انڈر 21 فیمیل گیمز ' پریس کانفرنس اور مفت کے پی آر او
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
مفت کے ملنے والے پی آر او اور سرکاری ملازم "نے ڈائریکٹر جنرل سپورٹس کے بجائے سوالوں کے جوابات دئیے جسکا صحافیوں نے بہت برا منایا.کیونکہ کارکردگی کے بارے میں صحافی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے حکام سے سننا چاہتے ہیں تاکہ یہ بیان ریکارڈ پر رہیں.تاہم کچھ لوگوں کے زبانوں کو "بواسیر"کا مرض ہوتا ہے وہ خان سے زیادہ خان کے "چمچے " بننے میں خوشی محسوس کرتے ہیں. |
|
|
سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ صوبے میں کھیلوں کے فروغ کیلئے کوشاں ہیں اور خصوصا خواتین جو آبادی کی پچاس فیصد سے زائد ہیں کی کھیلوں میں یکساں شمولیت اور انہیں مواقع فراہم کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش کررہی ہیں انڈر 21 گیمز فیمیل کا انعقاد بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جو دو سال کے وقفے کے بعد شروع کی جارہی ہیں تاہم یہ تسلسل بھی کرونا وائرس کی وجہ سے ٹوٹا تھا لیکن اب انشاء اللہ 22 مارچ سے 25 مارچ تک یہ مقابلے کروائے جائینگے جس میں ٹاپ پوزیشن ہولڈرز کھلاڑیوں کو ماہانہ وظیفہ بھی دیا جائیگا . یہ باتیں ڈائریکٹر جنرل سپورٹس خیبر پختونخواہ خالد خان نے سپورٹس ڈائریکٹریٹ خبیر پختونخواہ میں پریس کانفرنس کے دوران کیں.اس موقع پر ڈائریکٹر آپریشن سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ سید ثقلین شاہ اور خاتون ڈائریکٹر سپورٹس مس رشیدہ غزنوی اور دیگر اضلاع سے تعلق رکھنے والے ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسرز سمیت سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے اعلی حکام بھی موجود تھے.
اپنی نوعیت کے اس پہلے پریس کانفرنس میں ڈی جی سپورٹس کو صحافیوں کے مسلسل سوالوں کا جواب بھی دینا پڑ گیا ' کیونکہ لمبے عرصے بعد صحافیوں کو پریس کانفرنس کیلئے بلایا گیا تھا جس میں صحافیوں نے بعض ایسے سخت سوالات بھی کئے جس کا پہلے انہیں کبھی سامنا نہیں کرنا پڑا تھا لیکن پہلے ون مین شو ہوا کرتا تھا اور ایک مخصوص شخصیت پورے پریس کانفرنسز پر حاوی ہوا کرتی تھی اور ان کے زبان سے نکلے ہوئے سوالات کی جوابات ملتے تھے لیکن اب کی بار ایسے سخت سوالات بھی کئے گئے جس کا جواب صحافی ڈائریکٹر جنرل سپورٹس خالد خان کی زبان سے سننا چاہتے تھے لیکن "مفت کے ملنے والے پی آر او اور سرکاری ملازم "نے ڈائریکٹر جنرل سپورٹس کے بجائے سوالوں کے جوابات دئیے جسکا صحافیوں نے بہت برا منایا.کیونکہ کارکردگی کے بارے میں صحافی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے حکام سے سننا چاہتے ہیں تاکہ یہ بیان ریکارڈ پر رہیں.تاہم کچھ لوگوں کے زبانوں کو "بواسیر"کا مرض ہوتا ہے وہ خان سے زیادہ خان کے "چمچے " بننے میں خوشی محسوس کرتے ہیں.
