پیر کامل حضرت محمد عنایت احمد ؒ نقشبندی مجددی

قطب دوراں ٗ منبع رشدو ہدایت ٗ خلیفہ مجاز حضرت کرماں والا شریف
گیارہواں عرس 26اور27 مارچ2022ء

 جو انسان بھی دنیا میں آیا ہے اسے بھی ایک نہ ایک دن یہاں سے اپنے رب کے پاس لوٹنا کر جانا ہے ۔لیکن کچھ ہستیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جنہوں نے صرف اﷲ تبارک و تعالی اور اس کے پیارے حبیب حضرت محمد ﷺ کے ارشادات کو مخلوق تک پہنچانے اور بھٹکے ہوئے انسانوں کو راہ راست پر لانے کے لیے ہی اپنی زندگی کو وقف کردیاہوتا ہے۔ ایسی عظیم روحانی ہستیوں کو لوگ "ولی کامل " کے لقب سے پکارتے ہیں ۔ ایسی ہی پر تاثیر ٗ پروقار ٗ منبع رشد و ہدایت ہستی کا نام گنج عنایت،حضرت پیر محمد عنایت احمد ؒ نقشبندی مجددی ہے ۔جن کی زندگی کا ایک ایک لمحہ دین الہی کو سیکھنے ، شریعت محمدیﷺ پر عمل پیرا ہونے اور بھٹکے ہوئے انسانوں کو راہ راست پر لانے میں صرف ہوا ۔ آپ ؒ 73 سال کی عمر پاکر 31 جولائی 2011 ء کی دوپہر گیارہ بجے انتقال فرماگئے ۔ ان اﷲ و انا الیہ راجعون۔ بے شک ہم سب اﷲ کے لیے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں ۔

اﷲ نے ہی موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرتا ہے ۔
بے شک وہ زبردست اور بخشنے والا ہے ۔( سورۃ ملک آیت نمبر 2)

گنج عنایت ،پیر کامل ٗ قطب دوراں ٗ منبع رشد وہدایت حضرت محمد عنایت احمدؒ نقشبندی مجددی 1938ء کو وادی کشمیر کے معروف گاؤں " کلسیاں " کے ایک دینی گھرانے میں پیدا ہوئے ۔آپ ؒ کے والد حضرت صحبت علی ؒ شرافت ٗ دیانت اور روحانیت کے اعتبار سے پوری وادی میں اپنی الگ پہچان رکھتے تھے ۔حضرت صحبت علی ؒ بٹالہ شریف والوں کے مرید تھے جن کی شہرت پورے ہندوستان میں تھی۔تبلیغ دین اور روحانی فیض کے ساتھ ساتھ آپ ؒ کے والد گرامی کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی تھا بلکہ پھلوں کے چند باغ بھی آپ ؒ کے خاندان کی ملکیت تھے ۔آپ ؒ کی والدہ ( حضرت قاسم بی بی ) بہت نیک سیرت اور پابند صلوۃ تھیں۔ گھریلو خانہ داری کے ساتھ ساتھ گاؤں کی بچیوں کو قرآن پاک کی تعلیم بھی دیا کرتی تھیں۔ آپؒ کی پیدائش کے کچھ ہی عرصہ بعد قطب الاقطاب حضرت سید ولایت شاہ ؒ مبارک باد دینے کے لیے آپؒ کے گھر تشریف لائے اور آپ ؒ کو گود میں لے کر پیار کرتے ہوئے فرمایا اﷲ نے اگر چاہا تو یہ بچہ اپنے وقت کا قطب ٗ عالم دین اور منبع رشد و ہدایت ہوگا اور لاکھوں بھٹکے ہوئے انسانوں کو صراط مستقیم پر گامزن کرے گا ۔ اﷲ نے اپنے اس عظیم بندے کی زبان سے نکلنے ہوئے الفاظ کی کچھ اس طرح لاج رکھی کہ جب اسی بچے نے منصب ولایت پر فائز ہونے کے بعد خود کو دین الہی کی تبلیغ اور نبی کریم ﷺ کی محبت کو عام کرنے میں کچھ اس طرح وقف کردیا کہ شہر لاہور کے علاوہ دور و نزدیک کے قصبات اور شہروں سے لوگ جوق در جوق آپؒ کی زیارت اور فیض حاصل کرنے کے لیے جوق در جوق آتے رہے ۔ رشد و ہدایت کا یہ سلسلہ ان کی زندگی کی آخری سانس تک جاری و ساری رہا۔

