تعلیم کا حصول ہی مسلمانوں کا اہم مقصد بن جائے

ہندوستانی مسلمانوں کے بارے میں معروف بزرگ صحافی کلدیپ نیئر نے کئی اخبارات کے مدیر رہے،مرحوم ہارون رشید علیگ سے 1990کی دہائی میں کہاتھاکہ "ہارون تیری قوم تعلیمی میدان میں فروغ پارہی ہے اور مستقبل میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتی ہے۔"یہ پُر مسرت بات کلدیپ نئیر نے 1992 میں بابری مسجد کی شہادت کے چند سال بعد کہی تھی۔اور ہارون صاحب اس پر پھلے نہیں سما رہے تھے۔جب وہ انقلاب کے مدیر اعلیٰ تھے اور 1995 میں تعلیمی بیداری کے مقصد سے اتوار کوصفحہ اول پر تعلیم کے متعلق اداریہ لکھناشروع کیا تھا،جس نے واقع قوم۔میں بیداری پیداکردی تھی، چند سال ہی یہ تعلیمی بیداری کا سلسلہ جاری رہاتھا۔اس کے بات پھر وہی چال بے ڈھنگی نظر آنے لگی،البتہ ملک کے کئی شہروں اورخطوں میں انفرادی طورپر متعدد افراد ملت کے نوجوانوں کی بہتر تعلیم اور بیداری کے لیے بڑی تندہی اور فکرمندی سے سرگرم ہیں اور اس کے لیے محنت وجدوجہد بھی کررہے ہیں۔

ملک کی آزادی کے بعد سے مسلمان حالات سے دوچار رہے،لیکن ملک کےآئین نے انہیں کئی حقوق دیئے اور ان کے تحفظ کایقین بھی دلایاگیاہے،اس سے وہ مطمئن ہوگیا ،لیکن اس آئینی ضمانت ملنے کے باوجود اس کی حالت زار تشویشناک ہوتی چلی گئی۔حالانکہ مسلمان اس حالت پر راضی رہا۔ پھر ایک منصوبے کے تحت مسلمانوں کو کمال ہوشیاری سے تعلیمی پسماندگی کی طرف ڈھکینے کی کوشش جاری ہے،مگر ملک میں کئی ادارے ان میں تعلیمی بیداری کے لیے کوشاں ہیں،اور ان کی کوشش ہے کہ اس سازش کوناکام بنادیاجائے۔

حال میں ریاستی اسمبلی انتخابات کے نتائج سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ ان کے ووٹ کی اہمیت کتنی ہے،لیکن اسے گھٹانے کی سازش بھی رچی گئی تھی۔ سیاست میں کئی موقع ایسے آئے ہیں کہ مسلمانوں نے سوچ بوجھ اور حکمت کا مظاہرہ کیاہے۔اس کی ضرورت اب آن پڑی ہے،سابق ایم پی محمد ادیب نے ان نتائج کے بعد مسلمانوں کوبڑی سنجیدگی سے مشورہ دیاہے کہ وہ کچھ عرصہ انتخابی سیاست سے کنارہ کرتے ہوئے ،تعلیم پر فوکس کرلیں،ایک اچھے مستقبل کے لیے اور ارباب اقتدار سےاپنی حیثیت منوانے کے لیے انہیں اس ضمن میں اہم ترین فیصلہ لیناہی ہوگااور عام مسلمان کے دماغ میں یہ بات ڈالنی ہوگی کہ حصول تعلیم ہی کامیابی اور اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی کنجی ہے۔

حال میں کرناٹک کے چھوٹے سے شہر بیدر کا دورہ کرنے کا موقع ملا،بیدرکی ڈھائی لاکھ کی آبادی میں مسلمانوں کا تناسب محض 19 ،فیصد ہے۔ کرناٹک کا ایک تاریخی شہر ہے اور یہ کرناٹک کے شمال مشرقی حصّہ دکن میں واقع ہے، جو مہارشٹرا اور تلنگانہ سے متصل ہے۔ یہ شہر، بہمنی سلاطین کے دور میں کافی اہم رہا ہے۔ کیونکہ بیدر بہمنی سلطنت کا پایہ تخت تھا-شہر دستکاری مصنوعات خصوصاً بیدری صنعت کے لیے جانا جاتاہے۔ مانجرا ندی ایک اہم ندی ہے جس سے پورے بیدر شہر میں پانی فراہم کیا جاتا ہے۔2010میں بیدر کو ملک کا بائیسواں صاف ستھرا شہر اور کرناٹک کا پانچواں صاف ستھرا شہر قرار دیا گیاہے اور پورا قدیم شہر چوبارے سے منسلک ہے۔لیکن یہ شہران دنوں ایک اور وجہ سے مشہور ہے اور مسلمان ہی نہیں بلکہ غیرمسلم بھی اعتراف کرتے ہیں کہ شاہین گروپس آف انسٹیٹیوٹ نے یہاں تعلیمی انقلاب برپاکردیاہے، اس ادارہ کے روح رواں ڈاکٹر عبد القدیر کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں، انہیں سرسید ثانی کہاجاسکتا ہے۔بیدر کاشاندار کیمپس اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اقلیتی فرقے کوتعلیم کی حصول یابی کے مقصد کے لیے کس حد تک محنت کی گئی ہے۔اور ایماندار انہ کوشش کاثمر بھی مل رہاہے،ملک بھر میں بڑی تیزی سے شاہین جیسی اس درسگاہ کاجال سا بچھا نے کی کوشش جاری ہے۔کرناٹک کے ساتھ ساتھ پڑوسی ریاستوں میں ہی نہیں بلکہ دورافتادہ خطوں جیسے آسام ،اترپردیش،بہاروغیرہ میں بھی شاخیں قائم کی گئی ہیں۔