ڈائریکٹر جنرل سپورٹس خالد خان کا کہنا تھا کہ تحصیل کی سطح سے لیکر ضلع کے سطح تک مختلف نوعیت کے مقابلے کروائے جارہے ہیں اور انڈر 21 فیمیل گیمز میں ہونیوالے مقابلوں میں کم و بیش 22 سو کھلاڑی حصہ لینگی جن میں سات مختلف گیمز کے مقابلے تین مختلف مقامات پر ہونگے چارسدہ ' صوابی اور پشاور کے مختلف جگہوں پر ہونیوالے مقابلوں کا انتخاب باقاعدہ میرٹ پر ہوا ہے اور پینتیس اضلاع بشمول ضم اضلاع کے کھلاڑی بھی منتخب ہوکر آئی ہیںان کا یہ بھی کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کی ہدایات کی روشنی میں کھیلوں کے اہداف حاصل کررہے ہیں-ایک سوال پر ڈائریکٹر جنرل سپورٹس خیبر پختونخواہ خالد خا ن کا کہنا تھا کہ بھی تک چالیس کے قریب کھیلوں کے مقابلے انڈر 21 میں ہو چکے ہیں تاہم فیمیل یہ مقابلے کرونا وائرس کی وجہ ے لیٹ ہوئے جو اب کروائے جارہے ہیں ,ان کا یہ کہنا تھا کہ جو ونرز تھے انہیں ماہانہ وظیفہ دیا گیا جبکہ گذشتہ سال ہونیوالے انڈر 21 کے مقابلوں میں ٹاپ پوزیشن ہولڈر کھلاڑیوں کی رجسٹریشن کا عمل شروع کیا گیا ہے جسے صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ ایک سال کیلئے وظیفہ دیگی اور یہ اقدام صوبائی وزیر کھیل و وزیراعلی خیبر پختونخواہ محمود خان کا کھیلوں کے فروغ کیلئے بہترین اقدام ہے جس سے کھلاڑی مستفید ہورہے ہیں. ایک سوال پر خالد خان کا کہنا تھا کہ آسان اسائمنٹ اکائونٹ کی وجہ سے کھلاڑیوں کو پانچ ماہ وظیفہ نہیں ملا لیکن اب انہیں یہ رقم ملتے رہے گی -ڈائریکٹر جنرل سپورٹس خیبر پختونخواہ کا کہنا ہے کہ ہم نے فیمیل سپورٹس سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرنی ہے جو ہم پہلے بھی کررہے تھے اور آئند ہ بھی کرتے رہیں گے -ان کا یہ بھی کہنا تھ اکہ چونکہ ٹرائلز اس سے قبل بھی ہوئے تھے اور یہ کرونا وائرس کی وجہ سے بڑا مسئلہ بنا تھا جو کہ عالمی مسئلہ تھا اسی باعث ہم نے عمر کے حوالے سے ریلیکسیشن دی ہیں.اور اپنے ڈی ایس اوز کو بھی یہ کہا ہے کہ دو سال میں کوئی نہیں آرہا تو ہمیں دیگر کھلاڑی دئیے جائیں.ان کے مطابق کم و بیش تین ہزار کے قریب افراد بشمول کھلاڑی ان مقابلوں میں شریک ہونگے.
پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں نے یکم جنوری 2022 کو پیش آنیوالے واقعے کے حوالے سے سوالات کئے جس میں ایک اہلکار کی جانب سے نشہ آور مشروب پینے پر ہنگامہ آرائی ہوئی تھی اور پولیس اہلکار زخمی ہوا تھا جس پر ڈائریکٹر جنرل سپورٹس ڈائریکٹریٹ کا کہنا ہے کہ ابھی اس معاملے میں اپیل ہے. ہاکی لیگ میں کھلاڑیوں کو انعامات نہ ملنے سے متعلق سوال پر ڈائریکٹر جنرل سپورٹس خیبر پختونخواہ کاکہنا تھا کہ اس معاملے میں کچھ مس مینجمنٹ ہوئی تھی اور اس سلسلے میں ہاکی فیڈریشن سے وابستہ شخصیت سے بات ہوچکی ہیں اور یہ مسئلہ بھی جلد ہو جائیگا
