلیم نے اُس کو اِس جہنم میں پُہنچا دیا ہے اور
قُرآن کی اِس حریف جماعت کے مقابلے میں قُرآن کی جو ایک حلیف جماعت ہوتی ہے
اُس کی دُنیا میں یہ جزا ہے کہ اللہ تعالٰی اُس پر اپنے وہ نادیدہ فرشتے
مامور کردیتا ہے جو ہمہ وقت اُس کے دل و دماغ میں اپنی تسلّی و تشفی کا یہ
پیغام ڈالتے رہتے ہیں کہ اللہ تعالٰی کی ایک دوستانہ و مُشفقانہ مدد دُنیا
سے آخرت تک ہمہ وقت اُس کے ساتھ ہے اور جب وہ جماعت اللہ تعالٰی کی اِس مدد
کے ساتھ وہ اِس دُنیا سے آخرت میں جائے گی تو سیدھی اپنے خوابوں کی اُس
حسین جنت میں پُہنچ جائے گی جہاں پر جو بھی خواہش اُس کے جی میں آۓ گی تو
اُس کی وہ خواہش اللہ تعالٰی کی ایک مہمان جماعت کی حیثت سے ہمیشہ پُوری کی
جاۓ گی !!
|