انسان بنیادی طور پر جانور ہی ہے مگر یہ عقل سے لیس ہوا
تو اس نے خود کو جانوروں سے ممتاز ثابت کرنا شروع کر دیا۔ اس راستے میں
انوکھی بات یہ ہے کہ جب انسان عقل کے خلاف عمل کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس
کے ہمدرد اور پیارے اسے بتاتے ہیں کہ یہ عمل انسانی عقل کے خلاف ہے۔ بار
بار ایسا ہوتا ہے کہ جذباتی فیصلے عقلی فیصلوں پر حاوی ہو جاتے ہیں۔لڑائی
کا فیصلہ جذباتی ہوتا ہے اور بات چیت کو عقلی دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا
ہے۔عقل کا تعلق تعلیم، تجربے اور حالات کو سمجھنے کی صلاحیت سے ہے۔ عام طور
پر تعلیم عقل کے بڑھواے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اور سوچ کی نئی راہیں
کھلتی ہیں۔انسانی تاریخ میں ایسے بے شمار مواقع ٓآئے جب بظاہر جذباتی
فتوحات پر عقلی فیصلوں نے اپنی راہیں تراشیں اور جذباتی اور وقتی فتوحات پر
حاوی ہو گئیں۔
پاکستان میں عوام کو جاہل اور انپڑھ ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ عوام کو اس
شرمندگی سے بچانے کے لیے انیس سو تہتر کے ٓئین بنانے والوں نے اس آئین میں
درج کیا تھا کہ عوام کو بنیادی تعلیم دینا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔ حکومت
اور اداروں کو چلانے والے افراد اپنی کرسی پر براجمان ہونے سے پہلے اس آئین
پر عمل درآمد کا حلف اٹھاتے ہیں۔ مگر چالیس سالوں میں عوام کو انپڑھ اور
جاہل ہونے کا طعنہ تو متواتر دیا جاتا رہا مگر عوام کو تعلیم دینے میں
مجرمانہ غفلت سے کام لیا جاتا رہا۔ ان چالیس سالوں میں خود کو اولی العزم
بتاتے حکمران آئے تو چلے گے۔ ان میں سے کچھ مرکھپ گئے، کچھ حادثات میں مارے
گئے، کچھ پھانسی چڑھ گئے تو کچھ ملک سے بھاگ گئے۔ ملک میں موجود خود کو
رستم اور بقراط بتاتے حکمران بھی مگر عوام کو تعلیم دلانے کی توفیق سے
محروم ہی رہے۔
عقل ایک خدا داد صلاحیت ہے تو علم خود خدا کی صفت ہے جو اس نے مہربانی کر
کے زمین والوں پر نازل کی ہے۔ جن اقوام۔ معاشروں، خاندانوں اور افراد نے اس
صفت کی اہمیت کو جانا وہ دوسروں سے ممتاز ہوتے گئے۔ جو نہ پہچان پائے ان کو
اس صفت سے مزید دور رکھنے کے لیے علم سے دوری کے ڈول ڈالے گئے۔ تو جانور
نما معاشرے وجود میں آئے۔ جانوروں کے معاشرے میں سارے ہی جانور ہوتے ہیں۔
کوئی طاقت ور جانور ہوتا ہے تو کوئی کمزور جانور۔ کوئی بڑا جانور ہوتا ہے
تو کوئی چھوٹا جانور۔ اسی معاشرے سے یہ آواز اٹھی ہے کہ (نیوٹرل) تو جانور
ہوتا ہے ۔حقیقت مگر یہ ہے نیوٹرل صرف تعلیم یافتہ ہوتا ہے باقی سارے جانور
ہی ہوتے ہیں۔
|