اسلام ……حقوق نسواں کا سب سے بڑا علمبردار

8مارچ کو پوری دنیا میں ’’ خواتین کے حقوق‘‘ کو اجاگر کرنے ،ان پر ہونے والے مظالم کی روک تھام اور ان کی محرومیوں کے ازالے کے لئے سینکڑوں ورک شاپس، جلوس ،سیمینارز منعقد کئے جاتے ہیں یہ ایک کوشش ہے عورت کو اس کا جائز مقام دلانے کی مگر کئی دھائیوں سے ان کے انعقاد پذیر ہونے کے باوجود کیا عورت کی بھیگی پلکوں سے بہتے خواب رک گئے ؟ حنا کی لالی کو ترستے ہاتھوں میں گرتے شبنمی قطروں میں کمی واقع ہوگئی ؟ کیاحیا کے ھالوں میں جھلملاتے سپنے شرمندہ تعبیر ہو گئے؟ کیا اس کی وفاؤں کی بولیاں لگنی بند ہو گئیں ؟ کیا اس کے سچے جذبوں سے کھیلنے والے ختم ہو گئے ؟ جو تحفظ اور امان اسے چاہئے تھا وہ مل گیا ؟ اگر میں حقائق سے نظریں چرالوں تو میرا جواب ہاں ہے مگر پوری دنیا کا میڈیا، اخبارات ، جرائد ،ھیومن رائٹس کی رپورٹس چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ موجودہ دور کی عورت مظلومیت کی انتہاء پر پہنچ چکی ہے ،بغیر کسی منصوبہ بندی کے ’’حقوق نسواں ‘‘کا نعرہ لگا کر پچھلی تین دھائیوں سے اس کی مشکلات میں اضافہ کیا جارہا ہے ،اسے مصائب و آلام کی پر خار وادیوں کا آبلہ پا مسافر بنا دیا گیا ہے ،عورت کو زینت خانہ سے نکال کر رونق محفل بنا دیا گیا ہے ، اسے کمرشلائز کرکے کبھی کسٹمر ز کے لئے ریسپشنز اور ٹیلی فون آپریٹر کی ’’باوقار‘‘ جاب دیدی گئی ،کبھی مارکیٹنگ کے لئے تشہیری مہم اور پروڈکٹ کی ’’زینت‘‘ بنا دیا گیا ، اگر زیادہ ہی احساس ہمدردی ہوا تو پرسنل یا آفس ’’سیکرٹری‘‘ بنا کر داد و تحسین وصول کی ،گھر کی چار دیواری کے مسائل حل کرتے کرتے ہم عورت کو باہر لے آئے اور معاشرے کے بے رحم تھپیڑوں کے سپرد کرکے اس صنف نازک اور حیاء و وفاء کے پتلے سے گھر کا سکون اور چین بھی چھین لیا اس سارے عمل میں بدقسمتی سے اہل فکرو دانش اور ارباب حل و عقد کی رہنمائی لینے کی بجائے مشورہ کرنا بھی گوارہ نہ کیا جس کا خمیازہ آج پوری دنیا بھگت رہی ہے ۔

عورت کو پیش آمدہ مسائل کیا ہیں ؟ ان کا حل کہاں چھپا ہے؟ دنیا کا سب سے بڑا ،اور فطرتی مذہب اسلام اس بارے میں کیا کہتا ہے ؟ اور کیا اسلام کی کہی گئی باتیں موجودہ دور میں قابل عمل ہیں ؟ یہ سب باتیں اس وقت تک سمجھ نہیں آسکتیں جب تک ہم اسلام سے پہلے معاشروں میں عورت کی حیثیت نہ دیکھ لیں ۔

تاریخ کا مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ قبل از اسلام یونانی ، بابلی ،رومن ،قدیم انگلستانی ،قدیم روسی ،میسو پوٹیمی ،قدیم مصری ،قدیم ایرانی ،ھندو ستانی اور قدیم چینی تہذیب میں عورت شیطان کا دوسرا روپ سمجھی جاتی تھی ،دنیا میں شرو فساد کا منبہ و ذریعہ خیال کی جاتی تھی ،باپ اور بھائی اس کو فروخت کرنے کا اختیار رکھتا تھا ،اچھا کھانا اور اچھا پہننا صرف مرد کا حق تھا عورت اس سے بھی محروم تھی ، معاشرتی ،خاندانی ،قومی و ملکی خدمات تو ایک طرف حقوق بھی حاصل نا تھے ، بہنوں اور بیٹیوں سے شادی کرنا معیوب نا تھا، عورت کو گروی رکھنا معمولی بات تھی ،عرب میں دختر کشی کا رواج عام تھا ،عورت صرف جنسی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ تھا اور بس ( بد قسمتی سے ہم بھی اسی طرف جارہے ہیں )اس کی تعظیم کرنا عزت نفس کے خلاف تصور کیا جاتا اور اس کے بارہ میں ایک کہاوت مشہور تھی کہ ’’عورت ایسا پھل ہے جو نہایت خوبصورت ہے لیکن نہایت ہی بد ذائقہ بھی ہے ‘‘۔

