خوبصورتی میں اپنی مثال آپ سوات کی وجہ شہرت صرف سیاحت کے
حوالے سے نہیں بلکہ یہ اپنی منفرد پھلوں اور غلہ دار اجناس کی وجہ سے بھی
بہت مشہور ہے، یہاں کی مٹی اور آب وہوا میں اللہ تعالیٰ نے جوخاصیت اور
مٹھاس پیداکیا ہے وہ اس کی تمام فصلوںمیں بھی منتقل ہوکر ان کو ملک کے دیگر
علاقوںمیں اسی طرح کی فصلوں کے مقابلے میں ذائقہ، رنگت اور دیگر خواص کے
حوالے سے منفرد بنا دیتا ہے ، سوات کی مخصوص فصلیں ملک کے دیگر علاقو ں میں
پیدا ہونے والی اسی قبیل کی فصلوں سے مختلف ہونے کی وجہ سے یہاں کے مقامی
لوگوں کے علاوہ سوات کی سیاحت کیلئے آنے والے افراد بھی شوق سے کھانے پر
مجبور ہوتے ہیں اور نہ صرف خود کھاتے ہیں بلکہ واپس جاتے ہوئے سوغات کے
طورپر اپنے ساتھ بھی لے کر جاتے ہیں ۔
آج ہم سوات کی مقامی پیداوار چاول میں منفرد ذائقہ کی حامل ”بیگمئی چاول “
کے حوالے سے اپنے پڑھنے والوںکو معلومات فراہم کریں گے جسے سوات کے رہائشی
مختلف طریقوں سے پکاتے ہیں اورجسے مقامی لوگوں کے علاوہ باہر سے آنے والے
سیاح حضرات بھی نہ صرف شوق سے کھاتے ہیں بلکہ سوات کی سوغات کے طورپراپنے
رشتہ داروںاور یار دوستوں کو تحفہ کے طورپر بھی بھیجتے ہیں ۔
سوات میں برسوں سے کاشت کئے جانے والے بیگمئی چاﺅ ل کے بارے میں جو ابتدائی
کہانی مشہور ہے وہ کچھ یوں ہے کہ اس کے تخم کو سوات کے علاقے باغ ڈھیرئی
میں مقیم آفندی خاندان کی بیگم بلقیس نے 1960میں افغانستان سے سوات آتے
ہوئے اپنے ساتھ لائی تھی اور سوات میں اس کی بوائی کا تجربہ کیا جو انتہائی
کامیاب رہا اور پھر صورت حال یوں ہوئی کہ سوات سمیت ملک کے مختلف پختون
علاقوں میں اس چاﺅ ل کو روزمرہ کے کھانے کے طور پر پکایا جا نے لگا خاص
طورپر دیہی علاقوں میں تو شام کے کھانے میں اس کے پکانے کا خصوصی اہتمام اب
بھی کیا جاتا ہے ۔ سوات اور ملاکنڈ ڈویژن کے مختلف اضلاع میں بیگمئی چاﺅل
کا تو کوئی ثانی ہی نہیں، آفندی خاندان کی بیگم بلقیس کے نام سے منسوب یہ
چاﺅل لذت اور ذائقے میں بے مثال ہوتاہے ۔اس چاول کا دانہ ساخت میں موٹا اور
لمبائی میں چھوٹا ہوتا ہے لیکن پک جانے کے بعد اس میں رس کا مقدار دیگر
اقسام کی چاولوں سے زیادہ ہوجاتا ہے ۔بیگمئی چاﺅل کو روایتی انداز میں کئی
طریقوں سے پکایا جاتا ہے ۔دیسی گھی ،دہی ،دودھ اور ترکاری ملاکر بیگمئی
چاﺅل یہاں کے لوگوں کی پسندیدہ اور مرغوب خوراک ہے اور اسی ڈش سے مہمانوں
کی تواضع بھی کی جاتی ہے۔رمضان المبارک کے مہینے میں اس چاﺅل کی طلب میں
غیر معمولی اضافہ ہوجاتا ہے اورسحری میں لوگ اس چاﺅل کو بالکل سادہ طریقے
سے پکاکر دودھ یا گوشت کے سالن کے ساتھ تناول کرتے ہیں ۔اس چاﺅل کی مشہوری
کا عالم یہ ہے کہ دیارغیر میں مقیم افراد کے لئے بیگمئی چاﺅل کو بطورتحفہ
