پنجاب سول سیکرٹریٹ ایمپلائز ایسوسی ایشن کے پریس
سیکرٹری اور کوآرڈینیشن کونسل کے میڈیا ایڈوائزر عبد الکریم اعوان گذشتہ
دنوں خالِق حقیقی سے جاملے۔پنجاب سول سیکرٹریٹ ایمپلائز ایسوسی ایشن کے
الیکشن سال 2013ء کی انتخابی مہم جاری تھی اور ابھی الیکشن شیڈول آنے والا
تھا،ریگویشن ونگ ایس اینڈجی اے ڈی میں فرینڈزگروپ کی کارنرمیٹنگ ہورہی تھی
جب اِس کا اختتام ہوا تو ایک شخص مجھے مِلا اور اپنا تعارف عبدالکریم اعوان
کی حیثیت سے کروایا اور ساتھ ہی کہہ دیا کہ مجھے آپ کے پاس محمد اسلم ساہی
صاحب نے بھیجا ہے اور کہا تھا جاکر سیدھا اُن سے مِلنامیں آپ کی تلاش میں
ڈھونڈتا ہوا ادھرآن پہنچا ہوں میں نے ہاتھ پکڑا تھوڑا سائیڈ پر ہوکر بات
چیت شروع کی اُنہوں نے مجھے اپنا مدعا بیان کیا اور الیکشن لڑنے میں دلچسپی
ظاہر کی اور بطور پریس سیکرٹری زکوٰۃ وعشر محکمہ میں اپنے کا م میں مہارت
کا تذکرہ کیا میں نے بعد ازاں اپنے دیگر سینئر ساتھیوں سے مرحوم کا تعارف
کروایا آدمی پھرتیلا اور دلچسپ تھا دوسرے کادل جیت لینا اُسے آتا
تھا،دیکھتے ہی دیکھتے وہ سب کی آنکھ کا تارا بن گیا، خبر بنانے کے ڈھنگ سے
زیادہ واقفیت نہ تھی مگر محنت کے فن میں کمال حاصل تھا۔طریقہ مگر اُس نے
پہلے دِن ہی ڈھونڈ لیا تھا۔راقم سے خبر بنوالیتا بس پھر وہ جانے اور اُس کا
کام، تحریر میں تو مہارت حاصل نہ کرسکا مگر تشہیر میں بازی لے گیا ،اُس نے
الیکشن مہم کے دوران ہی سار ے میڈیا میں فرنیڈز گروپ کی دُھوم مچا دی۔
میڈیا کے لوگوں سے راقم نے اُسے فرداً فرداًمتعارف کروایا پھر کیا ہوا اُس
نے سب کو اپنا گرویدہ بنا لیااور پھر مڑ کر پیچھے نہیں دیکھا چونکہ وہ آگے
بڑھنے کی تڑپ رکھتا تھا۔
وہ ہر ایک کی صلاحیت جانچنے اور مزاج پرکھنے کی کسوٹی لئے ہوئے تھا اُس کی
ڈکشنری میں ناں نام کی چیز نہیں تھی اسی وصف نے اُسے ہر دِلعز یز بنا دیا۔
الیکشن 2013ء میں فر ینڈز گروپ نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی اورعبد
الکریم اعوان اس پینل سے پریس سیکرٹری منتخب ہوگئے پھر جندڑی چل سوچل کی
طرح بھاگتی رہی اور تڑپتا پھڑکنا، پھڑک کر تڑپنالہو گرم رکھنے کا ہے اک
بہانہ کے مصداق متحرک رہی۔
یہ ایک جنون تھا جس نے ایسوسی ایشن کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا اور اس
پلیٹ فارم کو اتنا وقت دیا کہ ضرب المثل بن گیا۔ تیرے جانے کے بعد اب کہاں
سے ڈھونڈ کر لائیں جو تیر ے جیسا ہو۔
عبدالکریم اعوان کا تعلق چک نمبر 29/3Rشہید چوک ہارون آباد ضلع بہاولنگر سے
تھااُن کے والد عبد الحکیم سرکاری سکول میں عربی کے اُستاد تھے اس کے علاوہ
