کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اپنی بہنوں کو اسکول کے
بعد کالج کی شکل نہیں دیکھنے دی ۔ وہ کہتی کہتی ہار گئیں کہ اچھا پرائیویٹ
تو پڑھ لینے دو مگر انہیں اس کی بھی اجازت نہیں دی بلکہ ماں باپ کو بھی
اپنے ساتھ ملا لیا اور انہوں نے کہا کہ کیا کرنا ہے آگے پڑھ کر؟ آرام سے
گھر بیٹھو پھر وہ دس دس پندرہ پندرہ سال گھر بیٹھیں مڈل اور میٹرک کرنے کے
بعد ۔ پڑھائی چُھڑوا کر کون سا ان کی فٹافٹ شادیاں کر دیں ۔ پھر بہنوں کے
پر کاٹ کر رکھنے والے انہی سقراطوں بقراطوں نے خود اپنی بیٹیوں کو ماسٹرز
کرایا ۔ اُنہیں ہوسٹلوں میں تک رکھ کر ڈاکٹر اور انجینئر بنایا ۔ بہنوں کو
پردے اور حجاب کے ساتھ گرلز کالج جانے کی اجازت نہ دینے والوں نے اپنی
بیٹیوں کو جینز پہنا کر ننگے سر مخلوط تعلیمی اداروں میں بھیجا ۔ اپنی باری
میں سب معیار بدل گئے غیرت کے بھی اور شریعت کے بھی ۔
اس نوعیت کے واقعات سے خیال آتا ہے کہ آج سے تیس چالیس سال پہلے کا زمانہ
کیا اب سے بھی زیادہ نازک تھا کہ جب نہ تو موبائل ہوتا تھا نہ انٹر نیٹ نہ
ہی ٹی وی چینلوں کی بھر مار تھی ۔ ٹیلیفون بھی کسی کسی گھر میں ہی ہوتا تھا
اور اس پر بھی تالا لگا ہؤا ہوتا تھا ۔ گھر کے اندر مرد کی موجودگی میں کسی
خاتون کو اجازت نہیں ہوتی تھی کہ وہ کوئی آنے والی کال کو اٹینڈ کرے ۔ اتنے
پابند ماحول میں بھی کچھ لوگ اپنی بہن بیٹیوں پر اعتماد نہیں کرتے تھے کالج
کو ایک ہوّا سمجھتے تھے جیسے وہاں جا کر وہ ہاتھوں سے نکل جائیں گی ۔ کتنی
ہی ذہین اور لائق لڑکیاں اس ذہنیت اور تنگ نظری کی بھینٹ چڑھ گئیں اور اس
سے بھی زیادہ تکلیف دہ یہ احساس ہوتا ہے کہ انہیں قابل اعتماد نہیں سمجھا
گیا ۔ لیکن حیرت انگیز طور پر یہی عدم اعتماد اتنے پُر خطر دور میں بحال ہو
گیا ۔ ہر پر قینچی گئی لڑکی کا زخم تازہ ہو جاتا ہے جب وہ دیکھتی ہے کہ جو
جو ضابطے اور قاعدے اس پر لاگو کیے گئے تھے وہ سب کالعدم قرار پا گئے ہیں ۔
|