#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالزخرف ، اٰیت 15 تا 21
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانہ ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کس یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
جعلوالهٗ
من عبادهٖ
جزءا ان الانسان
لکفور مبین 15 ام
اتخذ مما یخلق بنٰت و
اصفٰکم بالبنین 16 واذا بشر
احدھم بما ضرب للرحمٰن مثلا
ظل وجھهٗ مسودا وھو کظیم 17 او
من ینشؤا فی الحلیة وھو فی الخصام غیر
مبین 18 وجعلوا الملٰئکة الذین ھم عبٰد الرحمٰن
اناثا اشھدوا خلقھم ستکتب شھادتھم ویسئلون 19
وقالوا لوشاء الرحمٰن ماعبدنٰہم مالھم بذٰلک من علم ان ھم
الّا یخرصون 20 ام اٰتینٰھم کتٰبا من قبلهٖ فھم بهٖ مستمسکون 21
اِس سُورت کی اِن اٰیات سے پہلی اٰیات میں جن ناشکرے لوگوں کا ہم نے ذکر
کیا ہے اُن نا شکرے لوگوں کے فکری تضاد کا اَحوال یہ ہے کہ ایک طرف تو وہ
اپنی جس زبان سے اللہ کو خالقِ عالَم کہتے ہیں تو دُوسری طرف وہ اپنی اُسی
زبان سے اپنے اِس کافرانہ اعتقاد کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں کہ اللہ ایک
صاحبِ اولاد ہستی ہے اور اُن کے اِس اعتقاد میں عقلی و فکری خرابی یہ بے کہ
اگر اُن کے خیال میں اللہ کی کوئی نسلی اولاد ہے تو اُس کا منطقی نتیجہ یہ
ہو گا کہ اُس کے اَجزاۓ ذات اُس کی اولاد میں مُسلسل مُنتقل ہو کر اُس کی
ذات کو بھی مُسلسل ناقص بنا رہے ہوں گے جو ایک اَمرِ محال ہے کیونکہ اُس کی
عالی ذات اِن تمام نقائص و نقائض سے پاک ہے لیکن انسان کی اس کُھلی بے عقلی
سے اِس بات کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ انسان جب عقلی و فکری گم راہی
میں مُبتلا ہو جاتا ہے تو وہ ہر اُس حقیقت کا انکار کردیتا ہے جو حقیقت اِس
گم راہی کے خلاف ہوتی ہے ، اُس کی ایک یہ مثال ہے کہ وہ اپنے لیۓ تو بیٹے
پسند کرتا ہے لیکن اللہ کے لیۓ اُس نے اللہ کے فرشتوں کو۔اللہ کی وہ خیالی
بیٹیاں بنایا ہوا ہے جن بیٹیوں کو وہ اپنے خیال میں اپنے لیۓ اِس قدر ذلّت
و عار سمجھتا ہے کہ جب اُس کو بیٹی کی بشارت دی جاتی ہے تو وہ اتنے گہرے غم
میں چلا جاتا ہے کہ اُس کا روشن چہرہ ہی سیاہ ہو جاتا ہے ، انسان کے اِس
جاہلانہ اعتقاد میں یہ تضاد ہے کہ بیٹیوں کی تو فطری ساخت ہی یہ ہوتی ہے کہ
وہ آرائشِ ذات سے بڑھ کر کسی اور جھمیلے کو خاطر میں نہیں لاتیں یا نہیں لا
سکتیں لیکن یہ کافر یہ کہتے ہیں کہ اللہ نے اپنی یہ بیٹیاں اِس لیۓ بنائی
ہیں تاکہ وہ عالَم کا نظم چلانے میں اللہ کی مدد کریں اور یہ کتنا احمقانہ