چاروں اطراف سے پہاڑوں میں گھیرا ہوا گاؤں " کلسیاں " خوبصورتی اور صحت افزا ماحول کے اعتبار سے اپنی مثال آپ تھا ۔ اس گاؤں میں تو اکثریت مسلمانوں کی تھی لیکن ہندو اور سکھ بھی آباد تھے تمام مساجد کا انتظام و انصرام آپ ؒ کے خاندان کے سپرد تھا ۔گاؤں کے سرکاری سکول میں آپ ؒ نے دنیاوی تعلیم کا باقاعدہ آغاز کیا جبکہ قرآن پاک اپنی والدہ ماجدہ سے پڑھا۔پھر جب حضرت قائداعظم محمد علی جناح ؒ کی عظیم جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان دنیا کے نقشے پر وجود میں آیا تو آپ ؒ کا خاندان وادی کشمیر سے ہجرت کرکے گجرات کے نواحی قصبے چک 34 میں آکر آباد ہوگیا ۔یہاں آئے ہوئے ابھی چند ہی سال گزرے تھے کہ آپ ؒ کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہوگیا۔ گویا چھ سال کی عمر ہی میں آپ ؒ شفقت مادر سے محروم ہوگئے اور والدہ کی کمی کو آپ ؒ زندگی کے آخری سانس تک شدت سے محسوس کرتے رہے ۔
جب آپ ؒ نے کچھ ہوش سنبھالا تو والد گرامی نے آپ ؒ کو علاقے کی معروف دینی شخصیت اور شیخ القرآن ٗ علامہ حضرت مولانا غلام علی قادری اشرفی کے مدرسے میں داخل کروادیا۔کچھ عرصہ تو دینی تعلیم کا سلسلہ چک 34 میں ہی جاری رہا پھر جب استاد العلما حضرت مولانا غلام علی قادری اشرفی نے اوکاڑہ شہر میں ایک بڑے دینی مدرسے " اشرف المدارس "کی بنیاد رکھی تو آپ ؒ بھی والد گرامی کے حکم پر حصول تعلیم کے لیے اوکاڑہ تشریف لے آئے اور سالہا سال تک یہاں تعلیمی مدارج طے کرتے رہے ۔
ایک رات آپ ؒ نے خواب میں اپنی والدہ کو سردی سے کانپتے ہوئے دیکھا۔آپؒ نے یہ واقعہ مجھے سناتے ہوئے فرمایا کہ ان دنوں میرے پاس بھی سردی سے بچنے کے لیے کوئی مناسب انتظام نہیں تھا۔ چند دن پہلے ہی چار روپے کی ایک گرم چادر خریدی تھی جو سردیوں میں ٗ میرا جسم ڈھانپتی تھی۔ خواب کی حالت میں جب والدہ کو سردی کے عالم میں کانپتے ہوئے دیکھا تو سخت پریشان ہوگیا۔ آپ ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے یہ بات اپنے استاد مکرم مولانا محمد علی اوکاڑی کے گوش گزار کی، تو انہوں نے فرمایا کہ اﷲ اپنے نیک بندوں کو خواب کے ذریعے ہی پیغام رسانی کرتا ہے اگر والدہ کو سردی میں کانپتے ہوئے دیکھا ہے تو بہتر ہوگا آپ کوئی گرم کمبل ٗ رضائی یا گرم چادر کسی ایسے غریب اور لاچار انسان کو دے دو بات سن کر آپ ؒ مدرسے سے نکلے تو آپ کو کچھ ہی فاصلے پر فٹ پاتھ پر انتہائی سردی سے کانپتی ہوئی ایک بڑھیا نظر آئی ۔آپ نے اپنے جسم پر لپٹی ہوئی واحدگرم چادر اتار کر اس بڑھیا پر ڈال دی جس سے وہ دعائیں دینے لگی ۔آپؒ فرماتے ہیں کہ میں سردی سے کانپتا ہوا مدرسے واپس آگیا۔اگلی رات خواب میں وہی چادر ( جو بڑھیا کو سردی سے بچانے کے لیے دے آیا تھا) میں نے اپنی والدہ کو اوڑھے ہوئے دیکھاجو سردی سے محفوظ خوش و خرم دکھائی دیں ۔یہ دیکھ کر میرا ایمان پختہ ہوگیا کہ مرنے والوں سے رشتے کبھی کمزور نہیں ہوتے۔

یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ اوکاڑہ شہر سے شمال کی طرف حضرت کرماں والا کا ایک چھوٹا سا قصبہ موجود ہے جبکہ اسی نام سے ریلوے اسٹیشن بھی انگریزوں نے بنایا تھا ۔جیسا کہ نام سے ہی پتہ چلتا ہے کہ یہ قصبہ ایک ولی کامل اور عظیم درویش صفت ہستی، حضرت سید اسمعیل شاہ بخاری ؒ کا مسکن ہے۔جب تک حضرت مولانا محمد عنایت احمد ؒنقشبندی مجدوی اشرف المدارس اوکاڑہ میں زیر تعلیم رہے۔ پیر ان پیر حضرت سید اسمعیل شاہ بخاری ؒ المعروف حضرت کرماں والوں سے والہانہ محبت کا رشتہ بھی استوار ہوتا رہا۔کئی ایک بار آپ ؒ شیخ القرآن حضر ت مولانا غلام علی اوکاڑی ؒ کے ہمراہ آستانہ کرماں والا گئے ۔پھر آپ ؒکے دل میں روحانیت کی منزلیں طے کرنے کا ایسا جنون طاری ہوا کہ ہردوسری تیسری شام اکیلے ہی پیدل چلتے ہوئے اوکاڑہ سے پانچ کلومیٹر دور حضرت کرماں والا تشریف لے جانے لگے ۔ اس کے باوجود کہ ابھی آپ ؒ کی عمر زیادہ نہ تھی پھر بھی آپ ؒکی روحانیت کی جانب بڑھتی ہوئی دلچسپی دیکھ کر حضرت سید اسمعیل شاہ بخاری ؒ المعروف کرماں والوں نے آپ ؒ کو خصوصی محبت سے نوازا۔ایک شام بیعت ہونے کا شوق دل میں موجزن ہوا تو آپ ؒ وقت اور موسم کی نزاکت کااحساس کئے بغیر پیدل ہی حضرت کرماںؒ والا جا پہنچے ۔حسن اتفاق سے اس وقت مغرب کی نماز ہوچکی تھی اور نماز کے بعد حضرت سید اسمعیل شاہ بخاری ؒ گوشہ خاص میں وضائف میں مشغول تھے ۔وہاں کسی کو جانے کی اجازت نہ تھی لیکن آپ ؒ کسی نہ کسی طرح گوشہ خاص میں داخل ہوگئے ۔جب حضرت سید اسمعیل شاہ بخاری ؒ کی نظر کرم آپ ؒ پر پڑی تو انہوں نے آنے کی وجہ پوچھی ۔ آپ ؒ نے کہا میں آپ ؒ کا مرید ہونے آیا ہوں۔ یہ سن کر حضرت سید اسمعیل شاہ بخاری ؒ نے فرمایا کہ تم تو ازل سے ہی میرے مرید ہو...... یہ کہتے ہوئے اپنا دست شفقت آپ ؒ کے سینے پر پھیرا اور فرمایا جاؤ ہم تمہیں دنیا کے تمام علوم عطا کرتے ہیں۔حضرت سید اسمعیل شاہ بخاری ؒ کے یہ الفاظ سن کر آپ کے بے قرار دل کو سکون حاصل ہوا ۔پھرزندگی بھر کبھی پیرخانے سے رشتہ کمزورنہ ہوا ۔بعد ازاں آپ ؒ پاکپتن شریف میں شیخ الحدیث مولانا منظور احمد صاحب کے ہاں بھی چند ماہ قیام پذیر رہے لیکن انہوں نے آپ ؒ کو قصور شہر جانے کامشورہ دیا۔قصور شہر میں آپ ؒ استاد العلما حضرت محمد عبداﷲ ؒکے مدرسے میں آٹھ سال تعلیمی مدارج طے کرتے رہے ۔یہ 1969 کا زمانہ تھا آپ ؒنے اے تھری گلبرگ تھرڈ لاہور میں مسجد کی امامت سنبھالی تو یہ مسجد انتہائی خستہ حال تھی ،اسے از سر نو تعمیر کرنے کا آپ ؒ نے عزم کیا اور 1971ء میں اپنے دست مبارک سے اس مسجد کا سنگ بنیاد رکھا جس کا نام آپ ؒ نے مسجد طہ رکھا ۔ابتدا میں جب آپ ؒ نے نماز جمعہ کااہتمام کیا تو نمازیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی لیکن چند ہی سالوں میں عاشقان رسول ﷺ کا رخ مسجد طہ کی جانب ہونے لگا اور ہر نماز کے بعد درس و تدریس کا سلسلہ شروع ہوگیا اور ہزاروں لوگوں نے آپ ؒ کے دست مبارک پر اسلام قبول کیا۔لاہور اومنی بس ورکشاپ میں آپ ؒ مسلسل14 سال تک درس قرآن پاک دیتے رہے۔اسی دوران حضرت سید ظہیر الحسن شاہ ؒ کراچی سے لاہور تشریف لائے جب آپ ؒان سے ملاقات کے لیے گئے تو انہوں نے پہلی ہی ملاقات میں آپ ؒ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے پاس آپ ؒ کی ایک امانت ہے جو میں خلافت کی صورت میں آپ ؒ کو دینا چاہتا ہوں اس طرح ہچکچاہٹ کے باوجود آپ ؒ کو ایک بڑے دینی گھرانے سے باقاعدہ خلافت مل چکی تھی اور چاروں سلسلوں میں مرید کرنے کی اجازت بھی ۔جب یہ خبر عقیدت مندوں تک پہنچی تو لوگ جوق در جوق آپ ؒ کے دست مبارک پر بیعت کرنے کے لیے مسجد طہ کا رخ کرنے لگے ۔ اس سے پہلے دیول شریف والوں نے بھی آپ ؒ کو تحریری خلافت عطا کررکھی تھی۔جب یہ بازگشت استاد گرامی شیخ الحدیث حضرت محمد عبداﷲ قادری اشرفی ؒ تک پہنچی تو انہوں نے پہلی تمام خلافتوں کی توثیق کرتے ہوئے اپنی جانب سے بھی خلافت عطا کر دی۔ اسی طرح ایک مرتبہ شیخ القرآن حضرت غلام علی اوکاڑوی ؒ جن کے شاگردوں میں ہزاروں مفتی ٗ عالم اور ولی شامل ہیں ٗ مسجد طہ تشریف لائے تو انہوں نے اپنے خطاب کے دوران سب کے روبرو فرمایا کہ جب روز محشر خدا مجھ سے پوچھے گا کہ اے غلام علی تو دنیا سے میرے لیے کیا لایا تو میں انتہائی ادب و احترام سے عرض کروں گا کہ پروردگار میں تیرا ایک نیک متقی اور پرہیز گار بندہ " محمد عنایت احمد "لایا ہوں۔یہ کہتے ہوئے آـپ ؒ نے فرمایا کہ میرے پاس جو کچھ بھی ہے وہ میں" محمد عنایت احمد" کو عطا کرتا ہوں۔شیخ المشائخ پیر طریقت حضرت سیدمحفوظ حسین شاہ ؒ ( گدی نشین مکان شریف )نے بھی آپ ؒ کو سلسلہ نقشبندیہ میں خلافت عطا فرمائی ۔حضرت کرماں والوں کا فرمان عالی شان تھا کہ جو شخص حضرت کرماں والا نہ آسکے وہ گلبرگ تھرڈ لاہور کی مسجد طہ میں "محمد عنایت احمد کے پاس چلاجائے۔ وہاں بھی وہی فیض ملے گا جو حضرت کرماں والا آنے والوں کو ملتا ہے ۔

