ایک نامکمل کالم
(Munir Bin Bashir, Karachi)
ہمارے ذہن زنگ آلود ہیں ---- ان کا زنگ دور کرنے میں اور اور لوگوں کا شعور بیدار کرنے میں سوشل میڈیا کیا کردار ادا کر سکتا ہے ؟ ایک زمانہ تھا کہ جب کسی موضوع پر لکھنا ہوتا تھا تو لوگ باگ لائبریریوں کا رخ کرتے تھے - لیکن اب اس کی بجائے لوگ انٹر نیٹ پر پہنچتے ہیں - اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ لائبرییوں میں داخل ہونے کے اتنے قدغن ہیں کہ پڑھنے کا شوق باہر ہی مر جاتا ہے - یا کبھی تو اندر داخل ہونے ہی نہیں دیا جاتا اور بندہ بے نیل و مرام اپنی عزت سنبھالتے ہوئے باہر آجاتا ہے -(کچھ افراد کا کہنا ہے کہ اصل لفظ "بے نیل مرام"ہے --- میں نے عام الناس میں استعمال ہونے والے ہجے لئے ہیں )
اگر اس بارے میں ویب سائٹ کھولیں تو سوشل میڈیا کے بڑے بڑے فائدے نظر آئیں گے مثلاً اس سے عام افراد کی معلومات میں اضافہ ہوا ہے - معلومات کا ذخیرہ خود بخود آپ تک پہنچ جاتا ہے - اس سے فوری طور پر اطلاع ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کی جاسکتی ہے - اس سے حکومت بھی اس سے خوفزدہ رہتی ہے - اور کئی مواقع پر اسے معطل کر دیتی ہے وغیرہ وغیرہ - لیکن غور کریں ان سب کا ------ کسی فرد کے شعور کے اندر تبدیلی سے کوئی تعلق نہیں - شعور ایک الگ چیز ہے - شعور کا تعلق ایک فرد کی زندگی میں اس کے اپنے رویئے سے ہے - معلومات کا ذخیرہ حاصل کر لینے یا ڈگری حاصل کر نے سے نہیں - تو سوال یہ ہے کہ کیا ان معلومات اور سوشل میڈیا سے زندگی کے رویوں میں تبدیلی آئی ؟ جب زندگی کے رویوں میں تبدیلی آئی یا معاشرے کے رویوں میں تبدیلی آئی کہتے ہیں تو یہ بھی سوال اٹھتا ہے کہ کس معاشرے میں ؟ پاکستانی معاشرے میں یا کسی بیدار ذہن معاشرے میں ؟ دونوں سوسائٹیوں یا معاشروں کی ذہنی کیفیت ، سمجھ کے انداز ،سوچ کی بنت الگ الگ ہے اس لئے سوشل میڈیا کے اثرات بھی دونوں میں الگ الگ ہیں - اس سوال کو یوں بھی کر سکتے ہیں کہ جس معاشرے کے شعور میں سوشل میڈیا کے ذریعے تغیر و تبدل لانا چاہتے ہیں کیا اس معاشرے کے افراد کے ذہن بھی اسے قبول کر نے کے قابل ہیں ؟ ہم پاکستان میں رہتے ہیں تو ہماری بحث بھی پاکستانی معاشرے تک رہے گی --
قرۃ العین حیدر اپنی کتاب روشنی کی رفتار میں لکھتی ہیں "بہت سی اقوام کا سماجی ارتقا ایک خاص مقام پر آکر منجمد ہو جاتا ہے “ لاکھ کوشش کرو اس میں پگھلاہٹ نہیں آتی - کسی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس منجمد پن میں وقت کے ساتھ مزید سختی آتی ہے یعنی مزید موٹا ہوتا جاتا ہے - دوسرے الفاظ میں ذہنوں پر زنگ چڑھا ہوا ہے -یہ زنگ مزید بڑھے گا کم نہیں ہو گا - پاکستانی معاشرے کی یہی حالت ہے - جب آبادی کے بڑے حصے کا سماجی ارتقا ہی منجمد ہو چکا ہو تو اس میں سوشل میڈیا کیا تبدیلی لائے گا ؟- کچھ ہی افراد ہوں گے جو تبدیلی قبول کر نے کے قابل ہوں گے ورنہ باقی افراد پر کچھ اثر نہیں ہو گا --
