چین زرعی وسائل کے اعتبار سے ایک مالا مال ملک ہے جہاں جدت کی بدولت زرعی
اجناس کی پیداوار میں خودکفالت کی منزل حاصل کر لی گئی ۔زرعی جدت کاری کے
عمل میں چین کی اعلیٰ قیادت کا کردار انتہائی نمایاں ہے۔صدر شی جن پھنگ خود
زراعت میں گہری دلچسپی لیتے ہیں اور ملک کے مختلف حصوں کے دوروں کے دوران
اُن کی جانب سے فصلوں کی پیداوار ، جدید زرعی مشینری ،کاشتکاروں کی خوشحالی
اور دیہی حیات کاری جیسے موضوعات پر ہدایات جاری کی جاتی ہیں۔ملک کے اعلیٰ
ترین رہنماء کی زراعت میں ذاتی دلچسپی سے جہاں شعبہ زراعت کی دلچسپی بڑھتی
ہے وہاں ملک میں زرعی سائنسدانوں اور کسانوں کی بھی حوصلہ افزائی ہوتی ہے
کہ وہ اپنی اختراعی صلاحیتوں کا کھل کر اظہار کریں اور اس شعبے کو ترقی
دیں۔
ابھی حال ہی میں چینی صدر شی جن پھنگ نے صوبہ ہائی نان کے شہر سانیا میں یا
چووان سیڈ لیبارٹری کا دورہ کیا۔اس موقع پر چینی صدر کو ہائی نان میں بیج
کی صنعت میں جدت و اختراع سے متعلق معلومات سے آگاہ کیا گیا۔یہاں چینی صدر
کی باتوں سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ زراعت کی ترقی اُن کے لیے کس
قدر اہم ہے۔ شی جن پھنگ نے یا چو وان سیڈ لیبارٹری کے دورے کے موقع پر کہا
کہ بیج ، چین میں خوراک کے تحفظ کی کلید ہے ۔بیج کی ٹیکنالوجی کو اپنے ہاتھ
میں مضبوطی سے سنبھالنا چاہیے تاکہ خوراک کے تحفظ کا حصول ممکن ہو ۔انہوں
نے کہا کہ ہمیں "سیڈ ٹیکنالوجی" پر اپنی گرفت مضبوط رکھنی چاہیے اور بیج سے
متعلق سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی میں خود پر انحصار کرنا چاہیئے ۔صوبہ ہائی
نان ، چین میں زرعی بیجوں کی افزائش کا اہم مرکز ہے جہاں نئی اقسام کے ستر
فیصد بیجوں کی افزائش ہوتی ہے۔یا چو وان سیڈلیبارٹری کا قیام مئی دو ہزار
اکیس میں عمل میں آیا تھا۔ یہاں چینی صدر نے واضح کر دیا کہ ملک میں غذائی
تحفظ صرف اُسی صورت میں ممکن ہے جب بیج کے وسائل مضبوطی سے ہمارے اپنے ہاتھ
میں ہوں گے۔تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ اس عمل میں کچھ وقت لگے گا۔انہوں نے
ایک چینی کہاوت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تلوار کو تیز کرنے میں 10 سال
لگتے ہیں۔زرعی امور کی تزویراتی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے، شی نے پرانی
نسلوں کے سائنسدانوں اور محققین کے جذبے کو آگے بڑھانے پر زور دیا، جن میں
آنجہانی یوآن لونگ پنگ (1930-2021) بھی شامل ہیں، جنہیں 1970 کی دہائی میں
چاول کی پہلی ہائبرڈ اقسام تیار کرنے کا موجد سمجھا جاتا ہے۔اس پیش رفت نے
دنیا میں لاکھوں افراد کو بھوک سے بچانے میں مدد فراہم کی۔
رواں سال چینی حکام کی جاری کردہ "اولین مرکزی دستاویز" میں بھی ملک میں
بیج کی صنعت کی ترقی کو اپنی پالیسی ترجیحات میں سے ایک کے طور پر بیان کیا
گیا ہے، جس میں مخصوص اقدامات جیسے سیڈ ایکشن پلان پر عمل درآمد ، سیڈ
انڈسٹری کی ترقی اور اس شعبے کا املاکی دانشورانہ تحفظ شامل ہیں۔
یہ بات قابل زکر ہے کہ جدید زرعی اصولوں کی بدولت آج چین خوراک میں خودکفیل
ہو چکا ہے جبکہ زرعی مصنوعات کی درآمدات و برآمدات کے حوالے سے بھی دنیا کے
بڑے ترین ممالک میں شامل ہے۔گزشتہ برس چین میں اناج کی پیداوار ریکارڈ 683
ارب کلو گرام رہی ہے جبکہ ملک میں اناج کی پیداوار مسلسل کئی سالوں سے 650
ارب کلو گرام سے متجاوز چلی آ رہی ہے۔ آج چین میں قابل کاشت رقبہ 0.7 فیصد
اضافے سے 117 ملین ہیکٹر تک پہنچ چکا ہے۔گزشتہ چار دہائیوں میں زراعت چین
کی اقتصادی ترقی اور غربت کے خاتمے کی اہم قوت رہی ہے۔زراعت میں سرمایہ
کاری کی بدولت پیداوار میں اضافہ ہوا جس سے زرعی تجارت کو فروغ ملا اور ملک
بھر میں "ایگری۔فوڈ انڈسٹری" کی مضبوطی اور کاروباری مواقعوں کو بھرپور
وسعت ملی۔اس ضمن میں چین جدت کے تحت اعلیٰ معیار کی زرعی ترقی کے نظریے پر
عمل پیرا ہے۔ دیہی علاقوں میں ای کامرس کی ترقی کی بدولت کسانوں کو اپنی
مصنوعات آن لائن فروخت کرنے کے مواقع ملے ہیں اور اشیاء کی ترسیل میں بھی
آسانیاں پیدا ہوئی ہیں۔ اس طرح شہری۔دیہی ڈیجیٹل خلا کو نمایاں حد تک کم
کیا گیا ہے۔ای کامرس نے دیہی علاقوں میں انسداد غربت کی کوششوں کو آگے
بڑھانے میں نمایاں مدد فراہم کی ہے جبکہ دیہی باشندوں میں شعور اجاگر کرنے
اور کاروباری اداروں کی حوصلہ افزائی میں بھی معاونت ملی ہے۔
|