اَعمال کی کہانی اَجسام کی زبانی !!

#العلمAlilmعلمُ الکتاب سُورَہِ حٰمٓ السجدة ، اٰیت 19 تا 25 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
یوم یحشر
اعداءاللہ الی
النار فھم یوزعون
19 حتٰی اذا ماجاءوھا
شھد علیھم سمعھم وابصار
ھم وجلودھم بماکانوایعملون 20
وقالوالجلودھم لم شھدتم علینا قالوا
انطقنااللہ الذی انطق کل شئی وھو خلقکم
اول مرة والیه ترجعون 21 وماکنتم تستترون
ان یشھد علیکم سمعکم ولاابصارکم ولاجلودکم
ولٰکن ظننتم ان اللہ لایعلم کثیرا مما تعملون 22 وذٰلکم
ظنکم الذی ظننتم بربکم فاصبحتم من الخٰسرین 23 فان
یصبروافالنارمثوی لھم وان یستعتبوافمالھم من المعتبین 24
وقضینالھم قرناء فزینوالھم مابین ایدیھم وماخلفھم وحق علیھم
القول فی امم قد خلت قبلھم من الجن والانس انھم کانواخٰسرین 25
اور انسان پر تو آنے والے زمانوں میں وہ خاص زمانہ بھی ضرور آۓ گا جس زمانے میں اللہ کے دشمن پردوں سے نکال نکال کر اِس طرح سامنے لاۓ جائیں گے کہ اُن میں سے ہر ایک کا پوشیدہ گمان اِس لیۓ اُن کا دیدہ یقین بن کر سامنے آجاۓ گا کہ اُس خاص زمانے میں اللہ کے اُن دشمنوں کے سننے والے کان اپنی تمام سنی ہوئی باتیں بول بول کر بتائیں گے ، اُن کی دیکھنے والی آنکھیں اپنے تمام دیکھے ہوۓ مناظر کا منظر نامہ پڑھ پڑھ کر سنائیں گی اور اُن کے جسمانی ڈھانچھے کو چُھپانے والی کھال بھی اُن کے جسموں میں چُھپے ہوۓ تمام اَحوال اُن کے سامنے لے آۓ گی ، اِس سے پہلے کے ایک خاص زمانے میں جب یہ واقعہ پیش آیا تھا تو اللہ کے اُن تمام پسِ اجسام دشمنوں نے اپنے اِن اَجسام پوشوں سے کہا تھا کہ تُم جو ہمارا غلاف ہو تو پھر تُم کیوں ہمارے خلاف ہو اور تُم نے ہمارا یہ کچا چٹھا کیوں کھول کر سب کے سامنے رکھ دیا ہے تو اُن اَجسام پوشوں نے اُن کا یہ جواب دیا تھا کہ جس اللہ نے آج ہر ایک چیز کو بولنے کے لیۓ زبان دی ہے تو اُس اللہ نے ہمیں بھی بولنے کے لیۓ ہی زبان دی ہے اور یہی وہی اللہ ہے جس نے پہلی بار تمہیں پیدا کیا ہے اور تُم نے آخر میں بھی اُسی کے پاس جانا ہے ، تُم دُنیا میں جب اپنے اعمال چُھپاتے تھے تو تُم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک روز جب اللہ چاہے گا تو تُمہارے سننے والے کان ، تُمہاری دیکھنے والی آنکھیں اور تُمہارے اپنے ہی جسموں کے یہ غلاف تُمہارے خلاف شہادت دیں گے بلکہ تُم تو یہ یقین کیۓ ہوۓ تھے کہ تُم نے جو جو اعمال مخلوق سے چُھپا لیۓ ہیں وہ خالق سے بھی چُھپالیۓ ہیں اور آج تُمہاری یہی غلط فہمی ہے جو تمہیں لے ڈوبی ہے ، اَب اِس حال میں تُم صبر کا مظاہرہ کرو یا بے صبری کا مظاہرہ کرو تُم نے اسی حال اور اسی ماحول میں رہنا ہے ، تُم سے پہلے جن و اِنس کی جو خسارہ کار ملتیں اِس مرحلے سے گزری ہیں اُن ساری ملتوں پر بھی ہمارا یہی فیصلہ نافذ ہوا ہے جو آج تُم پر نافذ ہوا ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیاتِ بالا کے حوالے سے سب سے پہلی فکری حقیقت یہ ہے کہ جس طرح دُنیا کا ایک لفظ زبان سے بولے جانے والے ایک زبانی لفظ کے طور پر بول دینا ایک بہت ہی قلیل سا لَمحہ اور اُس کے زمانی و مکانی عمل سے گزرنا ایک طویل تر زمانہ ہوتا ہے اسی طرح یومِ محشر و عرصہِ محشر اور قیامت و قُربِ قیامت کے سارے الفاظ زبان سے بیان کردینا بظاہر ایک مُختصر لَمحہ ہے لیکن درحقیقت یہ ایک زمانہ عالَم پر گزرنے والے اُن سارے زمانوں کا ایک زمانہ ہے جس زمانے میں ماضی کے لاشمار واقعات ، حال کے شمار دَر شمار تجربات اور مُستقبل کے بیشمار امکانات بھی شامل ہوتے ہیں اِس لیۓ قُرآن جب زمان و مکان کے واقعات بیان کرتا ہے تو قُرآن اِن واقعات میں عہدِ ماضی و عہدِ حال اور عہدِ مُستقبل کے ساتھ جُڑے ہوۓ اِس سارے زمانے میں آنے والے اُن تمام امکانات و ممکنات کو بھی شامل کرتا ہے تاکہ قُرآن پڑھنے والا کوئی انسان جب بھی قُرآن پڑھے تو وہ قُرآن کو ماضی کے واقعات ، حال کے تجربات اور مُستقبل کے اِن سارے امکانات و ممکنات کے ساتھ پڑھے جس سے اُس کے فکر و خیال میں ماضی کے تمام ممکنہ زمان و مکان ، حال کے تمام ممکنہ زمان و مکان اور مُستقبل کے تمام ممکنہ زمان و مکان کا بھی ایک واضح نقشہ مرتب ہو جاۓ اور وہ زمان و مکان کے اُس وسیع نقشے میں قُرآن کو اُس کے وسیع مفہوم کے ساتھ دیکھے اور اُس وسیع مفہوم کے مطابق اِس کو سمجھنے اور بیان کرنے کی کوشش کرے ، اٰیاتِ بالا سے اٰیاتِ بالا کا جو مفہوم ہم نے اخذ کیا ہے اُس مفہوم کے مطابق قُرآنِ کریم نے اپنی اٰیاتِ بالا میں قُرآنی خوانی کا وہی نقشہ اور قُرآن بیانی کا بھی وہی طریقہ بیان کیا ہے جس کا ہم نے اختصار کے ساتھ ذکر کیا ہے ، قُرآنِ کریم کی اٰیاتِ بالا میں دُوسری فکری حقیقت یہ ہے کہ قُرآنِ کریم میں { النار } و { النور } کے جو دو مرکبات آۓ ہیں اُن دونوں مرکبات کا مصدر و مادہ ایک ہے اور اِس مادے کے پہلے مرکب { النار } کا قُرآن نے 126 بار ذکر کیا ہے جبکہ اِس مصدر کے دُوسرے مرکب { النُور } کا قُرآن نے 24 بار اور مُتعلقاتِ نور کا 20 بار ذکر کیا ہے ، اہلِ علم نے نور کے اِن 44 مقامات پر نُور کا جو معنٰی روشنی کیا ہے وہ تو بالکُل بجا ہے لیکن { النار } کا ہر مقام پر جو معنٰی آگ کیا ہے اُس کا معنٰی ہر مقام پر آگ نہیں ہوتا بلکہ کہیں کہیں پر اِس کا معنٰی روشنی بھی ہوتا ہے اور اِس روشنی سے مراد صرف آگ کی روشنی نہیں ہوتی بلکہ وہ مُطلق روشنی بھی ہوتی ہے جو روشنی ہر اُس جگہ پر موجُود ہوتی ہے جہاں پر آگ موجُود ہوتی ہے اور جس جگہ پر آگ موجُود ہوتی ہے اُس جگہ پر اُس آگ کی وہ روشنی اور حرارت بھی موجُود ہوتی ہے جو آگ کے ساتھ لازم ہوتی ہے لہٰذا آگ کے ساتھ روشنی کا ذکر ایک بے معنی بات ہوتی ہے اِس لیۓ جس جگہ پر { النار } سے مراد مُجرد روشنی ہوتی ہے تو اُس جگہ پر اُس مُجرد روشنی سے مُجرد روشنی ہی مراد لینی چاہیۓ اور اسی بنا پر اٰیاتِ بالا کی پہلی اٰیت کے ساتویں لفظ { النار } سے ہم نے آگ مراد نہیں لی ہے بلکہ مُجرد روشنی مراد لی ہے اور اِس لیۓ مراد لی ہے کہ اِس اٰیت اور اِس کے بعد کی اٰیات کا مضمون میں نادیدہ چیزوں کے دیدہ ہونے اور انسان کے چُھپے ہوۓ اعمال کے ظاہر ہونے کا بیان ہے اور اِس جگہ پر ہمیں شاید یہ بات بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہر شئی کے ظہور کے لیۓ ایک روشنی در کار ہوتی ہے اور اِن اٰیات کے اِس مفہوم سے جن اشیا کا ظہور ہوا ہے اُن کے لیۓ بھی یہاں پر اسی روشنی کا ذکر کیا گیا ہے جس روشنی کے ذریعے اِن اشیا کا ظہور ہوا ہے ، اٰیاتِ بالا کی اِس پہلی حقیقت کے بعد دُوسری حقیقت یہ ہے کہ اُس خاص زمانے کی اُس خاص روشنی میں داخل ہونے کے بعد انسان کے کانوں کا اپنے حاملِ کان انسان ، انسان کی چشمِ بصارت کا اپنے صاحبِ بصارت انسان اور انسان کی کھال کا اپنی کھال میں چُھپے ہوۓ انسان کے اعمال کی گواہی دینا ہے تاہم یہ گزشتہ زمانے کی ایک گزشتہ قیامت کے موقعے پر انسانی ہاتھوں اور پیروں کے تکلم اور شہادت کی ایک مثال ہے ، جہاں تک آنے والے زمانے کی آنے والی قیامت کا تعلق ہے تو اُس قیامت میں انسانی ہاتھوں اور پیروں کے اسی تکلم اور اُن کی اسی گواہی کا ذکر سُورَہِ یٰسٓ کی اٰیت 65 میں گزر چکا ہے ، اگر ہم زمانہِ حال میں ظاہر ہونے والی اِن اشیا کے حوالے سے یہ مثالیں دیں کہ ماڈرن سائنس کے اِس ماڈرن دور کا انسان کان کی تصویری زبان ، آنکھوں کے بدلتے رنگوں کی زبان اور ہاتھوں پیروں اور اِن کی پوروں کی زبان کو کس طرح سمجھنے لگا ہے تو بات سے بات نکلتی چلی جاۓ گی اور چونکہ عہدِ حاضر کا ہر انسان اِن امور کو جانتا بھی ہے اِس لیۓ اِن امور کے بیان کی چنداں ضرورت بھی نہیں ہے لیکن اِس حوالے سے جو دو باتیں ہم کہنا چاہتے ہیں اُن میں سے پہلی بات یہ ہے کہ قیامت کا جو عملی ظہور ہوتا ہے اُس کے مظاہر قیامت سے پہلے ہی شروع ہوجاتے ہیں جس کی مثال انسانی اعضا کا دُنیا میں وہ تصویری تکلم کرنا ہے جس کی بیشمار مثالیں انسان کے سامنے موجُود ہیں اور یہ مثالیں پے در پے اِس لیۓ انسان کے سامنے لائی جا رہی ہیں تا کہ انسان اپنے پُورے ایمان و یقین کے ساتھ جان لے کہ انسانی اعضا کے بولنے اور سمجھنے کا جو عمل دُنیا میں انسان کے لیۓ ممکن ہوا ہے تو اُس عمل کا اِس دُنیا اور اِس دُنیا کے بعد کی دُنیا میں اِس عالَم کے خالق کے لیۓ بھی غیر ممکن نہیں ہے بلکہ عین ممکن ہے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 462039 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More