اقوام متحدہ کے 2030 کے پائیدار ترقیاتی ایجنڈے کی روشنی
میں دنیا سے غربت کا خاتمہ ایک کلیدی نکتہ ہے لیکن موجودہ صورتحال میں
مختلف عالمی تنازعات اور کووڈ۔19 کی وبائی صورتحال میں اس ہدف کا حصول کافی
دشوار محسوس ہو رہا ہے۔ دوسری جانب ابھی حال ہی میں عالمی بینک، چین کی
وزارت خزانہ اور ریاستی کونسل کے ترقیاتی تحقیقی مرکز کی شائع شدہ مشترکہ
رپورٹ کے مطابق، چین نے گزشتہ 40 سالوں میں تقریباً 800 ملین لوگوں کو غربت
سے نکالا ہے۔ گزشتہ چار دہائیوں میں فی کس 1.9 امریکی ڈالر یومیہ عالمی
غربت کی لکیر کی بنیاد پر اسی کروڑ افراد کو غربت سے نکالنا جہاں ایک غیر
معمولی اور حیرت انگیز امر ہے، وہاں اس عرصے کے دوران اس نے مجموعی طور پر
عالمی غربت میں تقریباً 75 فیصد کمی لائی ہے۔ انسداد غربت کی یہ کامیابیاں
وسیع پیمانے پر اقتصادی پالیسیوں میں موئثر تبدیلی اور غربت کے خاتمے کے
لیے موزوں اقدامات کا بہترین مظہر ہیں۔ صدر شی جن پھنگ کی قیادت میں چین نے
عوام پر مبنی پالیسی سازی کی بدولت غربت کو مکمل شکت دیتے ہوئے ایک جامع
معتدل خوشحال معاشرہ تشکیل دیا ہے جس کی دنیا میں دیگر کوئی مثال موجود
نہیں ہے۔
معاشی میدان میں متعارف کروائی جانے والی اصلاحات کی بدولت ملازمت کے نئے
مواقع پیدا ہوئے اور غربت زدہ افراد کے معاش میں بہتری سے اُن کی آمدنی میں
بھی زبردست اضافہ ہوا۔ ایک ہی وقت میں، غربت کے خاتمے کی اہدافی حکمت عملی
نے متعدد دیگر عوامل جیسے کہ ارضیاتی ماحول کو بھی مدنظر رکھا کیونکہ یہ
مطلق غربت کے خاتمے میں نہایت اہمیت کا حامل پہلو ہے ۔2021کے اوائل میں چین
نے ملک سے مطلق غربت کے خاتمے کا اعلان کیا اور باقی دنیا کے لیے ایک مثال
قائم کرنے کے بعد، اب کوشش کی جا رہی ہے کہ انسداد غربت کی کامیابیوں کو
مزید مستحکم کیا جائے تاکہ غربت سے نجات پانے والے افراد کہیں دوبارہ اس
دلدل میں نہ دھنس جائیں۔اس ضمن میں ایک متحرک نگران اور معاون طریقہ کار
قائم کیا گیا ہے، اور اب تک کے نتائج کے مطابق غربت سے نجات پانے والوں میں
سے تقریباً 70 فیصد دوبارہ غربت کا شکار ہونے کے خطرے سے باہر ہیں۔ گزشتہ
سال، مرکزی حکومت نے بہتر دیہی زندگی کو فروغ دینے کے لیے سبسڈیز میں 156.1
بلین یوآن (24.5 بلین ڈالر) مختص کیے، جو پچھلے سال کے مقابلے میں 10 بلین
یوآن زائد ہیں۔غربت کی دلدل سے باہر نکالے جانے والوں کی فی کس خالص آمدنی
12,550 یوآن تک پہنچ چکی ہے ، جو 2020 کے مقابلے میں 16.9 فیصد زیادہ ہے۔
چینی حکام سمجھتے ہیں کہ اس وقت بھی کچھ علاقوں میں لوگوں کی آمدنی کی سطح
نسبتاً کم ہے، اور قدرتی آفات، امراض اور حادثات لوگوں کو دوبارہ غربت میں
دھکیلنے کا سبب بن سکتے ہیں۔انہی پہلووں کے پیش نظر کلیدی گروہوں کے لیے
نگرانی اور معاونت کے طریقہ کار کو بہتر بنایا جا رہا ہے، غربت کی جانب
دوبارہ لوٹنے کے خطرے سے دوچار دیہی گھرانوں کی احتیاط سے نگرانی کی جا رہی
ہے، جبکہ سماجی امداد اور صحت کی دیکھ بھال کی خدمات جلد از جلد فراہم کی
جا رہی ہیں۔ چین کی کوشش ہے کہ ٹیکنالوجی، سہولیات اور مارکیٹنگ کے حوالے
سے معاون دیہی صنعتوں کی ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے
اقدامات کیے جائیں، اور غربت سے نجات پانے والے افراد کے لیے روزگار کے
مزید مواقع پیدا کیے جائیں ۔اس ضمن میں تکنیکی، تعلیمی اور طبی عملہ کلیدی
کاؤنٹیز میں متعلقہ ترقیاتی منصوبوں میں مدد فراہم کرے گا جن کی مدد سے
دیہی حیات کاری میں مدد ملے گی، جب کہ نقل مکانی کرنے والی کمیونٹیز کے
بنیادی ڈھانچے اور عوامی خدمات کو بہتر بنایا جائے گا۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ چین اپنے انسداد غربت کے کامیاب تجربات کا باقی دنیا
بالخصوص ترقی پزیر ممالک کے ساتھ تبادلہ کر رہا ہے تاکہ خوشحالی اور ترقی
کے ثمرات پوری دنیا تک بھی پہنچ پائیں۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری کی
تعمیر اس کی عمدہ مثال ہے جس نے پاکستانی سماج پر انتہائی مثبت اثرات مرتب
کیے ہیں۔ سی پیک کی تعمیر و ترقی سے پاکستان میں توانائی کے بحران ، بے
روزگاری کے خاتمے ،صنعتی سرگرمیوں کی بحالی ، انفراسٹرکچر کی بہتری ، زراعت
کی ترقی اور دیگر معاشی سرگرمیوں کو آگے بڑھانے میں مدد ملی ہے۔ان تمام
شعبہ جات میں ہونے والی پیش رفت کا براہ راست تعلق غربت کے خاتمے سے
ہے۔اپنی وسعت اور تعمیری شراکت کے تناظر میں سی پیک یقیناً ایک اہم سنگ میل
ہے جو اپنی تکمیل کے بعد پاکستان میں غربت کے اندھیروں کو دور کرنے میں
انتہائی معاون ثابت ہو گی۔
|