یاد کسی اپنے کی

میں جب ماحول میں تیری کمی محسوس کرتا ہوں
تھکی آنکھوں کے پردے میں نمی محسوس کرتا ہوں

خیالات اور الفاظ جتنے بھی حسین با معنی اور احترام سے بھرے ہوئے ہوں والد محترم کی جدائی کا غم قلم کی گرفت میں نہیں آسکتا اور دل کی وضاحت میرے لیے ناممکن ہوتی جاتی ہے دل میں ایک غبار اٹھتا ہے اس غبار کو کاغذ پر منتقل کرنے کی کوشش کرتا ہوں مگر دل کے طوفان کی لہر کاغذ پر کہاں آتی ہے وہ سمندر کے بہاؤ کی طرح کبھی سر سے گزرتی ہے کبھی چٹانوں سے ٹکرا کر واپس آتی ہے اگر حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے زندگی چیزوں اور سہولتوں کا نام نہیں بلکہ زندگی احساسات جذبات اور الجھنوں کا نام ہے اگرچہ زندگی بہت کچھ پا کر کھونے کا نام ہے مگر کبھی کبھی جذبات والد کی جدائی پر آنکھوں کو پانی پانی کر دیتے ہیں۔۔۔۔۔

موت ایک اٹل حقیقت ہے اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا جب والد محترم کی جدائی کی گھڑی کا تصور ذہن میں آتا ہے تو آنکھوں کے سامنے اندھیرا ہی اندھیرا آجاتا ہے میری بے بسی اس لمحے عروج پر تھی اور کچھ ہوش نہیں تھا میرے کانوں نے جب پہلی بار "انا للہ وانا الیہ راجعون "کی آواز سنی اور میں نے والد محترم کا چہرہ دیکھا اتنا اطمینان ‘سکون اتنی معصومیت ان کے چہرے پر تھی جیسے کوئی بچہ سکون کی نیند سو رہا ہو

بہت کوشش کرتا ہوں اور اپنے آپ سے وعدہ بھی کرتا ہوں کہ آئندہ والد محترم کی جدائی پر نہیں لکھوں گا لوگوں سے اپنی ہمدردی کی بھیک نہیں مانگوں گا
لیکن۔۔۔۔۔۔
جب اپنے معصوم بہن بھائیوں کی طرف دیکھتا ہوں اور والدہ کا چہرہ سامنے آتا ہے دل غم کے بوجھ کو برداشت نہیں کر پاتا اور کچھ کہے بغیر روتی آنکھوں کے ساتھ کچھ لکھ دیتا ہوں

یتیمی ساتھ لاتی ہے زمانے بھر کے دکھ عابی
سنا ہے باپ زندہ ہو تو کانٹے بھی نہیں چبھتے

بہت خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کے والدین زندہ ہیں ورنہ ان کی وفات کے بعد یاد رکھیں اور لکھ کر اپنے پاس محفوظ کر لیں لوگ باتیں تو بہت کرتے ہیں لیکن سہارا نہیں دیتے.....
اور اگر آپ گھر کے بڑے ہیں تو گھر کی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ اگرچہ آپ اندر سے کتنے ہی ٹوٹے کیوں نہ ہوں اپنے بہن بھائیوں کو حوصلے اور دلاسے کی تھپکی دینا پڑتی ہے گھر والوں کے سامنے ہمیشہ خوش رہنے کا ناٹک کرنا پڑتا ہے الغرض زندگی تو گزارتا ہے انسان مگر اس میں زندگی نہیں ہوتی.......

بے نور سی لگتی ہے اس سے بچھڑ کے یہ زندگی
احسان اب چراغ تو جلتے ہیں مگر اجالا نہیں کرتے

اس وقت میں اپنے آپ کو تنہا اور اداس محسوس کرتا ہوں مگر میں زندگی میں ذاتی طور پر آج جو کچھ ہوں جو عزت کمائی شہرت ملی اس میں اللہ تعالی کے فضل و کرم کے بعد میرے والدین کی محنت اور دعاؤں کا نتیجہ ہے میرا سر فخر سے بلند ہوتا ہے جب لوگ شاندار الفاظ میں میرے والد کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں میرا یوتھ کو پیغام ہے کہ اپنے والدین کی عزت کریں ان کے لئے اپنے دلوں کو نرم کریں اور ان کی خدمت کر کے ان سے دعائیں لیں دعائیں کروانے اور دعائیں لینے میں بڑا فرق ہے آپ دعائیں کروائیں نہیں بلکہ ان سے دعائیں لینے کی کوشش کریں اللہ تعالی ہمارا حامی و ناصر ہو...آمین
 

Muhammad Abdullah Ahsan
About the Author: Muhammad Abdullah Ahsan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.