مسجد میں امامت کرواتے اور بچوں کو ناظرہ قرآنِ مجید پڑھاتے عبد الکریم
اعوان کے سُسرمفتی عبدالطیف ایک بلند پایہ عالِم د ین اور مدرسہ جامعہ قاسم
العلوم فقیر والی میں شیخ الحدیث تھے۔ مذہبی پس منظر رکھنے والے عبد الکریم
اعوان نے خود بھی بہت سے لوگوں کو ناظرہ قرآنِ پاک پڑھایااُنہیں قرآن پاک
کا ترجمہ کرنے پر بھی دسترس حاصل تھی ۔قرآت سیکھ رکھّی تھی پنجاب سول
سیکرٹریٹ ایمپلائز ایسوسی ایشن کی ہر تقریب کا آغاز اُن کی خوبصورت آواز
میں تلاوت قرآن سے ہوتا۔ وہ صوم وصلوٰۃ کے پابند تہجد گزار اور قرآن کی
تلاوت میں وقت لگانے والے نرم دل انسان تھے۔
عبدالکریم اعوان نے بطور پریس سیکرٹری حلف اُٹھانے کے بعد اپنے منصب سے اس
قدر انصاف کیا کہ لوگ عش عش کر اُٹھے ،مجھے یاد ہے کہ الیکشن جیتنے کے بعد
ہم معروف صحافی رحمت علی رازی مرحوم جو کہ میرے عزیز تھے اُن کے دفتر
مٹھائی لے کر حاضر ہوئے جب اِن کا تعارف ہواتو، رازی صاحب نے کہا آپ پریس
سیکرٹری بن گئے ہیں آج سے آپ آدھے صحافی ہیں میری نصیحت پلے باندھ لیں خبر
اخبار کے دفتر پہنچا کر آپ نے لا تعلق نہیں ہوجانا اُس خبر کی پیروی میں
متعلقہ بیٹ رپورٹر کو ٹیلی فون کرکے خبر لگوانے کی درخواست کرنی ہے ۔وہ آخر
وقت تک اس نصیحت پر کار بند رہے جس اخبار کے دفتر فون پر رابطہ نہ ہوپاتا،
بنفس نفیس خود وہاں پہنچ جاتے اسی خوبی نے اُنہیں کامیاب پریس سیکرٹری کے
طورپر منوایا۔پریس سیکرٹری ہونے کی بناپر صحانی برادری سے مثالی تعلقات
قائم کررکھے تھے جس کا عملی اظہار ایسوسی ایشن کی بھر پور کوریج سے ہوتا
تھا۔ مرحوم میں خود نمائی کا شوق بھی تھا اور خود کومتعارف کروانے کا ڈھنگ
بھی، میں نے جو یہ ر نگ اُن کی ذات میں دیکھا خال خال ہی کسی تنظیمی
عہدیدارمیں نظر آیا ہوگا،مرحوم اِس کے لیے بھی میرا کندھا استعمال کرتے اور
کہتے مجھے اور میرے لالے کو خود نمائی کا شوق نہیں ۔ہرمجلس کی رونق اُن کے
دم خم سے ہوتی بالخصوص احتجاجی پروگرام کے دوارن لوگوں کو احتجاج کے لیے
دفاتر سے نکالنے میں ا ُن کا کوئی ثانی نہ تھا ،اﷲ اور رسُول کا واسطہ دے
کر، اپنے حقوق کے تحفظ کا وعدہ یاد دلاکر، کسی کی سوئی حمیت کو جگاکر، کسی
کی انا کو جھنجھوڑ کر ، کسی کو اپنے خصوصی مراسم کا حوالہ دے کر، کسی کو
دبے لفظوں آنکھیں دکھاکر، کسی کو باتوں کا بول بچن مارکر ، کسی سے دھمکی
آمیز روےّہ روا رکھ کر احتجاجی پنڈال تک لے جانے میں مہارت تامہ رکھتے
تھے۔وہ پنجاب سول سیکرٹریٹ کی پہچان ، ملازمین کی شان ، ایسوسی ایشن کی
جان،اور میری آن تھے جبکہ دیگر تینوں صوبوں، آزاد کشمیر سمیت وفاقی