ڈائریکٹر سپورٹس مس رشید ہ غزنوی نے صحافیوں سے بات چیت میں انڈر 21 گیمز کے حوالے سے بتایا کہ خواتین کھلاڑیوں کو محفوظ ماحول فراہم کرنے کیلئے ہر ممکن اقدامات اٹھائے گئے ہیں اور کھلاڑیوں کی خوراک کا انتظام بھی وینیوز کے نزدیک اور گرائونڈز کیساتھ کیا گیا ہے اسی طرح جن مقامات پر مقابلے ہورہے ہیں وہاں پر ہاسٹل میں کھلاڑیوں کی رہائش کا بندوبست بھی کیا گیا ہے جبکہ گرائونڈز کے چاروں اطراف میں شامیانے لگائے گئے ہیں ان کے مطابق ہماری کوشش ہے کہ نیا ٹیلنٹ آگے آئیں اور خیبر پختونخواہ کی خواتین کھلاڑی دیگر صوبوں کے خواتین کھلاڑیوں کیساتھ بہتر مقابلے کی فضاء میں ہوں کیونکہ ہمارے صوبے کی خواتین کسی سے کم نہیں بس انہیں مواقع ملنے چاہئیں جو سپورٹس ڈائریکٹریٹ انہیں فراہم کرتی رہے گی.صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں ہونیوالی پریس کانفرنس میں ڈائریکٹر جنرل نے اس بات کی تردید کی کہ حیات آباد کرکٹ گرائونڈ سمیت ارباب نیاز کرکٹ سٹیڈیم پر کام کی رفتار سست ہے اور اس پر وزارت کو وزیراعلی کی خفگی کا سامنا کرنا پڑاان کے مطابق کرونا کی وجہ سے سرگرمیاں معطل رہی اور بعض ایسے آئٹمز تھے جو بیرون ملک سے آنے ہیں اور شپمنٹ میں تاخیر کی وجہ سے یہ مسئلہ بنا تاہم سپورٹس ڈائرکیٹریٹ ان منصوبوں کو بروقت مکمل کرنے کیلئے پوری طرح کوشاں ہے.
انڈر 21کے یہ مقابلے گذشتہ دو سال کے پرانے پراجیکٹ ہیں جنہیں مکمل کرنے کیلئے صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کوشاں ہے ' لیکن اگلے دو سال کیلئے صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے پاس کیا ایجنڈا ہے ' کیا ان 21 گیمز سے ٹاپ پر آنیوالے کھلاڑیوں کی تربیت کیلئے کوئی پروگرام ہے یا پھر نرسری سطح سمیت ' سکولوں کے سطح کے مقابلے مستقبل میں بھی کروائے جائینگے. اس بارے میں سپورٹس ڈائریکٹریٹ مکمل طور پر خاموش ہیں ' صوبائی وزیر اعلی کی وزارت ہونے کے باوجود فنڈز کی کمی کی وجہ سے بعض جاری شد ہ منصوبے مکمل نہیں جبکہ جو مکمل کئے گئے ہیں ان کی طرف بھی اس طرح توجہ نہیں دی جارہی جس کے وہ متقاضی ہیں اور سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کو اس معاملے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے.نامکمل رہنے والے پروگراموں میں کلائمبنگ وال کے منصوبے یھی شامل ہیں جو چین کی طرز پر بنائے جارہے ہیںتاہم نامعلوم وجوہات کی بناء پر اسے سریے سے بنایا جارہا ہے جس پر کم و بیش ایک کروڑ روپے کی لاگت آرہی ہیں اور گرمی کے چھ ماہ میں ان کلائمبنگ وال پر چڑھنا بھی محال ہوگا جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے.ساتھ میں سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی انتظامیہ کو مفت میں ملنے والے " پی آر اوز" پر توجہ دینی ہوگی کیونکہ خوشامد کرنے والوں کے ہاتھ میں چھری ہوتی ہے اور اسی چھری تلے بڑے بڑے لوگ بھی متاثر ہوتے ہیں اور بعض ایسے کھلاڑی بھی جو حقدار ہوتے بھی ہوئے بیرون ملک سے رہ جاتے ہیں مگر اس چھری اور مکھن کی وجہ سے مخصوص کھلاڑی بیرون ملک جا کر غائب ہو جاتے ہیں جو سپورٹس ڈائریکٹریٹ کیلئے لمحہ فکریہ بھی ہے.
|