تشہیر کہانی۔ادب ا طفال اُردو میں ایک منفرد رجحان
(Zulfiqar Ali Bukhari, Islamabad)
تحریر: ذوالفقار علی بخاری، پاکستان
انسان کو ازل سے ہی جاننے کا شوق رہا ہے اوریہی وہ عمل تھا جس نے کہانی کو جنم دیا۔آپ اورہم اپنی زندگی میں کئی سچی اورفرضی کہانیاں پڑھتے ہیں اورانہی کی بدولت بہت کچھ سیکھتے بھی ہیں۔اکثر ادبی دنیا میں نوجوان اچھی کہانی لکھ کر اپنا نام بنا نے کے خواہشمند ہوتے ہیں وہ نامور ادیبوں کی کہانیوں کو پڑھ کر کہانی لکھنا سیکھ جاتے ہیں۔ہر کہانی کا ایک مقصد ہوتا ہے لیکن کچھ کہانیاں ایسی ہوتی ہیں جو مخصوص پیغا م دینے کے لئے لکھی جاتی ہیں جس سے پڑھنے والے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔
”تشہیر کہانی“ بھی ایک ایسا ہی سلسلہ ہے۔
راقم السطور کی نظر میں:”ایسی کہانی جو کسی بھی تشہیری مقصد کے لئے لکھی جائے گی وہ ”تشہیر کہانی“کہلائی گی“۔ اس میں کسی بھی رسالے کے خاص نمبر، کسی بھی ادیب کی نئی آنے والی کتاب، کسی ادبی سرگرمی یا رسالے کے حوالے سے معلوماتی تشہیری کہانی لکھی جا سکتی ہے جس کا مقصد اُس کے بارے میں پڑھنے والوں کو آگاہ کرنا ہے۔اگرچہ اس حوالے سے نقد وتبصرہ بھی اپنا کردار ادا کر رہے ہیں لیکن تشہیر کہانی عام قارئین بھی پڑھ کراپنی کوئی رائے قائم کر سکتے ہیں جس سے ادب کے فروغ میں بھرپورمدد مل سکتی ہے۔ راقم السطور کو ”آپ بیتیاں۔ حصہ دوئم“ جس میں تیس نامور ادیبوں اورمدیران کی آپ بیتیوں شامل ہیں کے لئے بطور معاون مدیر کام کرنے کا موقعہ ملا تو اُس کی تشہیر کو بھرپور انداز میں کرنے کے لئے تشہیری کہانی لکھنے کا خیال آیا جو کہ اپنی طرز کا ادب اطفال میں ایک منفرد تجربہ ہے۔”آپ بیتیاں۔ حصہ دوئم“ کے مدیران محبوب الہی مخمور اورنوشاد عادل تھے۔اس تاریخ ساز کتاب کی بھرپورفروخت میں اس کی تشہیر نے بھی اہم ترین کردار ادا کیا ہے اسی نے راقم السطور کو ”تشہیر کہانی“ پر کام کرنے پراُکسایا کہ کہانی،کہانی میں تشہیر کردی جائے۔
اس حوالے سے پہلی کہانی فیس بک پر بعنوان”پہلی سیڑھی“ بتاریخ 29ستمبر2021 لکھی تو خوب پذیرائی ملی۔ اُس کے بعد ایک مختصر کہانی”تحفہ“ اورپھر گلدستہ ٹوٹ بٹوٹ کے ”لائبریری نمبر“ کے لئے لکھی جانے والی کہانی ”علم کا خرانہ“ نے بھرپور پذیرائی حاصل کی۔یہ کہانیاں ویب سائٹس (دی سورس بھارت، ہماری ویب ڈاٹ کوم اورپرتلپی اُردو)، الفجر ڈیجیٹل میگزین، بھارت اورڈیلی حالات نیوز، بھارت میں شائع ہو چکی ہیں۔جس طرح سے کاروباری اشتہارات ہوتے ہیں اسی طرح سے تشہیری کہانیاں بھی لکھی جا سکتی ہیں جو کاروباری اشتہارات کی مانند اپنا پیغام پڑھنے والوں تک پہنچا سکتی ہیں تاہم اس کے لئے ضروری ہوگا کہ کہانی کے عنوان کے ساتھ لفظ تشہیر کہانی یا تشہیری کہانی ضرور لکھا جائے تاکہ ادیبوں سے ہٹ کر کوئی عام قاری پڑھے تو اسے علم ہو سکے کہ تشہیری کہانی ہے،اگر ایسا نہ کیا جائے تو عام قاری یہی سمجھے گا کہ قلم کارنے لفظوں کے ہیرپھیر سے صفحات بھرے ہیں۔