زمانہ ء جاہلیت میں بیٹیوں کو زندہ درگور کر دینے کا رواج
تھا ،لیکن بعد اسلام اس قبیع فعل کا خاتمہ کر دیا گیا ۔لیکن موجودہ ترقی
یافتہ دور میں بیٹوں کی خواہش رکھنے والے باپ پیدا ہونے والی بچیوں کو قتل
کر دینے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے ۔آئے روز ایسے واقعات رونماء ہوتے
رہتے ہیں ۔لیکن گذشتہ روزمیانوالی میں شاہ زیب نامی باپ نے اپنی7 دن کی
بچی’’جنت‘‘ کو 5فائر مار کر قتل کردیا اس واقعہ نے درد دل رکھنے والے عوام
کے دل دہلا کر رکھ دئیے ہیں ۔شاہ زیب نے دوسال قبل داؤد خیل (میانوالی)کی
مشعل فاطمہ سے شادی کی تھی ،چند دن قبل دونوں کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی جس پر
میاں بیوی میں جھگڑاہوا کہ ’’بیٹا کیوں نہیں پیدا کیا ۔‘‘اسی بات پر شاہ
زیب نے اپنے سسرالیوں کی موجودگی میں پستول سے پے در پے فائر کرکے اپنی
بیٹی ’’جنت‘‘ کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔
مقتول بچی کا باپ قابل نفرت ہے کہ جس نے خود توایک عورت کی کوکھ سے جنم
لیا۔پھرجوان ہواتو اسے شادی کے لئے بھی ایک عورت کی ضرورت پڑی۔لیکن جب اس
عورت نے ایک بیٹی کو جنم دیا تو اس کو ناگوار گذرا۔ اس ناہنجار نے بیٹا نہ
ہونے کی وجہ سے اپنی ہی معصوم بچی کو گولیا ں ماردیں ۔بیٹے کی خواہش رکھنے
والے باپ کے ہاتھوں بیٹیوں کوقتل کئے جانے کے واقعات اب معمول بن چکے ہیں ۔لیکن
اس سانحہ میں ظلم و بربریت کی انتہاء یہ ہے کہ ایک معصوم کلی جو بول سکتی
تھی اور نہ ہی ظالم کا ہاتھ روک سکتی تھی ۔باپ نے ’’جنت‘‘نام کی اس معصوم
کلی(بیٹی) کوقتل کرنے کیلئے 5 فائر کئے ۔ لعنت ہو اس ظالم اور سفاک باپ پر
کہ جس نے ایک معصوم کی جان لے لی۔
بیٹی تو اﷲ کی رحمت ہوتی ہیں۔ربّ کائنات نے تکمیل کائنات کیلئے آدم و حوّا
کو تخلیق کیا ۔یوں آج دنیا کی سبھی رنگینیاں عورت اور مرد کی بدولت کی قائم
و دائم ہیں ۔کہتے ہیں کہ جس گھر میں بیٹیاں ہوتی ہیں اس گھر پر اﷲ کی رحمت
ہوتی ہے ۔بیٹی کے بغیر گھر سونا سونا لگتا ہے ۔بزرگوں کاکہنا ہے کہ جس ماں
کی اولاد بچپن میں وفات پا جائے ،تو اس کا وہ بیٹا اور بیٹی والدین کو جنت
میں لے جانے کا وسیلہ بنے گا ۔روز ِمحشر بچپن میں وفات پا جانے والے بچے
اپنے ربّ سے التجا کریں گے کہ اے میرے ربّ!تو نے ہمیں دنیا میں اپنے ماں
باپ کی شفقت اور محبت سے محروم رکھا ہے تو آج اس ابدی زندگی میں تو ہمیں
والدین کے سائے سے محروم نہ رکھ ۔اور یوں یہ بچے اپنے والدین کو اپنے ساتھ
جنت میں لے جائیں گے ۔بیٹوں کی خواہش رکھنے والے یہ بات ذہن میں رکھیں کہ
لڑکی یا لڑکے کا ہونا انسان کے بس کی بات نہیں ۔۔یہ ربّ کائنات کی مرضی و
منشاء ہے کہ وہ انسان کو کس قابل سمجھتا ہے ۔معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ
بیٹیوں کو ’’رحمت ‘‘کی بجائے’’ زحمت ‘‘سمجھنے والوں کو اپنے بیٹوں سے بھی
اکثر سکھ نصیب نہیں ہوتا ۔یہ بیٹاں ہی ہوتی ہیں جو شادی کے بعد بھی اپنے
والدین کا سہارا بنا کرتی ہیں ۔والدین بیٹیوں کو پال پوس کر انہیں جب کسی
اجنبی کے ساتھ بیا دیتے ہیں تو ان کی رخصتی کا لمحہ بھی ان کے لئے کسی کرب
اور اذیت سے کم نہیں ہوتا ۔لوگ بیٹیوں کی پیدائش سے اتنے غم زدہ نہیں ہوتے
جتنا ان کے نصیب کے بارے میں سوچ سوچ کر پریشان اور مضطرب ہوتے ہیں ۔میانوالی
میں بیٹی کو 5فائر مار کر قتل کرنے والے ناہنجار اور سفاک باپ نے اپنے گھر
آنے والے رحمت کی بے قدری کی اور اسے قتل کرکے اس معصوم کو اپنے لئے’’ زحمت
