’بانجھ‘ یہ لفظ ایسا ہی ڈراؤنا،خطرناک،دکھی،مایوس اورخوف
و حراس پھیلا دیتا ہے جیسا کہ کسی دور میں نمونیا،ملیریا،ٹی بی،کینسر
پھیلاتا تھا۔ اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ سائینسی دریافت اور میڈیسن کے شعبے
نے ترقی کی اور آج بھی یہ بیماریاں اسی طرح سے ہیں لیکن جن کو علاج کا پتا
ہے اور وقت پر تشخیص کے بعد مکمل علاج کروالیتے ہیں،صحت مند زندگی گزار رہے
ہوتے ہیں لیکن وہ لوگ جو جہالت، وسوسوں، ٹوٹکوں، عاملوں کے چکروں میں پڑے
ہوتے ہیں ان کے لئے اب بھی یہ خطر ناک بیماریاں ہیں اور واقعی میں ان کی
جان جانے کا باعث بنتی ہیں۔بلکل اسی طرح بانجھ پن infertilityہے یعنی ایسی
بیماری جو بے اولادی یا بچے پیدا ہونے میں مشکلات کا باعث بنتی ہے۔ہمارے
معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ اس کے علاج پر توجہ دینے کی بجائے اسے چھپانے میں
لگے رہتے ہیں،شادی کے چند ماہ بعد لڑکی کو اولاد نہ ہونے کے طعنے سننے پڑتے
ہیں۔اس کی زندگی جیسے تلوار کی نوک پر آجاتی ہے، جب کوئی پوچھتا ہے۔۔ کیا
خوشخبری ہے ؟۔۔۔خوشخبری کب سناؤ گی؟۔۔کچھ ہے؟۔۔۔کا کا کب آئے گا؟۔۔۔گویا یہ
سوال پوچھ کر اس کے زخموں پر کسی نے نمک نہیں مرچیں چھڑک دی ہوں حالنکہ یہ
سوال ایسے معیوب نہیں لیکن کچھ لوگوں کے لہجے ایسے چبھتے ہوئے اور غیر
معمولی انداز تکلیف کا باعث بنتا ہے اور خود وہ عورت جو شادی کے بعد اولاد
نہ ہونے پر نامکمل اور کچھ کھو دینے کے احساس میں مبتلا ہوتی ہے اور وہ
خواہش جو اس کی اولین خواہش ہوتی ہے بلکہ زندگی کی سانس کی طرح ہوتی ہے جب
لوگوں کے منہ سے سوال بن کر آتی ہے تو اس کو اپنا وجود بے جان،سوکھے پیڑ کی
طرح محسوس ہوتا ہے،اپنا آپ بے قصور ہوکر قصور وار لگتا ہے۔آنسو جو ہر پل دل
میں گر کر اس کی سرحدوں کو کمزور کر رہے ہوتے ہیں آنکھوں کے کناروں تک
آجاتے ہیں جسے وہ اپنے آنچل کے پلو کی نظر کرتے ہوئے مسکرا کر کہتی ہے ’دعا
کریں‘۔اور کچھ سوال پوچھنے والے اپنے بچوں کو گود میں یوں اٹھا کر شکر ادا
کرتے ہیں کہ ان کا یہ شکر بھی جیسے کہہ رہا ہو ’نظر نہ لگا دینا میری مامتا
کو‘ جبکہ میں جانتی ہوں کہ وہ خواتین جو ماں نہیں بنی ہیں بچوں کو دیکھ کر
پہلا لفظ ’ماشااللہ کہتی ہیں کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ یہ کتنا قیمتی موتی
اور خزانہ ہے۔اس کی قدر ان سے زیادہ اور کون جانتا ہوگا۔میں نے دیکھا ہے جو
عورتیں شادی کے کئی سال بعد تک بھی ماں نہیں بنی ہوتیں ان کی آنکھوں میں ہر
بچے کے لئے مامتا ہوتی ہے۔ان کی سونی گود ہر بچے کو پکارتی ہے۔بچوں کی
للکاریا ں ہر وقت ان کے کانوں میں گونجتی ہیں۔خوابوں میں بھی ننھے وجود کو
ڈھونڈھتی رہتی ہیں اور جاگتے ہوئے بھی مامتا لوری گاتی رہتی ہے۔ماں بننے کی
یہ خواہش اس کی زندگی کا روگ بن جاتی ہے۔دن رات ایک ہی خواہش اسے جائے نماز
سے جانے کب پیروں فقیروں،درباروں اور یہانتک کہ جعلی عاملوں کے شیطانی
دروازوں تک لے جاتی ہے۔نہ تو ان بے اولاد جوڑوں کی سمجھ آتی ہے کہ وہ اس