خیال ہے کہ اللہ کی جو بیٹیاں آرائشِ ذات سے آگے تو نہیں بڑھ سکتیں ہیں
لیکن اللہ کا نظامِ عالَم چلانے میں اللہ کی بھر پُور مدد کرتی ہیں ، اِن
سے بَھلا کوئی یہ تو پُو چھے کہ اِن لوگوں نے اللہ کے جن فرشتوں کو مؤنث
بنایا ہوا ہے تو کیا اللہ جب اپنے اِن فرمان بردار فرشتوں کی تخلیق کر رہا
تھا تو اُس نے اِن لوگوں کو بھی اپنی اُس تخلیق کی تخلیقی گواہی کے لیۓ
اپنے ساتھ بٹھایا ہوا تھا جو یہ لوگ اِس کر و فر کے ساتھ یہ گواہی دے رہے
ہیں ، بہر حال ہم نے اِس گواہی کو ہم نے لکھ لیا ہے اور ہم اِن سے ضرور
پُوچھیں گے کہ تُمہارے اِس دعوے کی کیا دلیل ہے جو دعوٰی تُم نے کیا ہے اور
یہ عقل و شعور سے بے بہرہ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ جن جنوں یا انسانوں
اور جن فرشتوں یا دیوی دیوتاؤں کی بندگی کرتے ہیں اگر اللہ کو یہ بندگی نا
پسند ہوتی تو وہ بذاتِ خود ہی ہمیں روک دیتا مگر اِن کی یہ سب باتیں اِن کے
وہ خیالی تیر تُکے ہیں جن کو یہ اپنے خیال سے چلاتے ہیں کیونکہ ایسا تو ہر
گز نہیں ہے کہ ہم نے اِن کو اِن مُشرکانہ مُعتقدات کی کوئی دی ہوئی ہے جس
کے اَحکام پر وہ اِس مضبوطی کے ساتھ قائم ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
تقدیر انسانی زندگی میں کثرت کے ساتھ سنا جانے والا اور انسانی خیالات پر
کثرت کے ساتھ اثر انداز ہونے والا وہ لفظ ہے جس لفظ کی تعلیم و تفہیم کے
لیۓ انسان کو اسی طرح کسی انسانی لُغت کو دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے جس طرح
سُورج ڈھلنے لگا ہے ، رات بڑھنے لگی ہے ، چراغ جلنے لگے ہیں ، تارے چمکنے
لگے ہیں اور چاند روشن ہونے لگا ہے کے الفاظ کی تعلیم و تفہیم کے لیۓ انسان
کو کسی انسانی لُغت کی ضرورت نہیں ہوتی اور نزولِ قُرآن کے بعد خاص طور پر
تقدیر کے لفظ کو سمجھنے کے لیۓ انسان کو کسی انسانی لُغت کی اِس لیۓ بھی
ضرورت نہیں ہے کہ قُرآنِ کریم نے اٰیاتِ بالا کی آخری سے پہلی اٰیت میں
تقدیر کا ہر زمانے میں موجُود رہا ہوا اور ہر زمانے میں موجُود رہنے والا
وہ عام فہم اصطلاحی مفہوم بیان کرکے اہلِ لُغت کی اُن ساری مُوشگافیوں اور
اہلِ زبان کی اُن ساری مُنہ شگافیوں کا در وازہ ہی بند کر دیا ہے جن
مُوشگافیوں اور مُنہ شگافیوں نے تقدیر کے اِس عام فہم لفظ کو ایک پیچیدہ
مفہوم کا حامل بنایا ہوا ہے اور اسی لیۓ ہم نے بھی تقدیر کی اُن بے تدبیر و
بے تعبیر لُغوی بحثوں سے گریز کیا ہے ، قُرآنِ کریم نے اٰیتِ بالا کے
مفہومِ بالا میں تقدیر کا جو مقصدی معنٰی مُراد لیا ہے اُس مقصدی و مُرادی
معنی کی رُو سے انسان لفظِ تقدیر سے یہ مُراد لیتا ہے کہ وہ ایک زندہ ہستی