میں بذات خود پیرکامل حضرت محمد عنایت احمد ؒ کے دست مبارک پر 1991ء میں بیعت کرچکا ہوں ، زندگی میں بھی میں نے روحانیت سے بھرپور بیشمار واقعات دیکھے ۔اختصار کی خاطر یہاں ان کا تذکرہ نہیں کیا جارہا لیکن دنیاسے جسمانی طورپر رخصت ہونے کے بعد بھی پیرکامل سے کتنی بار خواب میں ملاقات ہوئی ،ایک مرتبہ آسمانوں پر میلاد مصطفے ﷺ کی بہت بڑی محفل جاری تھی ۔ پیرکامل درمیان میں تشریف فرما تھے ۔ان کے قریب ہی میں بھی موجود تھا ، میں نے آپؒ سے استفسار کیا کہ دنیا میں تو آپ کو بہت اعلی مقام حاصل تھا ،یہاں کیا معاملہ ہے۔ آپ ؒ مسکرائے اورفرمایا آپ دیکھ نہیں رہے ، دنیا سے کہیں زیادہ یہاں مقام اور مرتبہ مجھے حاصل ہے ۔ہر لمحے درود پاک اور میلاد مصطفے ﷺ کی محفلیں جاری رہتی ہیں ،اس سے زیادہ اور عزت افزائی کیا ہوگی ۔26مارچ بروز ہفتہ 2022ء کو دربار عالیہ حضور گنج عنایت ؒ کبوتر پورہ اے ون گلبرگ تھری گورومانگٹ لاہور میں صاحزادہ محمد عمر کی صدارت میں آپؒ کا گیارہ عرس مبارک شروع ہو گا اورعرس کی تقریبات بروز اتوار27 مارچ 2022 بھی جاری رہیں گی ۔جس میں ملک بھر سے مشائخ، خلفائے عظام، مرید،اور عقیدت مند شریک ہونگے۔
 

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 802 Articles with 784371 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.