انڈر 21 فیمیل مقابلوں کی افتتاحی تقریب کا آنکھوں دیکھا حال
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
ڈائریکٹر جنرل سپورٹس خالد خان نے بڑے فخر سے اعلان کیا تھا کہ صوبے میں سابقہ قبائلی علاقہ جات جو اب ضم ہو چکی ہیں کی کھیلوں کی خواتین کی ٹیمیں شامل ہونگی اور میرٹ پر ان کھلاڑیوں کا انتخاب کیا گیا ہے تاہم صرف ایک روز بعد پینتیس اضلاع میں صرف سترہاضلاع جن میں بعض میں پشاور کے مختلف کالجز کی طالبات شامل تھی انہیں مختلف علاقوں کے بینرز دیکر افتتاحی تقریب میں شامل کروایا گیا ' ان مقابلو ں میں لکی مروت کی ٹیم بھی شامل نہیں تھی جس کا بینر ڈائریکٹر ڈویلپمنٹ نے فوری طور پر ہٹانے کی ہدایت کردی تاکہ لوگوں کی نظر نہ پڑے ' اسی طرح اورکزئی کا حلقہ بھی خالی ہی رہا ' صرف ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والی طالبات ان مقابلوں میں شریک ہوئی . جنہوں نے بینرز اٹھا رکھے تھے.جبکہ دیگر تمام ضم اضلاع کے خواتین کھلاڑی نظر نہیں آئی .حالانکہ ضم ہونیوالے ان اضلاع میں عرصہ دراز سے پراجیکٹ کے ملازمین ریگولر ہو کر تنخواہیں لے رہے ہیں مگر متعلقہ علاقوں میں ڈیوٹیوں کے بجائے سپورٹس ڈائریکٹریٹ ضم اضلاع میں ڈیوٹیوں کی وجہ سے ان کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہیں. ایسے میں ان ضم اضلاع سے کیسے خواتین کھلاڑی سامنے آئینگی. |
|
سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخوا ہ کے زیر انتظام کرونا کے باعث دو سال سے مسلسل لیٹ ہونے والے انڈر 21 فیمیل گیمز کا باقاعدہ آغاز پشاور سپورٹس کمپلیکس میں ہوگیا ' افتتاحی تقریب کے موقع پر سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں خوبصورت ہولڈنگ اور بینرز خواتین کے سات مختلف کھیلوں کے حوالے سے لگائے گئے تھے جبکہ سیکورٹی وجوہات کی بناء پر بغیر کارڈ کے داخلہ مکمل طور پر بند کردیا گیا تھا . افتتاحی تقریب میں وزیراعلی خیبر پختونخواہ محمود خا ن کی آمد متوقع تھی . تاہم آخری وقت میں سیکرٹری سپورٹس خیبر پختونخواہ ' خواتین ممبران اسمبلی عائشہ بانو ' رابعہ بصری شریک ہوئی جبکہ ڈائریکٹر جنرل سپورٹس خالد خان سمیت سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے مختلف اضلاع میں تعینات ڈی ایس اوز سمیت آر ایس اوز بھی شریک رہے. کم و بیش تین ہزار کے قریب آفیشل اور کھلاڑی اس افتتاحی تقریب میں شریک رہے جس میں شریک بچوں نے خوبصورت انداز میں پرفارمنس پیش کرکے سب لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی جبکہ ترکش ڈرامے کے موسیقی پر مقامی سکول کے کم عمر بچیوں نے بھی ڈانس کیا.افتتاحی تقریب کا آغاز ایک خاتون طالبہ نے تلاوت قرآن پاک سے کیا ' جس کے بعد قومی ترانہ پیش کیا گیا جس پر افتتاحی تقریب میں شامل پشاور سپورٹس کمپلیکس کے گرائونڈ میں شامل تمام افراد بشمول ممبران اسمبلی اور کھلاڑیوں نے قومی ترانے کے احترام میں کھڑے ہوگئے.جس کے بعد مختلف اضلاع سے آنیوالے خواتین کھلاڑیوں کے مختلف دستوں نے سلامی کی چبوتری کے سامنے گزرے جہاں پر خواتین ممبران اسمبلی اور سیکرٹری سپورٹس سمیت دیگر آفیشل نے کھڑے ہو کر اور تالیاں بجا کر ان خواتین کھلاڑیوں کا استقبال کیا.مارچ پاسٹ کے آغاز میں خاتون باکسر ہادیہ کمال نے قومی جھنڈا لیکر سب کے سامنے سے گزری . ہادیہ کمال کے اعزاز پر پورے پنڈال میں شامل افراد نے انہیں تالیاں بجا کر داد ادی.