سیکرٹریٹ اسلام آباد میں بھی اُن کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا
تھا۔ عبدالکریم اعوان مرحوم نے 2016ء میں کلیریکل کیڈر کی تاریخی اپ گریڈ
یشن اور بعد ازاں 2018ء میں 50%سیکرٹریٹ الاوئنس سمیت یوٹیلٹی الاوئنس کی
منظوری کے دونوں مواقع پر اپنے محکمہ اطلاعات ونشریات پنجاب میں دیگیں پکا
کر دعوت عام کا بھر پور اہتمام کرکے شکُرانہ نعمت ادا کیا تھا۔
آفیسرانِ بالا کے ساتھ مذاکرات کے دوران کبھی تلخی اور تناؤ آجاتا تو بعد
از مذاکرات ،وہ بغیر بتائے جاتے اور بقول اُن کے پوچا پھیر آتے آفیسران بھی
اُن کی بزُرگی کا خوب پاس کرتے اب اُن کے بعد کون ہے جو پوچے کا کام کرئے
گااب اُن جیسا ظرف کہاں سے ڈھونڈ کر لائیں گے۔ بر موقع برمحل بات کرنے کے
فن سے آشنا تھے ایک مرتبہ راقم اُن کے ساتھ ایک آفیسر کے پا س گیا کچھ
مطالبات تھے جن کی اپ ڈیٹ لینی تھی کمرے میں داخل ہوتے ہی آفیسرنے ہم دونوں
پر چڑھائی کردی جب اُس کی سانس پھول گئی تواُسے بحال کرنے کے لیے رُکا تو
مرحوم گویا ہوئے اور کہا ،سر ہم تو آپ کے فوت ہونے والے عزیز کی فاتحہ
خوانی کے لیے حاضر ہوئے تھے آپ نے تو ہماری سنی ہی نہیں تو وہ آفیسر بہت
شرمندہ ہوئے معذرت کی ہم نے فاتحہ خوانی کی تو اُنہوں نے اسی عالم میں ہمیں
سب کچھ بتا دیا، باہر نکلے تومیں نے کہا اعوان صاحب آپ نے تو کمال کر دیا
اتنی حاضر دماغی کہنے لگے چوہدری صاحب جاتے ہوئے میں نے نوٹس بورڈ پر فوتگی
کی اطلاع پڑھی تھی جو کام آگئی، میں اکثر یہ واقعہ دوستوں کو بتاکر اُن کی
حاضر دماغی کی داد دیتا۔
اﷲ پاک نے مرحوم کو اچھی یادداشت سے نواز رکھّا تھا، دوستوں کے نام، اُن کی
ذات برادری اُن کی آبائی سکونت، چکوک کے نام، اُن سے تعلق رکھنے والے بڑے
بڑے ناموں کے حوالے، اُن کی ذات سے منسُوب واقعات از بر ہوتے جس سے وہ
دوسروں کو گروید ہ کرلیتے۔
قارئین کرام! میر ے دوست اس انتھک شخص کو میری دریافت قرار دیتے میرے ساتھ
اُن کا رشتہ اس شعر کی مانند رہا ’’ یار وجی نوں جی ہوندی اے ، ہور محبت کی
ہوندی اے، ایک ایک دو گیارہ مجھے بھی اس محاورے کا مطلب اُن کی صحبت اختیار
کرنے کے بعد ہی حقیقی معنوں میں سمجھ آیا جب سیکرٹریٹ ملازمین کے حقوق کے
تحفظ کے لیے جدوجہد کا آغاز کیا کبھی خود کو اکیلا نہیں پایا۔ وہ شخص میرے
ساتھ سائے کی طرح رہتا ،وہ میرا ہمدم اور ہمقدم تھا ، وہ شکستگی میں
میراحوصلہ، اور تھکاوٹ میں میری توانائی تھا ، وہ میرا خیر خواہ تھا ، وہ
میرا دایا ں بازو تھا،میر ے لئے وہ تازہ ہوا کا جھونکا تھا،وہ مجھے لاے کی
جان کہتا اب وہ جان جہان میں نہیں رہی جو مجھے لالے کی جان کہا کرئے گی ۔وہ