بیماری کے علاج کے لئے ڈاکٹروں کے پاس جانے کی بجائے اس عامل اور شیطانی
چرخوں میں کیوں آئے اور نہ ہی اس معاشرے کے لوگوں کی سمجھ آتی ہے جو اتنے
ایڈوانس دور میں رہتے ہوئے جبکہ ان کے کچن سے لے کر ان کے ٹی وی لاؤنج تک
اور ان کے ہاتھ میں موجود موبائل تک ہر چیز سائنس کے ذریعے ان تک پہنچی پھر
وہ بانجھ پن کے علاج پر اتنے حیران اور بدگمان کیوں؟ کیوں کہ وہ خود تو
اولاد جیسی نعمت پا چکے ہیں۔۔۔۔تو پھر یہ نعمت ان تک بھی پہنچنے دیں جن کے
پاس نہیں ہے۔بہت ہی افسوس ہے کہinfertility کا علاج کئی دہایوں سے دنیا میں
آچکا ہے لیکن ابھی تک ہمارے وطن عزیز میں بہت سے لوگ ناواقف ہیں اور اپنی
اس بیماری کا علاج کرانے پر شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔اور زیادہ تر مرد اپنی
انا اور توہین سمجھتے ہیں۔تقریبا ملک میں 30 فیصد لوگ primary and
secondary infertilityکا شکار ہیں اور دن بدن خوراک اورغیر فطری طرزِ زندگی
کی وجہ سے اضافہ ہورہا ہے اور آنے والے وقت میں اور بھی خطرناک صورتِ حال
ہوسکتی ہے۔ اور ہمارے ملک کا یہ حال ہے کی بجائے آگاہی پروگرام چلانے کے
اور اس بیماری کا سدِباب کرنے کے لوگ اس ٹاپک پر بات کرنا شرم محسوس کرتے
ہیں اور صد افسوس کے لوگ وقت پر کسی infertility centre پر پہنچ کر اولاد
کا تحفہ حاصل کرنے کی بجائے گلی محلے کی دایوں اور گندے عاملوں کے پاس جاکر
اپنا قیمتی وقت اور پیسہ برباد کردیتے ہیں جبکہ ڈاکٹر کا مشورہ اور علاج ان
کو اس اذیت سے نکال سکتا ہے۔اب بھی میرا مشورہ ہے اگر آپ کی اولا د نہیں ہے
یا آپ کے کسی عزیز کی اولاد نہیں تو ان کو
infertility centre جانے کا کہیں۔بعض اوقات چھوٹا سا مسئلہ ہوتا ہے جو
بروقت نہ پہنچنے پر بڑا بن جاتا ہے۔سائینس بہت ترقی کر چکی ہے جس طرح دل کے
علاج کے لئے cardiac centreاور گردوں کے علاج کے لئےkidney centre ہوتے ہیں
اور ضروری نہیں کہ ہر کارڈیک سنٹر میں صرف دل کے آپریشن ہورہے ہوں بلکہ وقت
سے پہلے کارڈیک سنٹر پہنچنے والے دل کے مریض اٹیک سے بچ جاتے ہیں بلکل اسی
طرح ایسے شادی شدہ جوڑے جو بے اولاد ہیں اور ان کی شادی کو چھ ماہ سے ذیادہ
عرصہ گزر گیا ہے یا ایسے جن کا ایک بچہّ ہے اور کافی عرصے سے دوسرا نہیں
ہوسکا وہ ضرور اپنا علاج کروائیں اور اس بات پر یقین رکھیں کہ اللہ نے ایسی
کوئی بیماری نہیں اتاری جس کا پہلے علاج نہ اتارا ہو۔لوگ کیا کہیں گے،کیا
سوچیں گے۔اس کو سوچنا چھوڑ دیں۔اور یہ جو خرافات ہیں کہ بچہّ پتا نہیں کس
کا ہوگا۔یہ سب بکواس ہے۔آج کے دور میں جب کے ایک ڈی۔این۔اے کے ٹیسٹ سے نہ
صرف والدین بلکہ اباؤ اجداد کا بھی پتا چل جاتا ہے پتا نہیں اتنی جہالت کی
باتیں کہاں سے آتی ہیں۔آخر میں یہی کہوں گی کہ یہ دکھ تمہارا ہے خوشی بھی
تم تلاش کروگے۔یہ زخم تمہارا ہے اس کو مکھیوں کے لئے کھلا چھوڑو یا اس کا
علاج کرواؤ۔آنسوؤں سے مقدر نہیں بدلتے ارادوں سے بدلتے ہیں۔یقین خدا پر ہے
تو اس کے علم سے مستفید ہونا ہر ایک کا حق ہے۔ناامیدی کفر ہے اور علاج امید
۔یاد رکھئے بانجھ پن قابلِ علاج ہے۔
|