حل نکالنا ضروری ہے

بھارت کے مختلف مقامات پر مسلمانوں کی کئی تنظیمیں قائم ہیں،ان تنظیموں کاجائزہ لیاجائے تو ایک ہی بات کہی جاتی ہے کہ ہم سب مل کرکام کرینگے۔سب کے ایجنڈے میں یہی لکھا ہوتاہے کہ ہم تمام مل کر کام کررہے ہیں اس میں کوئی تعصب نہیں،کوئی مسلک نہیں ،کوئی مکتب فکرکی بندش نہیں۔جب سب کا مقصد یہی ہے تو کیونکر سب علیحدہ علیحدہ کام کررہے ہیں؟۔مسلمانوں میں اس وقت آپسی رنجشیں،گروہ بازی،مسلکی اختلافات اور مکتبوں کے اعتراضات اس قدر گہرے ہوتے جارہے ہیں کہ اب دوسری قومیں بھی مسلمانوں کو دیکھ کر ہنسنے لگی ہیں۔پہلے مسلمانوں میں سُنی شیعہ دو گروہ تھے، اب تو مدرسوں کی بنیاد پر بھی گروہ بندی شروع ہوگئی ہے۔ندوی،قاسمی،جامعی،رضوی،مدنی،عمری، نقشبندی،مصباحی اور نہ جانے ایسے کتنے گروہ ہوچکے ہیں کہ ایک کو دیکھ کر دوسرا چپ نہیں رہ سکتا۔کچھ عرصے پہلے تک اس طرح کی گروہ بندی اور اختلافات غیر مسلموں میں دیکھے جاتے تھے،غیر مسلموں کے اختلافات کی وجہ سے اُن پر مسلمان آسانی کے ساتھ اپنا اثر چھوڑ سکتے تھے،لیکن اب حالات بدل چکے ہیں اور ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا دشمن ہوتاجارہاہے،یہی وجہ ہےکہ اس وقت بھارت میں مسلمانوں کی حالت بد سے بدتر ہوگئی ہے۔جب ہر دن صبح آنکھ کھلتی ہے تو ایک نیا مسئلہ آنکھوں کے سامنے کھڑا ہوتاہے،ان مسئلوں کوحل کرنے کی بات تو دور ان مسائل پر بات کرنے کیلئے بھی مشکلات کا سامنا کرناپڑرہاہے۔حجاب کا معاملہ ہی لے لیجئے کہ خود مسلمانوں کے مابین مختلف اعتراضات ہیں،ایک طرف مسلمانوں کی قدآور تنظیم مسلم پرسنل لاء بورڈ یہ کہتی ہے کہ مسلمان حجاب کے معاملے کو لیکر سڑکوں پر نہ جائیں،قانون کی پاسداری کریں،اپنا مستقبل سنواریں اور مسلم پرسنل لاء بورڈ سے جڑے ہوئے افراد حجاب کے تعلق سے کسی بھی طرح کی بیان بازی نہ کریں،حجاب کے سلسلے میں احتجاجات کرنے اور احتجاجیوں کی تائید کرنے سے گریز کریں۔وہیں دوسری جانب مسلمانوں کے ہی قدآور علماء میں شمارہونے والے مولاناسجادنعمانی اپنی تقریرمیں کہتے ہیںکہ ہر حال میں حجاب کے استعمال پر قائم رہیں،کسی بھی وجہ سے حجاب کو نہ چھوڑیں،اگر حجاب کو چھوڑنےکا معاملہ آتاہے تو اسکول وکالج ہی چھوڑ دیں،امتحانات کا بائیکاٹ کریں۔اسی طرح سے کرناٹک کے امیر شریعت کی جانب سے کرناٹک بند کا اعلان ہوتاہے،کرناٹکا ہائی کورٹ کے فیصلے کی مخالفت ہوتی ہے اور مسلمانوں کو بندمیں متحد ہوکر ساتھ دینے کیلئے بلایاجاتاہے اور آخرمیں یہ کہاجاتاہے کہ مسلم طالبات کا مستقبل اہم ہے،اگر گنجائش ہے تو کم ازکم دوپٹہ اوڑھ کرکیوں نہ ہو امتحان دیں۔ایک گروہ ایسابھی ہے جن کا کہناہے کہ حجاب ضروری ہے تعلیم نہیں،اللہ اور اس کے رسول ﷺنے عصری تعلیم کوفرض قرارنہیں دیاہے،بلکہ دینی تعلیم کو فرض قرار دیاگیاہے،اس لئے پردے کے بغیر تعلیم حاصل نہ کریں،اس سے اچھاہے کہ گھروں میں بیٹھ جائیں۔محاورہ ہے کہ جتنے منہ اُتنی باتیں،ایسے ہی جتنے علماء کے گروہ ہیں،اُسی طرح کے بیانات سامنے آرہے ہیں،جس سے اُمت مسلمہ ا س بات سے کنفیوژن ہے یعنی الجھن کا شکارہے کہ کہیں تو کیا کہیں،کریں تو کیا کریں۔آخر کب تک گروہ بندیاں ہوتی رہی گیں،آخر کب تک اعتراضات واختلافات کی بنیادپر مسلمانوں کو الجھن میں رہنا ہوگا،آخر مسلمان بات مانیں تو کس کی مانیں اور کس کی بات کو انکارکریں؟۔عام مسلمان کو تو قرآن وحدیث سے واسطہ ہے،لیکن گروہ بندیوں نے جس طرح سے مسلمانوں کو شک وشبہات میں ڈال رکھاہے ا س سے شایدہی مسلمانوں کو کوئی ٹھوس حل نکالنے میں آسانی ہوگی۔مسلمانوں کے ان حالات کو دیکھ کر شیطان تو خوش ہوہی رہاہے ،ساتھ ہی ساتھ عیار وں کومسلمانوںکے خلاف سازشیں رچنے میں مزید آسانیاں ہورہی ہیں۔یقیناً قیامت کے قریب اُمت72 فرقوں میں بٹ جائیگی،لیکن یہاں72 فرقے سے پہلے172 گروہ بن رہے ہیں جس کا حل نکالنا بے حد ضروری ہے۔آخر پوری دُنیا کو کیا دکھایاجارہاہے،کونسا درس دیاجارہاہے،ہمارے نبی ﷺکی تعلیمات کاکیا نقشہ پیش کیاجارہاہے،آخر قرآن کی وہ کونسی آیتوں پر عمل کیاجارہاہے جس میں مسلمانوں کو آپس میں باٹنے کی پہل ہورہی ہے،کیاواقعی میں یہی اسلام ہے؟۔علامہ اقبال کا شعرہے کہ
وضع میں تم ہونصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود


 

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 197617 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.