بیرون ممالک میں بھی بھجوایا جاتا ہے۔آفندی خاندان کے خاندانی کسان قمر گل
کے مطابق انیس سو ساٹھ میں اس چاﺅل کا تخم بیگم صاحبہ اپنے ساتھ لائیں تو
اس کا تخم مقامی زمینداروں میں تقسیم کرکے اُگانے کے لئے طریقہ کار بھی بتا
دیا ۔اس چاﺅل کی پیداوار پہلے سال ہی بہت زیادہ ہوئی اور یوں یہاں کے
زمینداروں نے اسی چاﺅل کو کاشت کرنا اپنا ذریعہ معاش بنالیا ۔ فی الوقت نہ
صرف بیگمئی چاﺅل کی کاشت مقامی زمیندارپسند کرتے ہیں بلکہ اب یہ بیج ملک کے
دیگر علاقوں میں بھی سپلائی کیا جارہا ہے ۔انہوں نے بتایا کہ اب سوات میں
تمام تر زمیندار صرف ایک ہی چاﺅل کاشت کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اور وہ ہے
یہی بیگمئی چاﺅل کیونکہ اس کی پیداوار زیادہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی قیمت
بھی مارکیٹ میں بہت اچھی ملتی ہے اور یہ چاﺅل کاشت کاروں کیلئے نفع آور فصل
کی صورت ہر گزرتے دن کے ساتھ مقبول ہے۔
بیگم بلقیس کے فرزندبریگیڈ”ر“ اعظم خان آفندی نے بتایا کہ بیگمئی چاول کا
تخم ان کے والدین نے انیس سو ساٹھ میں رشیاسے منگوایا تھا،اس کانام بیگمئی
چاﺅل اس لئے ہے کہ یہ میری والدہ بیگم بلقیس کا لقب تھااور انہیں بیگم
صاحبہ کہا جاتا تھا اور جب انہوں نے یہ چاﺅل متعارف کرائے تو اس کے بعد سے
یہ چاﺅل ان سے منسوب ہوکر بیگمئی کے نام سے مشہور ہوئی ۔اعظم آفندی کے
مطابق ان کے والدین تقریباً10کلوگرام چاﺅل لے کر آئے تھے اور پھر اپنے
کھیتوں میںانہیں کاشت کیا جس کی کاشت انتہائی کامیاب رہی،انہوں نے مزید کہا
کہ بیگمئی چاﺅل کو کئی طریقوں سے پکایا جاسکتا ہے اور یہ بھی ہمارے ہی
خاندان کاخاصہ رہا ہے ۔
اب تحقیق کے حوالے سے تصویر کا دوسرا رُخ بھی اپنے پڑھنے والے قارئین کو
دکھاتے ہیں کیونکہ بیگمئی چاﺅل کی کاشت کے حوالے سے ادارہ زرعی تحقیقات
سوات کے شعبہ اجناس کے سربراہ ڈاکٹر نعیم احمد کا نقطہ نظر تھوڑا سا مختلف
ہے‘وہ کہتے ہیں کہ وادی سوات میں کاشت کے لحاظ سے کامیاب ”بیگمئی چاول“کی
قسم جسے زرعی تحقیق کے حوالے سے جے پی فائیو( JP-5) کا نام دیا گیا ہے اصل
میں1968میں ایک زرعی تحقیقی ادارہ ترناب کے ایک زرعی ماہر محمد حسن نے
منظور کیا تھا،چاول کے بین الاقوامی تحقیقی ادارہ ، فلپائن سے”IRRI“ کی
عالمی ٹمپریٹ آبزرویشنل نرسری ”IRTON“ کا ایک سیٹ خیبر پختونخوا کے سرد
علاقوں کے لئے 1965میں زرعی تحقیقی ادارہ ترناب نے حاصل کیا تھا اس وقت
JP-5 یا بیگمئی چاو ¿ل سات لائنوں کی سیٹ میں شامل تھی جن کے نام
بالترتیب-1 JP سے-7 JP تک تھی۔ ان میں سے-5 JPکو تجرباتی مراحل میں کامیابی
پر منتخب کیا گیا۔ مختلف اقسام کی علاقائی تجربات میں اسے زیادہ تر