اسلام کے علاوہ مذاہب عالم میں بھی عورت کو اس کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا چنانچہ یہودیت اور عیسائیت میں عورت کو گناہ اور غلطیوں کا سر چشمہ قرار دیا گیا ،اسے پیدا ئشی وسوسہ ،ایک مر غوب آفت اور مصیبت کا راستہ کہا گیا ۔ہندو مت اور بدھ مت میں عورت کو زھریلے سانپ سے بھی بد تر قرار دیا گیا ،عورت اور شودر کو جائداد کے حق سے محروم قرار دیا، اگر مرد فوت ہوجائے تو عورت کو زندہ جلا دینا (ستی کی رسم) مذہبی عبادت قرار دی گئی ،جین مت میں تو مردوں کی برائیوں کا سبب بھی عورت ہی گردانی گئی۔

اسلام اور عورت:
فاران کی چوٹی سے طلوع ہونے والے پیغام امن و سلامتی نے ظلمت کدہ عالم میں بھائی چارے ،محبت اور احترام انسانیت کی شمع کو فروزاں کیا تو اس کی منور کرنوں سے جہالت ،ظلم و جبر ، انارکی و استبداد کے اندھیرے چھٹنے لگے اور انسانیت کا چہرہ نکھر کر دنیائے عالم کے سامنے آیا تو چند ہی سالوں میں آدھی سے زائد دنیا ، اسلام کے ہاتھوں تو حید کے پیالے سے احترام انسانیت کے روح پرور جام پی کر اپنے مشام جاں کو معطر کرچکی تھی ،اسی طرح اسلام نے سب سے پہلے عورت کو انسانیت کا مقام دلایا بلکہ انسانیت کے اوج کمال تک پہنچایا ۔

اسلام میں عورت کے بہت سے حقوق مقرر کئے گئے جو اسلام سے پہلے کراہ عرض میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملیں گے مثلاً
(1)……:عزت و راز داری کا حق
(2)……:عصمت و عفت کا حق
(3)……:تعلیم و تربیت کا حق
(4)……:حسن سلوک کا حق
(5)……:ملکیت و جائداد کا حق
(6)……:ماں کی حیثیت سے حق
(7)……:بیٹی کی حیثیت سے حق
(8)……:بہن کی حیثیت سے حق
(9)……:بیوی کی حیثیت سے حق
(10)……:شادی کا حق
(11)……:خیار بلوغ کا حق
(12)……:خلع کا حق
(13)……:مہر کا حق
(14)……:حقوق زوجیت
(15)……:تشدد سے تحفظ کا حق
(16)……:کفالت کا حق
(17)……:اعتماد کا حق
(18)……:بچوں کی پرورش کا حق
(19)……:عورت اور مرد کا خون برابر ہے
(20)……:اسلام میں بہت سارے معاملات میں اکیلی عورت کی گواہی قابل قبول ہے ۔وغیرہ وغیرہ

اسلام نے عورت اور مرد کی فطرتی جسمانی و روحانی صلاحیتوں اور تقاضوں کو ( جوکہ مختلف ہیں ) مد نظر رکھتے ہوئے ان کے کام کی تقسیم بھی کردی ہے تاکہ محبت و یگانگت کی عطر بیزی سے گھر کا آنگن سدا مہکتا رہے اسی لئے مردکوبحیثیت کفیل وذمہ دار کے گھر کا سربراہ بنا یا اور عورت کو گھر کی منتظم جیسا کہ ایک حدیث میں ہے

نبی کریمؐ نے حضرۃ فاطمۃ الزھراہ ؓ کی شادی کے بعد ان کے گھریلو امور کی تقسیم یوں کی کہ حضرۃ علی المرتضیٰ ؓ کو گھر کے باہر کے امور اور سیدہ فاطمہ ؓ کو گھر کے اندرونی کام سرانجام دینے کا کہا اس کو ہم اس مثال سے بھی سمجھتے ہیں کہ ایک فیکٹری وغیرہ میں بہت سارے عہدے ہوتے ہیں اور کام کرنے والے ورکر بھی اب ان میں مناصب ،اہلیت کی بنیاد پر دئے جاتے ہیں (ملک عزیز پاکستان میں بھی یہی بہت بڑا مسئلہ ہے کہ نااہل لوگ مناصب پر براجمان ہیں )اب جو مالک یا انچارج اعلیٰ ہے اس کو باقیوں سے زیادہ جائزاختیارات حاصل ہیں کیونکہ پیسوں سے لے کر تمام ضروریات کو پورا کرنا ،ماحول کو معتدل رکھنا اور تمام اونچ نیچ اسی کے ذمہ واجب ہے اسی طرح مرد کو اسلام نے بیوی ،بچوں کا کفیل بنایا ہے سب کچھ مینج کرنا اس کی ذمہ داری ہے تو جیسے ایک والد یا فیکٹری اونر اپنے نظام کو صحیح کرنے کے لئے جائز اور صحیح طریقہ اختیار کرنے کا مجاز ہے اسی طرح مرد کو بھی اپنی تمام اسلامی حدود و قیود میں رہتے ہوئے گھر مینج کرنے کا اختیار حاصل ہے ،ہاں اگر کوئی مرد اسلامی حدود و قیود کا خیال نہیں کرتا تو اس کا حل بھی اسلام ہی میں موجود ہے ناکہ اپنے سورج سے لمعہ افروز ہونے کی بجائے دوسروں کے بجھے چراغوں سے روشنی مانگی جائے۔

 

Sufiyan Ali Farooqui
About the Author: Sufiyan Ali Farooqui Read More Articles by Sufiyan Ali Farooqui: 28 Articles with 31280 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.