علامہ اقبال نے بھی تو اپنے ایک متنازع شعر میں کچھ ایسی ہی بات کہی تھی - پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر مرد ناداں پے کلام نرم و نازک بے اثر یعنی زنگ آلود ذہنوں پر سوشل میڈیا کچھ اثر نہیں کرے گا اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری آبادی کا اغلب حصہ "مرد ناداں " کے زمرے میں آتا ہے چاہے وہ بیس درجے کا افسر ہو یا ایک درجے کا کارکن - ملائیشیا کے عظیم رہنما مہا تیر بھی اپنی خود نوشت میں ایسی ہی شکایت کرتےہیں - خود نوشت 'ایشیا کا مقدمہ' کے نام سے ترجمہ ہوئی - وہ کہتےہیں کہ میں نے ایک خاص قوم ملائی کی ہر معاملے میں مدد کی کوشش کی - اس زمانے کے تمام ذرائع ابلاغ استعمال کئے لیکن ان میں سیکھنے کے جراثیم ہی نہیں تھے - چنانچہ انہیں میں نے ان کے حال پر چھوڑدیا اور اپنی کوششیں دیگر اقوام پر جاری رکھیں ہمارے یہاں بھی یہی حال ہے - ایسی ہی بات قران مجید میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے سورہ الکہف آیت 6 میں کہی - "اگرکافرتمہاری باتوں کو نہیں مانتے تو آپ اپنے کو ان کے غم میں گھلا نہ دیں - یعنی دوسرے الفاظ میں کچھ کفار کے اذہان منجمد ہو چکے ہیں -ان میں زنگ لگ چکا ہے - ذہنی ارتقا رک چکا ہے -انہیں چھوڑ دیں - جو لوگ متاثر ہوئے ہیں وہاں اپنا کام مزید بڑھائیں-
قران مجید خود پند و نصائع کا ایک میڈیا ہے - جس میں پوری دنیا کی رہنمائی کی گئی ہے - شعور بیدار کر نے کی کتاب ہے - -اس مقدس کتاب کے آغاز میں ہی کہہ دیا گیا ہے الم --ذالک الکتاب لاریب فیہِ ھدی للمتقین اس کتاب سے ہدایت ملے گی ان لوگوں کو یا یہ کتاب ان لوگوں کی ہدایت کے لئے ہے جو متقین ہیں - جن کے ذہن کھلے ہوئے ہیں -اچھائی برائی میں فرق محسوس کرتے ہیں - کسی قسم کا تعصب نہیں ہے
اسی طرح اور بھی کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ نے ایسے انسانی اذہان کا تذکرہ کیا ہے جو اچھی باتوں کو قبول کرتے یا نہیں کرتے ہیں- ( سورہ بقرہ آیت 269 -- سورہ الفرقان آیت 43 )
راؤ منظر حیات اپنے کالم ( مطبوعہ ایکسپریس - فروری 2022) میں لکھتے ہیں " مسلسل جھوٹ سن کر قوم کی ذہنی ساخت تبدیل ہو چکی ہے - ہمارا سیاسی اور اخلاقی ڈی این اے حد درجہ ضعیف ہے -اسی طاقتور اخلاقی ڈی این اے کے لئے لفظ 'متقین' استعمال کر سکتے ہیں َ- یعنی ہم متقی کے انتہائی کم اور ضعیف درجے میں شامل ہیں اس لئے ہم پر کلام طیب - اچھے پند و نصائح اپنے زیادہ اثرات نہیں چھوڑیں گے
احمد ندیم قاسمی قیام پاکستان کے بعد لکھےگئے افسانوں میں سے ایک میں لکھتے ہیں کہ جب سوچ کا محور نسل انسانی کے خاص گروہ سے منسلک ہو جائے تو انسانیت ( میں شعور کہوں گا -یعنی اچھی بری چیز کی پہچان ) مفقود ہوجاتی ہے - جی ہاں اس کے بعد آنکھوں پرپردے پڑجاتے ہیں - اس خاص گروہ کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا - ہماری سوسائٹی میں سوچ کے محور کو موروثی نظام یا خاندان سے منسلک کردیا گیا ہے - اس لئے سوشل میڈیا ان افراد کا شعور بیدار کر نے میں ناکام رہے گی-