اس طرح کی کہانیوں کو شائع کرنے والے رسائل کے مدیران تک کوبھی یہ خیال رکھنا چاہیے بصورت دیگر ان کی ساکھ متاثر ہوگی قلم کار پر بات بعد میں آئے گی کہ اُس نے کیا لکھ دیا ہے کیونکہ تشہیرکہانی اپنا ایک مخصوص روپ رکھتی ہے اوراس کا ذائقہ ہر ایک کو پسند نہیں آسکتا ہے۔یاد رکھیں کہ آج کے دور میں تشہیر بے حد ضروری ہو چکی ہے اس کے بغیر نہ تو کوئی رسالہ بھرپور فروخت ہو سکتا ہے اور نہ ہی کسی عام سے عام چیز کو خریدنے پر گاہکوں کو مائل کیا جا سکتا ہے۔راقم السطور کی خواہش ہے کہ ادب کے میدان میں بھی تجربات کرنے چاہیں اسی سے مزید فروغ حاصل ہوگا۔تشہیر کہانی ضرور لکھیں لیکن اس حوالے سے لکھنے والے یا لکھوانے والے یہ بات یاد رکھیں کہ چونکہ تشہیر سے مالی طورپر نفع ہو سکتا ہے تو اس کا اعزازیہ ضرور ملنا چاہیے کیوں کہ تشہیر کہانی اگر عمدگی سے اپنا پیغام پہنچائی گی تو پھر قلم کار تک بھی کچھ نہ کچھ ضرور پہنچنا چاہیے تاہم جو ازخود ادب کے فروغ کے لئے لکھیں اُن پر کسی طرح کی قدغن نہیں لگائی جا سکتی ہے۔کاروباری اشتہارات لکھنے والے بھی خوب کمائی کرتے ہیں تاہم تشہیر کہانی مقابلے میں انعامات اگر بہترین کہانیوں کو دیے جائیں تو وہ ایک الگ معاملہ ہے۔
یہاں کہانی کے حوالے سے ایک بات اُن احباب کی کے لئے ضرور کہنا چاہوں گا جو کہانی لکھنا چاہتے ہیں لیکن قلم اورذہن دونوں چلتے نہیں ہیں۔اگر آپ کہانی لکھنا چاہتے ہیں اوریہ سمجھ نہیں آتا ہے کہ آپ کس طرح کے واقعات کو کہانی میں شامل کریں تواپنے اردگرد چلتی پھرتی کہانیوں پر نظرڈالیں اوراگر بچوں کے لئے لکھنا ہو تو اْن کے ذہن کے مطابق اوربڑوں کے لئے لکھنی ہو تو اْسی لحاظ سے بیان کردیں۔آپ کوفرضی کہانیوں کی بہ نسبت سچی کہانیاں لکھنے سے زیادہ حوصلہ ہوگا کہ آپ کے لئے کہانی لکھنا آسان ہوگا کہ سب واقعات علم میں ہونگے، وقت کے ساتھ ساتھ مشاہدہ زیادہ کریں گے تواپنے تخیل سے بھی کہانی لکھنا شروع ہو جائیں گے۔اسی طرح سے آپ مضامین بھی اُن معاملات پر زیادہ لکھ سکتے ہیں جس کی معلومات آپ کے پاس زیادہ ہونگی۔ہمارے نزدیک تفریح کے ساتھ شعور بیداری بھی کہانی لکھنے کامقصد ہے، کہانی کوئی ادبی فن پارہ نہیں ہے کہ آپ ادبی معیار پر پرکھیں، کہانی سننے یا پڑھنے والا تفریح یا شعور بیدار کرنے کے لئے بھی پڑھ سکتا ہے۔اگر کسی نے ادبی لحاظ سے کہانی پڑھنی ہو تو پھر اْن کو کہانی بھی اْسی معیار وحساب سے لکھی جانے والی پڑھنی چاہیے۔ہمارے ہاں اکثرکہانیوں کو شائع کرنے کے الگ الگ معیار ہیں اسی وجہ سے لکھاری بھی پریشان رہتے ہیں کہ شائع کیوں نہیں ہوتے ہیں تاہم جس طرح سے کہانیوں کے موضوعات الگ الگ ہوتے ہیں اسی طرح سے اُن کہانیوں کو شائع کرنے والے رسائل بھی مخصوص ہوتے ہیں اب یہ ایک قلم کار کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ جانے کہ اُس کی کونسی کہانی کس رسالے کے لئے مفید ہے۔اگر کوئی تشہیر کہانی لکھتا ہے تو اُسے یہ سوچنا پڑے گا کہ تشہیر کس حوالے سے ہے اوریہ کہانی کدھر شائع ہو سکتی ہے۔ اب کچھ بات کرتے ہیں اُن تشہیری کہانیوں کی جو مورخہ 18مارچ 2022تک راقم السطور کی نظر میں آچکی ہیں۔