خاتون ممبر اسمبلی عائشہ بانو نے پشاور سپورٹس کمپلیکس میں منعقدہ کھیلوں کے خواتین مقابلوں کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے اسے صوبائی حکومت کا کارنامہ قرار دیا اور کہا کہ اب آہستہ آہستہ کلچر تبدیل ہوتا جارہا ہے دس سال پہلے فیمیل کھلاڑیوں کے کھیلوں کو اچھا نہیں سمجھا جاتا لیکن اب آہستہ خواتین بھی کھیلوں کے مقابلوں میں آرہی ہیں اور اس میں ان کے گھر والوں کا سپورٹ ضروری ہے انہوں نے کہا کہ وہ خود بھی کھیلوں سے وابستہ رہی اور بہترین اتھلیٹ رہی تاہم بعد میں وہ کھیلوں کے میدان کی طرف نہیں گئی لیکن اب انہیں یہ دیکھ کر خوش ہورہی ہیں کہ کھیلوں کے میدان میں نہ صرف خواتین کھلاڑی آگے آرہی ہیں بلکہ مردوں کا مقابلہ بھی کررہی ہیں اور خیبر پختونخواہ کا نام نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ بین لاقوامی سطح پر بھی پاکستان کے سبز ہلالی پرچم کو بلند کررہی ہیں جو قابل فخر بات ہے. انہوں نے سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کی کارکردگی کو خوش آئند قرار دیا اور مبارکباد پیش کی کہ خواتین کھیلوں کے فروغ کیلئے اتنا بڑا ایونٹ کروایا جارہا ہے .افتتاحی تقریب سے سیکرٹری سپورٹس سلطان ترین نے بھی خطاب کیا ' انہوں نے کھیلوں کے انعقاد کو سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا کہ صوبے میں اس وقت تریپن بڑے منصوبوں پر کام جار ی ہیں اور موجودہ حکومت وزیراعلی خیبر پختونخواہ جو کھیلوں کے انچارج وزیر بھی ہیں کھیلوں کے فروغ کیلئے اقدامات اٹھارہی ہیں انہوں نے خواتین کھلاڑیوں ' ان کی اساتذہ او ر کوچز کیلئے تالیاں بجا کر حوصلہ افزائی کی اور کہا کہ بڑے فخر کی بات ہے کہ کھیلوں کے مختلف مقابلوں میں خواتین نمایاں پوزیشن میں آرہی ہیں.اس موقع پر ممبراسمبلی عائشہ بانو نے باقاعدہ انڈر 21 فیمیل کھیلوں کے آغاز کا اعلان کردیا جس کے بعد ہوا میں غبارے چھوڑے گئے بعد ازاں مہمان خصوصی سمیت دیگر آرگنائزر میں اعزازی شیلڈز بھی تقسیم کی گئی .اور یوں کھیلوں کے مقابلوں کا آغاز ہوگیا. یہ مقابلے پچیس مارچ تک پشاور سپورٹس کمپلیکس ' بام خیل سپورٹس کمپلیکس صوابی ' عبدالولی خان سپورٹس کمپلیکس چارسدہ اور پشاور یونیورسٹی کے مختلف گرائونڈز پر کھیلے جائینگے ان مقابلوں میں ٹاپ پوزیشن حاصل کرنے والے کھلاڑیوں کو ایک سال کیلئے ماہانہ وظیفہ بھی دیا جائیگا .