تو سب سے محبت کرتا تھا اُسے کسی سے روٹھ جانا اچھا نہیں لگتا تھا، وہ بڑھ
چڑھ کردُکھ سُکھ میں شریک ہوتا، وہ تھوڑا بڑبولا تو تھا مگر دِل کا ریشم کی
طرح نرم ، جس سے اُس کادِل مل جاتا پھر اُسے ڈھونڈ نے سے بھی اُس میں عیب
نظر نہ آتا کسی کا کام ہو ،یا نہ ہو مگر وہ ہر کسی کے ساتھ چلتا وہ جس کے
ساتھ ہوتا اُسی کا ہوکر رہ جاتا۔وہ کبھی کبھی اپنے دوستوں کے عدم تعاون پر
مایوس ہوتا تو میں اس سے اکثر کہتا اعوان صاحب ’’ مت شکایت کرو، زمانے کی ،
یہ علامت ہے ،ہار جانے کی وہ مجھے جواب میں برملا کہتاچوہدری صاحب ‘‘ روشنی
بن کر اندھیروں میں اُتر جاتے ہیں ہم وہی لوگ ہیں جوجان سے گذر جاتے
ہیں۔اگست 2021ء میں اُن کا پراسٹیٹ گلینڈز کا آپریشن ہوا غدودنکال کر جب
لیبارٹری سے ٹیسٹ کروایا گیا تو کینسر کی آخری سٹیج کی نشاندھی ہوئی ،مریضِ
عشق پر رحمت خدا کی ، مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی، اسی آپریشن کے دوران
ریڑھ کی ہڈی میں ٹیکہ لگنے کی وجہ سے اُن کا آدھا دھڑ مفلوج ہوگیا تھا وہ
صاحبِ فراش ہوگئے مگر حواس مکمل بحال تھے بات چیت پوری طرح کرتے اپنے چھوٹے
بیٹے مستنصر کے ولیمہ کی دعوت دی مگر شادی سے کچھ روز قبل اُن کے دماغ پر
فالج کا حملہ ہوا، ہم ولیمہ پر پہنچے تو وہ بے ہوشی کی حالت میں تھے ہمیں
پہچان نہ سکے ۔ برق رفتار شخص کو بے حس وحرکت دیکھ کر ہمارے آنسو تھم نہ
سکے۔ اتوار27فروری کو ولیمہ تھا3مارچ کو وہ اس جہان فانی سے کوچ کرگئے ہم
جنازے میں شرکت اور چارپائی کو کندھا دینے کے لیے پہنچے ۔ راقم جب اُن کی
قبر پر مٹی ڈال رہا تھا تو بے ساختہ منہ سے یہ شعر نکلا۔
مُٹھیوں میں خاک لے کر دوست آئے وقت ِدفن
یوں زندگی بھر کی محبت کا صلہ دینے لگے
عبد الکریم اعوان کے دونوں بیٹے جنازے کے موقع پر بلک بلک کر رو رہے تھے ہم
سے یہ منظر دیکھا نہ گیاحوصلہ کر کے دونوں کو گلے لگایا اور ڈھارس
بندھائی۔اور دِل میں یہ بات آئی ’’ان کے ہونے سے بخت ہوتے ہیں، باپ گھر کے
درخت ہوتے ہیں‘‘ آج وہ شفقت ِ سایہ دار پیٹر کی چھاؤں سے محروم ہوچکے
تھے۔مگر کیا کیاِجائے یہ ہونی ٹلتی نہیں ،نہ کوئی اس کا ،نہ یہ کسی کی، یہی
حقیقت ہے زندگی کی ،لالے دی جان میں ہمیشہ آپ کے لئے پریس ریلیز لکھتا رہا
مگر آج آپ پر پریس ریلیز(کالم) لکھ رہا ہوں لکھنے کے دوران کئی بار آنکھیں
چھلک پڑیں اور میں نے یہ شعر لکھا۔
کون کہتا ہے کہ الفاظ جذبوں کی صدا ہوتے ہیں
یہ تو دِل کے اظہار پر آنکھوں سے ادا ہوتے ہیں
اﷲ تعالیٰ عبد الکریم اعوان مرحوم کی کامل بخشش و مغفرت فرمائے (آمین) |