محترمہ مہوش اسد شیخ کی کہانی”کتاب دوست“ جو کہ بچوں کا باغ، لاہور کے جنوری 2022کے شمارے میں شائع ہوئی اُسے ہم تشہیری کہانی کہہ سکتے ہیں کہ اس میں 26 مختلف کتب کا تذکرہ کیا گیا ہے اس سے قبل کبھی کسی بھی کہانی میں اتنی بڑی تعداد میں ادیبوں کی کتب کا ذکر نہیں ہوا ہے۔ اس حوالے سے یہ اولین کہانی ہے۔اس کہانی کو ملنے والی پذیرائی نے ”تشہیر کہانی“ سلسلے کی مقبولیت کوعیاں کر دیا ہے۔نامور بھارتی ادیب حسنین عاقب کی کہانی”موگلی اور کہاوت کہانی نمبر“ گلدستہ ٹوٹ بٹو ٹ جونیئر کے کہاوت کہانی نمبر کے لئے بطورخاص لکھی گئی ہے جس نے راقم السطور کو بے حدمسرت کیا ہے کہ حسین عاقب جیسے معروف ادیب نے”تشہیر کہانی“سلسلے کو اہمیت دی ہے۔فیس بک پر ”نانو، دادو اورہم“ نامی کہانی نظرسے گذری جو مریم شہزاد صاحبہ نے لکھی ہے۔ محترمہ ادیبہ انور کی کہانی”آم کے آم گھٹلیوں کے دام“ روزنامہ شہباز، پشاور میں 26فروری2022کو شائع ہوئی۔
17مارچ2022کو محترمہ فاکہہ قمر کی تشہیری کہانی”فوٹو شوٹ“ڈیلی حالات نیوز، بھارت میں شائع ہوئی ہے جو کہ آپ بیتیاں کتاب کی تشہیرکے حوالے سے لکھی جانے والی دوسری تشہیری کہانی ہے لیکن فاکہہ قمر صاحبہ کی اولین تشہیری کہانی ہے۔ادب اطفال کی دنیا میں اپنے منفرد اسلوب کی بدولت تیزی سے جگہ بنانے والے احمد نعمان شیخ نے ٹائم ٹریول کے موضوع پر کہانی ”ٹائم ٹریول کیا ہے“ لکھی جس نے خوب قارئین سے پذیرائی حاصل کی ہے، یاد رہے یہ کہانی”بچوں کا باغ“ کے مارچ 2022کے شمارے میں شائع ہوئی۔ یہ راقم السطور کے لئے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ پاکستان سے اوربھارت سے بہترین لکھنے والوں نے اس سلسلے میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔
اب تک درج ذیل قلم کاروں نے تشہیری کہانیاں لکھی ہیں جو میرے لئے باعث مسرت ہیں۔ احمد نعمان شیخ، سعودی عرب،حسنین عاقب۔ بھارت،تہنیت افتخار۔لاہور،ادیبہ انور۔یونان،بہرام علی وٹو۔بہاول نگر،مہوش اسد شیخ۔ فیصل آباد،محمد رمضان شاکر۔پاکپتن، نیلم علی راجہ۔ چکوال،ہادیہ جنید،عرفان حیدر۔ جھنگ،شاہ رخ گل۔ سیالکوٹ، حمیرا علیم۔کوئٹہ اورسعدیہ نسیم۔سیالکوٹ،عیشاء صائمہ۔ٹیکسلا،سیدہ رابعہ ہاشمی۔احمد پورشرقیہ، صائمہ مسلم۔کراچی، حمزہ علی، اریبہ عابد حسین، ایبٹ آباد،طیبہ زاہد، محمد عثمان ذوالفقار،سیدہ لبنی رضوی، سائرہ شاہد۔ڈیرہ غازی خان، ارسلان اللہ خان، فاکہہ قمر۔سیالکوٹ، سبین مقصود اورمحمد عثمان ذوالفقار تاحال اس حوالے سے تشہیری کہانیاں لکھ چکے ہیں۔
یہاں قارئین کے لئے انکشاف کرتا چلوں کہ محمد جعفرخونپوریہ نے راقم السطور کو بتایا کہ انہوں نے راقم السطور کی تشہیری کہانیوں کو دیکھ کر ہی فاکہہ قمر سے دو کہانیاں ”ڈینگی ڈریکولا اورببلی اورپی جی اور ٹائیگر“ لکھوائی ہیں جس نے دل باغ باغ کر دیا ہے یہ مختصر کہانیاں عنقریب منظر عام پر آرہی ہیں۔ راقم السطور کو قوی یقین ہے کہ مزیدقلم کار بھی تشہیر کہانی لکھتے رہیں گے تاکہ بچوں اوربڑوں کو مطالعے کی جانب مائل کرسکیں،درحقیقت یہی وہ بات ہے جس کو مدنظر رکھتے ہوئے راقم السطور نے ”تشہیر کہانی“ سلسلے کی بنیا درکھی ہے جس کا بنیادی مقصد ادب اطفال کا فروغ ہے۔ ّ ۔ختم شد۔ |