پاراچنار میں ٹسٹ کروایا گیا،بیگمئی چاﺅل کو 1968میں حکومت سے اس ورائٹی کو
عام کاشت کے لیے-5 JP ہی کے نام سے باضابطہ طور پر منظور کروایا گیا،مختلف
کاشتکاروں کے درمیان اِڈاپٹیو پلانٹس میں اس قسم کی جانچ کی گئی جن میں ضلع
سوات میں” بیگم بلقیس آفندی“ کو بھی شامل کیا گیا تھا کیونکہ ضلع سوات میں
ان کی زمین سرد آب و ہوا کے لحاظ سے اس چاﺅل کی کاشت کیلئے نہایت موزوں
تھی۔JP-5 بیج ایک زرعی تحقیقی آفیسر مشتاق احمد نے اے آر آئی ترناب سے اور
بعد میں دل روش خان ”مرحوم“ رائس بریڈر نے ایگریکلچر ریسرچ سب سٹیشن
مینگورہ سے زمینداروں کو فراہم کیا جس کو اب زرعی تحقیقی ادارے کا درجہ دیا
گیا ہے۔ خوشے سے دانے الگ کرنے میں دشواری کی وجہ سے ، جے پی فائیو کی یہ
قسم ابتدائی مراحل میں کسانوں میں اتنی مقبولیت حاصل نہیں کر سکی لیکن بعد
میں جب ٹریکٹروں کے ساتھ چاو ¿ل کی تھریشینگ شروع ہوئی توبیگمئی چاﺅل کی اس
قسم نے نہ صرف ضلع سوات بلکہ ملاکنڈ ڈویژن کے دیگر اضلاع میں بھی بہت
مقبولیت حاصل کی۔اچھے پکنے کے معیار ، بہترین ذائقے اور اچھی پیداوار کی
وجہ سے بیگمئی چاﺅل سوات کے علاقے کی ایک سوغات بن گئی۔بیگم بلقیس آفندی کے
کردار کے حوالے سے ڈاکٹر نعیم احمد نے واضح کیا کہ وہ باغ ڈھیرئی کی ایک
ترقی پسند چاول کی کاشت کار تھی ، انہوں نے-5 JP کی کاشت جاری رکھی تھی اور
کسانوں نے بیگم صاحبہ کے کھیتوں کے ساتھ ساتھ دیگر چاول کے کاشتکاروں سے یہ
جے پی فائیو کی تخم زرعی تحقیقی سب سٹیشن سوات کے قیام سے قبل حاصل کرنا
شروع کیا چونکہ زیادہ تخم بیگم صاحبہ کی زمین سے زمینداروں کو ملتا تھا
اسلئے کسانوں نے اسے مقامی طور پر”بیگمئی“کا نام دیا۔ جے پی فائیو یا
بیگمئی کے دیگر چاو ¿ل کے کاشتکاروں میں سوات کی تحصیل مٹہ کے افضل خان
لالا ، تندوڈاگ کے سید محمود شاہ لالا ، منگلور کے کشور خان”مشیر صیب“ اور
بریکوٹ کے ولی محمد خان نمایاں کاشتکار تھے۔ ڈاکٹر نعیم احمد انچارج شعبہ
غلہ دار اجناس نے یہ بھی بتایا کہ ضلع سوات میں چاول کا رقبہ 12500 ایکڑ ہے
اس کے علاوہ سوات کے چاﺅل کی دیگر اقسام میں”فخر مالاکنڈ“ اور”سواتئی 2014“
کے ناموں کے ساتھ دیگر اقسام بھی سیڈ کونسل سے منظورکی گئی ہیں اس کے علاوہ
حال ہی میں چاول کی ایک نئی قسم کو بھی شعبہ غلہ دار اجناس کے ٹیم کے
انچارج ڈاکٹر نعیم احمد نے بطور پرنسپل بریڈر منظور کروایا ہے جس میں موٹے
چاولوں میں پہلی مرتبہ خوشبو منتقل کی گئی ہے جس کا نام”لونگئی2 “رکھا گیا
ہے۔
تاریخی و تحقیقی حوالوں سے بات کچھ بھی ہو لیکن ”بیگمئی چاﺅل“ سوات کی غلہ
دار اجناس میں منفرد خصوصیات کی حامل چاﺅل تسلیم کی جاتی ہے کیونکہ یہ صرف
غذائی طورپر چاﺅل کی حیثیت سے نہیں پہچانی جاتی بلکہ بیگمئی چاﺅل کو پن