کے طور پر زمین پر جو بھی کوئی اچھا یا بُرا عمل کر چکا ہے یا کر رہا ہے
اور یا کرنے والا ہے وہ عمل وہ اپنی اُس تقدیر کے مطابق کر رہا ہے اُس کی
جو تقدیر اُس کے کاتبِ تقدیر نے اُس کی تخلیق سے پہلے ہی تحریر کر دی ہے
اِس لیۓ اُس کا کوئی عمل اُس کی حاضر تدبیر کے تابع نہیں ہے بلکہ اُس کی
اُس غائب تقدیر کے تابع ہے جو اُس کے کاتبِ تقدیر نے اُس کی تخلیق سے پہلے
ہی لکھ دی ہے اور تخلیق کے بعد اُس نے ایک مجبورِ مُطلق انسان کے طور پر
بہر صورت اپنی اُسی تقدیر کے مطابق عمل کرنا ہے جو اُس کا نوشتہِ تقدیر ہے
لیکن تقدیر کا یہ انسانی تصور ایک غیر قُرآنی تصور ہے جو قُرآن کے اُس
قانون کے یکسر خلاف ہے جو سُورَةُالنجم کی اٰیت 39 اور 40 میں بیان ہوا ہے
اور اُس قانون کے مطابق انسان کا مقدر وہی ہے جو اُس نے اپنے زورِ بازُو سے
اپنے لیۓ باز یاب کیا ہے اور وہ چیز انسان کے لیۓ ہر گز نہیں ہے جس چیز کے
لیۓ انسان نے کُچھ کیا ہی نہیں ہے ، عقلی اعتبار سے مرد وزن کے ایک فطری
عمل سے زمین میں مرد و زن کا پیدا ہونا مرد و زن کی وہ تقدیر ہے جو مرد و
زن کے کاتبِ تقدیر نے مرد و زن کی تخلیق سے پہلے تحریر کی ہے ، مردوزن کا
ایک خاص مُدت تک رحمِ مادر میں رہ کر وجُود میں آنا ، وجُود میں آنے کے بعد
آغوشِ مادر میں آنا ، آغوشِ مادر میں آنے کے بعد ایک مُدت تک جسم کو صرف
ہلکی پُھلکی حرکت ہی دینے کے قابل ہونا ، پھر ایک خاص مُدت تک زمین پر
رینگنا ، پھر ایک خاص مُدت کے بعد اپنے قدموں پر کھڑا ہونا اور ایک خاص
مُدت تک زمین پر چلنے پھرنے کے بعد مرد وزن کے مرجانے کے ایسے چند اُمور ہی
مرد و زن کی اُس تقدیر کا حصہ ہوتے ہیں جو تقدیر اُن مرد و زن کی اُس تخلیق
سے پہلے تحریر کی جاتی ہے لیکن جہاں تک تخلیق و تدفین کے درمیانی وقفے کا
تعلق ہے تو اُس وقفے میں انسان اپنے آزاد ارادے سے جو کُچھ کرتا ہے وہ سب
کُچھ اُس کی تخلیقی تقدیر نہیں ہے بلکہ انسان کی وہ عملی تدبیر ہے جس عملی
تدبیر کے مُثبت و مَنفی نتائج کے بارے میں انسان نے اللہ تعالٰی کے سامنے
پیش ہو کر اپنی وہ جواب دہی کرنی ہے جو جواب دہی اُس کی کسی خیالی تقدیر کی
جواب دہی نہیں ہوگی بلکہ اُس کی عملی تدبیر کی جواب دہی ہو گی ، ہر چند کہ
دُنیا کی ہر علم سے خالی سینہ ، عمل سے عاری دل ، عقل سے خالی سر اور ہمت
سے محروم جان رکھنے والی قوم اپنی علمی و عملی جہالت کو کاتبِ تقدیر کا
لکھا قرار دیتی ہے لیکن اہل اسلام میں تقدیر و کاتبِ تقدیر کی شکایت دُوسری
قوموں سے زیادہ کی جاتی ہے اور یہ شکایت اللہ کی قُدرت و قُوت کے طور پر
سنی اور سنائی جاتی ہے !!
|