بیدرشہر کے اس رہائشی درسگاہ میں تقریباً ساڑھے چارہزار طلباء وطالبات زیر تعلیم ہیں ،جبکہ شہر کے طلبہ بھی روزانہ تعلیم کی غرض آتے ہیں۔عام تعلیم کی فراہمی کے ساتھ ہی کئی شعبوں کی سرگرمیاں بھی جاری ہیں۔جن میں نیٹ کے لیے ذہین بچوں کے لیے خصوصی تیاری کا نظام ہےجبکہ یوپی ایس سی اورذہانت کی بہتری کے لیےاین ٹی ایس کی تربیت دی جاتی ہے۔ ایک ایسا شعبہ (اے آئی سی یو)بھی قائم کیاگیا ہے، جس کے تحت دینی تعلیم حاصل کرنے والے بچوں اور حفاظ اور ڈراپ آوٹ بچوں کو قلیل تعداد میں ایک معلم کی نگرانی میں تعلیم دی جاتی ہے۔ان کی ذہانت اور صلاحیت کو ابھارنے کی ہرممکن کوشش کی جاتی ہے۔

شاہین کیپمس میں ڈسپلن ،دینی ماحول اور طالبات کی عزت واحترام اور پردہ کا پوراپورا خیال رکھاگیاہے،ان چیزوں سے کسی طرح کاسمجھوتہ نہیں کیاگیا،طالبات کے رہائشی احاطہ کی خصوصی نگرانی اورتحفظ کے بھر پور انتظامات کیے گئے ہیں۔کیمپس کے چپہ۔چپہ پر سی سی ٹی وی نصب ہیں اور ایک کنٹرول روم سے 24 ،گھنٹے نگرانی کی جاتی ہے۔جبکہ طعام ورہائش کے انتظامات بھی قابل ستائش ہیں،جواس بات کوثابت کرتے ہیں کہ اگر نیک نیتی اور ایمانداری سے بہترین اقدامات کیے جائیں توہرطرح کی رکاوٹ کودورکیاجاسکتاہے۔

شاہین کے منتظمین کی حفظ پلس اسکیم کو بھی زبردست کامیابی حاصل ہوئی،جس کے زیر اہتمام حفاظ کو عصری تعلیم سے بھی ہمکنار کرایاجاتا ہے اوران کی بڑی تعداد میڈیکل اور انجینرنگ کی تعلیم میں کامیابی کے جھنڈے گاڑرہی ہے۔

مسلم نوجوانوں میں تعلیمی بیداری کے لیے ملک بھر میں کئی تعلیمی مشن کارفرما ہیں،ان میں بیدرکا شاہین گروپسں آف انسٹی ٹیوٹشن بہترین کارکردگی کامظاہرہ کررہاہے۔

اگر ہمیں کلدیپ نیئر کی بات کوصحیح ثابت کرناہے اور یقینی بنانا ہے کہ مسلمانوں میں بیداری اور وہ بھی تعلیم کے شعبے میں،پیداہوئی ہے توپھرہرشہر اور گاوں میں اپنی درسگاہ بنانے کا بیڑہ اٹھانا ہوگا۔سیاست سے کنارہ کرنے کے بجائے اولین ترجیح تعلیم کا حصول ہی ہواوریہ مسلمانوں کا اہم مقصد بن جائے توسونے ہر سہاگہ کا کام کرےگا۔
 

Javed Jamaluddin Javed
About the Author: Javed Jamaluddin Javed Read More Articles by Javed Jamaluddin Javed: 53 Articles with 39927 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.