اپنی نوعیت کے اتنے بڑے ایونٹ کے انعقاد کیلئے سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ نے اپنی طرف سے بہترین انتظامات کئے تھے تاہم کچھ چیزیں ایسی تھی جس پر سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کو مستقبل میں توجہ دینے کی ضرورت ہے حالانکہ اس سے قبل اس طرح کے مقابلے انڈر 21 مردوں کے مقابلے بھی کروائے گئے تاہم ان سے سبق نہیں سیکھا گیا' فیمیل کھلاڑیوں او ر کھیلوں کے فروغ کیلئے کئے جانیوالے اس پروگرام میں سپورٹس ڈائریکٹریٹ ابھی تک اپنے لئے اینکر کا بندوبست نہیں کرسکی ہے ' جن صاحب کو سٹیج پر کھڑے ہو کر بات کرنے کا موقع دیا گیا تھا انہیں ممبر صوبائی اسمبلی عائشہ بانو اور شیر بانو میںتفریق سمجھ نہیں آرہی تھی متعدد مرتبہ انہوں نے مہمان خصوصی کو شیربانو کہہ کر پکار ا جس سے مہمان خصوصی سمیت سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی انتظامیہ بھی خجالت کا شکار نظر آئی.اسی طرح کوریج کیلئے آنیوالے ٹی وی چینل کے ڈی ایس این جی ایز کو براہ راست مائیک پر مخاطب کرکے کہا گیا کہ یہ موصوف کا ہی کارنامہ ہے کہ انہوں نے ڈی ایس این جی کو اندر جانے کی اجازت دی حالانکہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ ڈی ایس این جی کو اندر لانے کے حق میں نہیں تھی.جبکہ متعدد مرتبہ مائیک پر بڑے بھونڈے انداز میں صحافیوں کو پکارا گیا .
وزیراعلی خیبر پختونخواہ کے استقبال میں سکول کی بچیوں کو مائیک میں بڑے ہی بھونڈے انداز میں بلا یا گیا اور بعد میں قاریہ کیلئے بھی مائیک پر اعلان کرنا پڑا جس سے اندازہ ہوگیا کہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے پروگرام کیلئے منصوبہ بندی نہیں کی تھی اور آخری وقت میں مائیک پر بچیوں کو پکار پکار کر بلانا سب کو عجیب لگ رہا تھا.وزیراعلی کے استقبال کیلئے سکول کے جن طالبات کو بلایا گیا تھا انہیں گیارہ بجے نیچے بلایا گیا تھا انہیں پھول تو دے دئیے گئے تھے مگر انہیں مسلسل ایک گھنٹے تک کھڑا کیا گیا ' کیونکہ وزیراعلی آرہے ہیں ' وزیراعلی نہیں آرہے ' کی صورتحال نے نہ صرف سیکورٹی اہلکاروں کو بلکہ انتظامیہ کو بھی مشکل میں ڈال دیا ' بعد میں خواتین ممبران اسمبلی کی آمد کے بعد بھی ان بچیوں کو نیچے کھڑا کیا گیا ساڑھے گیارہ بجے شروع ہونیوالی افتتاحی تقریب کے موقع پر مارچ پاسٹ میں شامل طالبا ت اور کھلاڑیوں کیلئے پانی کا کوئی انتظام نہیں تھا بعد میں ٹیکنیکل آفیشل کیلئے بھی یہی صورتحال رہی.اسی باعث ڈیڑھ گھنٹے کی مسلسل مارچ پاسٹ اور کھلے میدان میں کھڑے ہونے کے باعث بہت ساری طالبات تھک بھی گئی اور وہ گرائونڈز میں بیٹھ گئی تھی ' مہمانان کیلئے گرائونڈ میں شیلڈز دینے کیلئے کارپٹ بچھایا گیا تھا تاہم یہ گرمی صرف مہمان خصوصی اور دیگر اہلکاروں کو محسوس ہوئی تبھی انہوں نے شیلڈز بھی وی آئی پی سٹیج پر بیٹھ کر پیش کی اور نیچے گرائونڈ پر نہیں آئے.مارچ پاسٹ کے دوران مردان کے ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسر پہلے مردان کے دستے کیساتھ آئے بعد ازاں پشاور کے دستے کے آگے آئے اور ہاتھ ہلاکر اپنی خوشی کا اظہار کیا.