چکیوں اور مشینوں کے ذریعے پیس کر اس سے آٹا بھی بنایا جاتا ہے جسے مقامی
زبان میں ”دہ وڑووڑہ“یعنی چاﺅل کا آٹا کہتے ہیں ،مقامی طور پر اس آٹاکو
خالص گھی میں گوندھ کر اس سے روٹیاں پکائی جاتی ہیں،یہ روٹیاں نہ صرف ذائقہ
دار اور لذیذ ہوتی ہیں بلکہ انہیں گندم اور مکئی کی روٹیوں کے مقابلے میں
شوق سے کھایا جاتا ہے ۔سوات کے لوگوں کی روایت رہی ہے کہ چاﺅل کی روٹیاں
خاص مہمانوں کے لئے پکا کر چائے کے ساتھ پیش کی جاتی ہے ۔بیگمئی چاﺅل کو
کئی قسم کے ساگ کے ساتھ ملاکر مخصوص انداز سے پکایا جاتا ہے جسے مقامی زبان
میں ”ورژلے“یا ”چوکانڑ“ کہاجاتا ہے۔یہ سوات کا مخصوص اورروایتی پکوان ہے
۔اس کے لئے مختلف اقسام کی ساگ اکٹھی کرکے درانتی یا چھری سے چھوٹے چھوٹے
ٹکڑوں میں کاٹ کر بیگمئی چاﺅل میںایک ساتھ پکایاجاتا ہے جس سے اس کی رنگت
سبز ہوجاتی ہے اس میں لہسن کے سبز پتے خصوصی طور پر ڈالے جاتے ہیں اور پھر
اس کو دیسی گھی اور دودھ کی بالائی کے ساتھ کھایا جاتا ہے جس کا الگ ہی مزہ
ہوتا ۔سوات میں بزرگوں کے وقت سے چاﺅل کھانے کیلئے عموماً لکڑی سے بنا
مخصوص پلیٹ کی طرز کا بڑابرتن استعمال ہوتا ہے جسے ”خانک“ کہتے ہیں اورلوگ
اس میں یہی چاﺅل ڈال کر درمیان میں دیسی گھی کا بڑا کٹورا رکھ کر گھر والے
یا مہمان سب اکھٹے اس میں سے مزے مزے لے کر چاﺅل تناﺅل کرتے ہیں ۔
چاﺅل کی تجارت کرنے والے تاجر بھی اس حوالے سے کہتے ہیں کہ سوات میںبیگمئی
چاﺅل کی ڈیمانڈ اور طلب دوسرے چاﺅلوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے اور خاص
کر رمضان کے مہینے میں اس چاﺅل کی مانگ کئی گنا بڑھ جاتی ہے تاہم مارکیٹ
میں نئی اقسام متعارف کرائے جانے کے باعث جسے چائنا کی بیگمئی چاول کہا
جاتا ہے قیمت میں سستی ہونے کی وجہ سے اصل بیگمئی چاﺅل کو لوگ چھوڑنے کی
طرف جارہے ہیں ،اس وقت بیگمئی کی پرانی قسم کی چاﺅل فی کلوایک سوبیس روپے
میں دستیاب ہے جبکہ نئی اقسام فخر ملاکنڈ اورسواتئی کی قیمت اسی سے نوے
روپے فی کلو ہے ،بات کچھ بھی ہو لیکن چاﺅل کھانے کے شوقین افراد اگر ایک
دفعہ بیگمئی چاﺅل مقامی لوگوں کے تیار کردہ طریقے سے پکائے گئے کھالیں تو
اس کا ذائقہ اور مزہ ان کو مدتوں یاد رہے گا اور جب بھی وہ سوات کی سیر کو
آئیں گے اور کسی کے گھر میں مہمان بنیں گے تو بیگمئی چاﺅل ہی کھانے کو
ترجیح دیں گے البتہ سیاح قارئین اگر ان چاﺅلوں سے لطف اندوز ہونا چاہیں تو
ان کو یا تو اس کیلئے سوا ت کے کسی مقامی رشتہ دار کے گھر میں مہمان بننا
ہوگا اور یا ہوٹل میں قیام کی صورت پکانے والے سے خصوصی ڈیمانڈ کرکے پکانے
کا اہتمام کرنا پڑے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔
|