‘‘بنالیاہے۔اس معصوم پر گولیاں برساتے ہوئے اس ظالم کو ذرا رحم نہیں
آیا۔لوگ تو دوسروں کی اولاد سے بھی پیار کرتے ہیں۔یہ پھول سی کلیاں کسی
نفرت کی نہیں، محبت وشفقت کی حقدار ہوتی ہیں۔بد بخت ہے یہ نوجوان جس نے اس
پھول سی کلی کو مسل ڈالا۔قاتل کی بخشش نہیں ،روز محشر بھی ربّ کائنات ایسے
ظالم کو اس وقت تک معاف نہیں کریں گے جب تک مقتول اسے معاف نہیں کرے گا ۔اس
قتل پر میانوالی ہی نہیں سارے ملک کے عوام غم زدہ اور سوگوار ہیں۔۔ہر آنکھ
اشکبار ہے۔معصوم بچی کو قتل کرنے کیلئے5فائر مارناسراسر دیوانگی اور ذہنی
خلل کا شاخسانہ ہے۔معاشرے میں بے شمار لوگ ایسے ہیں کہ جو اولاد کی نعمت سے
محروم ہیں ۔کتنے ہی لوگ اولاد نہ ہونے کی وجہ سے دوسروں کے بچوں کو اپنی
اولاد کی طرح پال رہے ہیں ۔اولادکی قدر ان بے اولاد جوڑوں سے پوچھیں کہ
جواولاد کی خواہش میں کیا کیا کچھ کرتے ہیں لیکن پھر بھی اولاد نہیں ہوتی ۔ایسے
گھرانے بھی ہیں کہ جہاں بیٹے کی خواہش میں سات سات بیٹیاں ہوگئیں۔لیکن ان
کے ماتھے پر کبھی بل نہیں آیا ۔اس ظالم کو اگر لڑکی کی ضرورت نہ تھی توایسے
میں اس معصوم کوقتل کرنے کی بجائے اسے کسی بے اولاد جوڑے کی گود میں ڈالا
جا سکتا تھا۔اسے ایدھی فاؤنڈیشن یا کسی اور یتیم خانے والوں کے سپرد کیا
جاسکتا تھا لیکن کسی نے سچ کہا کہ جب انسان کی" مت "ماری ہویا عقل گھاس
چرنے گئی ہوتو بندہ ایسی ہی حرکتیں کرتا ہے ۔
یوں تومعاشرے میں یہ قباحت بھی چل رہی ہے کہ بعض لوگ پیدائش سے پہلے ہی
’’جنس ‘‘ بارے ٹیسٹ کروا رہے ہیں اور ’’لڑکی ‘‘ پیدا ہونے کی رپورٹ پر
پیدائش سے پہلے ہی اسے ضائع کروا دیتے ہیں یعنی کہ پیدائش سے پہلے ہی لڑکی
کو قتل کروا دیتے ہیں ۔۔یہ بھی ایک بڑا جرم ہے ۔۔اور یہ سب ربّ کائنات کے
کاموں میں دخل اندازی اور ناشکری کے مترادف ہے ۔اس ظالم کو تو اپنے ربّ کا
شکر گذار ہونا چاہئے تھا کہ اﷲ نے اسے اپنی’’ رحمت ‘‘سے نوازا ۔یہ بھی ممکن
تھا کہ بیٹی کی جگہ اس کے ہاں کوئی ’’خواجہ سرا ‘‘پیدا ہو جاتا یا کوئی
معذور بیٹا ہی پیدا ہوجاتا ۔لیکن اس ظالم نے اپنے ربّ کا شکر گذار ہونے کی
بجائے ناشکری کی انتہاء کردی اور معصوم کی جان لے لی ۔
اس سانحہ پردل خون کے آنسو رو رہا ہے ۔بیشک! اس ظالم کی معافی نہیں۔اس کی
سزا صرف اور صرف پھانسی ہے ۔انصاف کا تقاضا ہے کہ اس ظالم باپ کو کسی لمبے
عدالتی ٹرائل سے گذارنے کی بجائے مختصر وقت میں سرعام لٹکا کر’’ نشانِ
عبرت‘‘ بنایا جائے ۔۔جب تک ایسے لوگوں کو سرعام الٹا نہیں لٹکایا جائے گا
اس وقت تک اس قسم کی مظالم کو روکنا ممکن نہیں ہوگا۔۔ریاست اس سانحہ میں
خود فریق بنے اور ایک معصوم کلی کی جان لینے والے کو بلاتاخیر تختہ دار پر
لٹکا دینے میں دیر نہیں لگانا چائیے۔۔ یہ پھول سی کلی جنت میکن ہو گئی لیکن
اس کا ظالم باپ اگرپھانسی دینے میں کسی رکاوٹ کی وجہ سے زندہ بچ بھی گیا تو
اسے کبھی زندگی میں سکون نہیں ملے گا،یہ معصوم بچی اپنے باپ سے دن کے اجالے
اور رات کے اندھرے میں بھی یہی ایک سوال پوچھتی ہوئی نظر آئے گی کہ بابا
جانی ! میرا قصور کیا تھا جو تم نے مجھ معصوم کے سینے میں5 فائر مار کر قتل
کردیا ۔بیشک ! اس معصوم بچی کے قتل پر ہم سب شرمندہ اور شرمسار ہیں۔پیاری
بیٹی’’جنت‘‘ ہمیں معاف کردینا ۔ہم دکھ اور کرب کے اس الاؤ میں جل رہے ہیں
کہ جس کی تپش ہمیں کبھی چین نہیں لینے دے گی ۔ ۔۔۔۔ بقول شاعربشیر بدر
وہ شاخ ہے نہ پھول، اگر تتلیاں نہ ہوں
وہ گھر بھی کوئی گھر ہے جہاں بچیاں نہ ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|