انڈر 21 فیمیل گیمز کی اہم بات خواتین کھلاڑیوں کو مواقع فراہم کرنا اور انہیں مستقبل کے چیلنجز کیلئے تیار کرناہے تاہم حیران کن طور پر ا س معاملے میں ضم اضلاع کی سپورٹس ڈائریکٹریٹ اور ا ن کے اہلکاروں کی کارکردگی بھی سامنے آئی .ایک روز قبل ڈائریکٹر جنرل سپورٹس خالد خان نے بڑے فخر سے اعلان کیا تھا کہ صوبے میں سابقہ قبائلی علاقہ جات جو اب ضم ہو چکی ہیں کی کھیلوں کی خواتین کی ٹیمیں شامل ہونگی اور میرٹ پر ان کھلاڑیوں کا انتخاب کیا گیا ہے تاہم صرف ایک روز بعد پینتیس اضلاع میں صرف ستائیس اضلاع جن میں بعض میں پشاور کے مختلف کالجز کی طالبات شامل تھی انہیں مختلف علاقوں کے بینرز دیکر افتتاحی تقریب میں شامل کروایا گیا ' ان مقابلو ں میں لکی مروت کی ٹیم بھی شامل نہیں تھی جس کا بینر ڈائریکٹر ڈویلپمنٹ نے فوری طور پر ہٹانے کی ہدایت کردی تاکہ لوگوں کی نظر نہ پڑے ' اسی طرح اورکزئی کا حلقہ بھی خالی ہی رہا ' صرف ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والی طالبات ان مقابلوں میں شریک ہوئی . جنہوں نے بینرز اٹھا رکھے تھے.جبکہ دیگر تمام ضم اضلاع کے خواتین کھلاڑی نظر نہیں آئی .حالانکہ ضم ہونیوالے ان اضلاع میں عرصہ دراز سے پراجیکٹ کے ملازمین ریگولر ہو کر تنخواہیں لے رہے ہیں مگر متعلقہ علاقوں میں ڈیوٹیوں کے بجائے سپورٹس ڈائریکٹریٹ ضم اضلاع میں ڈیوٹیوں کی وجہ سے ان کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہیں. ایسے میں ان ضم اضلاع سے کیسے خواتین کھلاڑی سامنے آئینگی.
وزیراعلی خیبر پختونخواہ محمود خان کی وزارت سپورٹس دیگر صوبوں کے کھیلوں کے میدان میں بہترین کارکردگی دکھا رہی ہیں تاہم مستقبل میں انہیں اس طرح کی غلطیوں سے اجتناب کرنا ہوگا تاکہ نہ صرف اینکرز مس مینجمنٹ کے باعث مسائل پیدا نہ ہوں بلکہ اس حوالے سے وزیراعلی خیبر پختونخواہ کو ضم اضلاع کے سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے اہلکاروں سے پوچھنا چاہئیے کہ ان کی کارکردگی کہاں پر ہے ' صرف تنخواہیں وصولی اور کاغذات میں کام کے بجائے فیلڈ میں کام کرنے پر زور دینا ہوگا تاکہ ضم اضلاع کی خواتین میں یہ احساس محرومی پیدا نہ ہوں کہ ان کے ساتھ حکومت سوتیلی ماں جیسا سلوک کررہی ہیں . حالانکہ صوبائی حکومت ان علاقوں میں دیگر شعبوں کیساتھ کھیلوں کے شعبے پر توجہ دے رہی ہیں تاہم ضم اضلاع کے سپورٹس ڈائریکٹریٹ کو اس معاملے میں پوچھنا ہوگا تبھی صورتحال بہتر ہوگی..
|