ارشادِ ربانی ہے:’’مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ سب ایک
دوسرے کے رفیق ہیں‘‘۔ اس رفاقت کا اولین تقاضہ یہ ہے کہ وہ :’’ بھلائی کا
حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں‘‘۔ یعنی یہ دوستی محض مل جل کر کھانے پینے
اور ہنسی مذاق کرنے کی خاطر نہیں ہے بلکہ اس کی بنیاد ایک دوسرے کو نیکی کی
ترغیب دے کر برائیوں سے روکنے پر ہے۔ بنیادی عبادات سے قبل امر بالمعروف
اور نہی عن المنکر کی جانب توجہ مبذول کروانا اس کی اہمیت کا منہ بولتا
ثبوت ہے۔ اس کے بعد ارشاد قرآنی ہےکہ وہ یعنی اہل ایمان : ’’ نماز قائم
کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں‘‘۔ لیکن ان کا یہ معاملہ صرف مراسمِ عبودیت تک
محدود نہیں رہتا بلکہ زندگی کے تمام معاملات میں وہ :’’ اللہ اور اس کے
رسول کی اطاعت کرتے ہیں‘‘۔ یہ اطاعت و فرمانبرداری اس لیے اہم ہے کیونکہ
جنوں اور انسانوں کا یہی مقصدِ تخلیق ہے۔ اسلام میں پورے پورے داخل ہونے کا
بھی یہی تقاضہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں بلا شرکتِ غیرے رب کائنات کی غیر
مشروط اطاعت کی جائے۔ اس طرز عمل پر اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب یہ بشارت
دی گئی ہے کہ :’’ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت نازل ہو کر رہے گی،
یقیناً اللہ سب پر غالب اور حکیم و دانا ہے‘‘۔
مندرجہ بالا آیات قرآنی کے اندر جس مومنانہ خیر خواہی کا ذکر کیا گیا ہے
اس کے حصول کی خاطر لازم ہے کہ ہم اپنے بھائی کیلئے ہر وہ چیز پسند کریں جو
اپنے لئے پسند کرتے ہیں ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص (کامل)
ایمان والا نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ وہ اپنے بھائی کیلئے بھی وہی چیز پسند
کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔‘‘ اہل ایمان کی’ اپنی اصلاح آپ ‘کے لیے یہ
کافی ہے کہ ہم دوسروں سے متعلق کوئی رویہ اختیار کرنے سے قبل یہ سوچیں کہ
یہی معاملہ اگر خود اس کے ساتھ ہو تو کیا وہ اسے پسند کرے گا؟ یہ خود
احتسابی ہمیں ازخود اپنے آپ کو دوسروں کی دلآزاری سے روک کر محتسب کی
ضرورت سے بے نیاز کردے گی ۔ خیر خواہی کی بابت ایک روایت میں مومن کے
مندرجہ ذیل ۶؍ حقوق بیان کیے گئے ہیں :’’وہ (مومن ) حاضر ہو یا غائب اس کی
خیر خواہی کرے ۔ یعنی حاضر ہے تو اس کی جھوٹی تعریف ،چاپلوسی اور منافقت نہ
کرے ، غلط مشورہ نہ دے اور نہ ہی دھوکا دے لیکن اگر غائب ہے تو اس کی غیبت
نہ کرے ، چغلی نہ کرے ، بد خواہی نہ کرے ، غرض ہر حال میں بھلائی کے لیے
فکرمندرہے ‘‘
مومنین کے ساتھ خیر خواہی کے لیے ایک دوسرے کے تئیں محبت و اخوت کا جذبہ
ناگزیرہے۔ اس کی ترغیب دیتے ہوئے نبیٔ کریم ﷺ نے فرمایا: تم جنت میں نہیں
جاؤ گے ، یہاں تک کہ ایمان لاؤ اور تم مومن نہیں ہو گے یہاں تک کہ ایک
دوسرے سے محبت کرو، کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتلاؤں کہ جب تم اسے اختیار
کرو گے تو آپس میں محبت کرنے لگو گے؟؟ (وہ یہ ہے کہ ) تم آپس میں سلام کو
پھیلاؤ اور عام کرو۔ ‘‘ اس حدیث میں جذبۂ محبت کو بڑھانے کی سبیل بھی
بتائی گئی ہے۔ یہ کام صرف زبانی جمع خرچ سے نہیں ہوگا بلکہ ایک اور حدیث
میں یہ عملی اقدامات بھی بتائے گئے ہیں :’’ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا
بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرے اور نہ کسی مصیبت میں اس کا ساتھ چھوڑے‘‘۔ یہ
آسان نہیں ہے کہ انسان موقع ملنے پر اپنے آپ ظلم کرنے سے باز رکھے کیونکہ
شیطان اس کے لیے خوب اکساتا ہے اور جب کوئی مومن بندہ کسی اور ذریعہ مصیبت
میں گرفتار ہوجائے تو ڈراتا ہے اگر تم نے اس کا ساتھ دیا تو وہ مصیبت تم کو
بھی اپنے نرغے میں لے لے گی ۔ ان خطرات کے باوجود جو لوگ ہمت کرکے اپنے
مظلوم بھائی کی نصرت و حمایت کے لیے آگے آتے ہیں ان کو یہ بشارت دی گئی
ہے کہ :’’ اور جو شخص اپنے بھائی کی حاجت روائی میں لگا رہتا ہے اللہ تعالیٰ
اس کی حاجتیں پوری کرتا رہتا ہے اور جو شخص کسی مسلمان سے سختی دور کرتا ہے
اللہ تعالیٰ قیامت کی سختیوں میں سے اس کی سختی دور کرے گا اور جو شخص کسی
مسلمان کی پردہ پوشی کرے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی کرے گا
۔‘‘۔ اپنے بندوں کے لیے رب کائنات کی رحمتیں اور برکتیں تو بے حدو حساب ہیں
۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم ان تقاضوں کو پورا کرکے اپنے آپ کو کس کس کا
مستحق بناتے ہیں ؟
|