شہر ہار رحمان “ ہماری ویب “ میں اپنے قلم کےذریعے کافی طویل مباحث کرتے رہتے ہیں - ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ جنوبی ایشیا کو چھوڑ کر باقی دنیا میں سوشل میڈیا اتنا طاقتور ہو گیا ہے کہ اس کی مدد سے حکومتیں گرائی بھی جاسکتی ہیں اور بنائی بھی جا سکتی ہیں -وہ کہتے ہیں کہ اب سوال یہ کہ جنوبی ایشیا میں لوگ ایسا رد عمل کیوں نہیں دے سکتے - وہ تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستانی محسوس کرنے والی صلاحیت سے محروم ہوچکے ہیں- یہی سوال میں نے بھی اپنے کالم کے شروع میں کیا ہے کہ کس کس معاشرے میں ؟
ڈاکٹر مبارک علی اپنی کتاب مغل دربار - ( صفحہ 135 --157-) لکھتے ہیں “صدیوں کے ظلم ستم نے عوام کی شخصیت کو کچل کر رکھ دیا تھا - وہ یقین کر بیتھے تھے کہ بادشاہ اور وڈیروں کو ان پر ظلم کرنےکا حق حاصل ہے چنانچہ عوام اپنے وڈیروں ،سرداروں ، چوہدریوں کا جور و ظلم بغیر کسی چوں چراں کے تسلیم کر لیتے تھے -یہاں تک کہ لوگ اپنی بیویاں بھی ان کے حوالے کرنے میں باک نہیں سمجھتے تھے - صدیوں کی غلامی نے عوام کے ذہنوں میں یہ بات بٹھادی ہے کہ یہ تمہارا نصیب ہے -" اور یہی حال اب بھی تقریبآ ایسا ہی ہے-یہ افراد شہر پہنچ کر اس طلسم سے آزاد ہو جاتے ہیں -میں نے ایک مرتبہ کسی صنعتی ادارے کے دیہات سے آئے ھوئے کارکن سے پوچھا کہ تم آج اپنے انجینئر کے ساتھ ذرا سے معاملے پر ہاتھا پائی پراتر آئے ہو جبکہ وہ انجینئر صحیح کہہ رہا تھا اور دیہات میں تم اپنے چوہدری کی بات سے کوئی تعرض نہیں کرتے تو اس صنعتی کارکن نے جوب دیا "وہ تو ہمارا نصیب ھے لیکن تم نہیں ہو“ ا ن حالات میں جب افراد ہر بات کو صدیوں سے اپنا نصیب ٹھرائے ہوئے ہیں ، سوشل میڈیا کیا تبدیل لا سکتا ہے یہ صرف ایک صنعتی کارکن کی بات نہیں بلکہ پاکستانی معاشرے کا ایک بڑا حصہ وہ خوبیاں نہیں رکھتا جو ذہن سازی کے لئے ضروری ہیں اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ سوشل میڈیا ان کے اندر کوئی قابل قدر مثبت تبدیلی نہیں لا سکے گا - ایک صاحب سے اس مسئلے پر بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ دین اور دنیا کے معاملے میں ہر فرد کی اپنی اپنی سمجھ ہوتی ہے اور اپنی اپنی رائے ہوتی ہے - اس سمجھ اور رائے کو بنانے میں ڈی این اے (یعنی ذہنی موروثیت -- یعنی جو چیز ذہن میں ورثے میں آئی ہو ) ، ماں باپ کی تربیت اور رویہ' اسکول کالج کی تربیت اور ارد گرد معاشرے کے اثرات سب مل کر کردار ادا کرتے ہیں چنانچہ کوئی آدمی اپنی اس اوقات اور بساط زیادہ سوچ ہی نہیں سکتا - اسی بات کو قرۃالعین حیدر نے یوں لکھا ہے کہ ذہن ایک جگہ جاکر منجمد ہو جاتا ہے -
اس کی ایک مثال قبل مسیح کے دور میں بھی ملتی ہے - مولانا وحید الدین خان مرحوم اپنی کتاب 'فکر سلامی ' صفحہ 189 پر لکھتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا جب فرعون سے مقابلہ ہوا اور اس کے نتیجے میں فرعون اور اس کی فوج سمندر میں ڈوب کر ختم ہو گئی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کے لئے بہت آسان تھا کہ اقتدار سنبھال لیتے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ان کی قوم کے افراد کے ذہن بگڑے ہوئے ہیں --زنگ چڑھا ہوا ہے - اور ان کی موجودگی میں وہ کوئی خاظر خواہ کام نہیں سر انجام دے سکتے چنانچہ وہ اپنے ساتھیوں کو لیکر دور چلے گئے -ان افراد کی اور انکی اولاد کی الگ تھلگ ماحول میں (جہاں اس بگڑی قوم کے خیالات بھی نہ پہنچ سکیں) تربیت کرتے رہے - تقریباً چالیس برس بعد جب حضرت موسیٰ بھی اس دنیا سے چلے گئے- دیگر ادھیڑ اورعمر رسیدہ لوگ بھی فوت ہوگئے -ان افراد پر چھائے ہوئے غلامی کے اثرات کا خاتمہ ہوگیا اور نئی نسل حکمرانی کے قابل ہوگئی تو حضرت یوشع بن بن نون کی قیادت میں حملہ آور ہوئے اور اس علاقے میں صحیح افراد کی حکوت قائم ہوئی -
میں نے اس کالم میں اس لحاظ سے بات کرنے کی کوشش کی ہے کہ بتایا جائے کہ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ سوشل میڈیا سے پاکستان میں کوئی بڑا ذہنی انقلاب لایا جاسکتا ہے تو یہ خیال عبث ہے - اس کی مدد سے اضطراب تو پیدا کیا جاسکتا ہے لیکن ذہنی انقلاب نہیں -ویسے کچھ افراد کا کیا یہ بھی ہے کہ یہی اضطراب بعد میں انقلاب لانے کا موجب بن سکتا ہے - غالباًاسی بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کالم نویس ڈاکٹر مطلوب - 29 جون 2010 کے کالم میں لکھتے ہیں کہ اگر تحریر سے چند درجن بھر افراد کے ذہن بھی متا ثر ہو جاتے ہیں تو سمجھ لو کہ تحریر ضائع نہیں گئی - اور تحریر کا مقصد پورا ہو گیا -
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سابق سربراہ جنرل غفور آصف نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ٹاک شو میں صرف مسائل پر بات ہوتی ہے لیکن حل کوئی نہیں بتاتا (30 اپریل 2019 )- یہی اس کالم کا حال ہے - زیر نظر کالم کو میں مکمل نہیں کہہ سکتا اور نہ ہی کہوں گا - یہ آغاز بحث ہے نہ کہ خاتمہ بحث -- اس پر مکالمات کی ضرورت ہے کہ وہ کیا حل ہیں جو افراد کے اذہان ' اچھی بات کو قبول کرنے والا بنا دیں ؟ تعلیمی ادارے صحیح کر دئے جائیں تو کچھ صورت حال بہتر ہو سکتی ہے لیکن دور دراز دیہاتوں میں یہ کام کیسے سرانجام پائیں گے ؟ کیا دیہات میں بیٹھے سربراہان اس میں تعاون کریں گے ؟ وغیرہ وغیرہ یاد رہے کہ سابق گورنر مغربی پاکستان ملک امیر محمد خان اسکول کھولنے کے سخت مخالف تھے - |