سید فہیم احمد زیدی۔۔ادب اطفال کاروشن ستارہ
(Zulfiqar Ali Bukhari, Islamabad)
|
تحریر و ملاقات: ذوالفقار علی بخاری
ادب اطفال میں کئی قلم کار اپنی سوچ کو لفظوں کا روپ دے کر نونہالوں کے شعور کو بیدار کر رہے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ بچو ں کے لئے لکھنا بے حد مشکل کام ہے تاہم کچھ ادیب ایسے بھی ہیں جن کے لئے بچوں کے لئے لکھنا بہت آسان ہے۔اُن کے موضوعات بھی دل چسپی سے بھرپور ہوتے ہیں۔ انہی میں سے ایک بے حد ملنسار، مخلص اورکھرے ادیب سے ہم نے ملاقات کی ہے۔ ان کا پورا نام سید فہیم احمد زیدی ہے مگرادب اطفال کی دنیا میں اپنی پہچان قلمی نام”فہیم زیدی“ سے بنا چکے ہیں۔ایک زمانے میں ٹیلیویژن پر اداکاری کے جوہر بھی دکھاتے رہے ہیں۔آج کل سعودی عرب کے شہر دمام میں مقیم ہیں، دہاں پر رہتے ہوئے بھی قلم سے ناطہ جوڑا ہو ا ہے جو کہ ان کی ادب سے گہری محبت کو ظاہر کرتا ہے۔فہیم زیدی بچوں اوربڑوں کے لئے مجموعی طورپر دوسو سے زائد تحریریں لکھ چکے ہیں جن میں نوجوانوں کے لئے مضامین بھی شامل ہیں۔ان سے ہونے والی گفتگو قارئین کی نذر ہے۔ ********** آپ کی کب اور کہاں پیدائش ہوئی؟ فہیم زیدی:میری پیدائش 9مارچ 1975ء کو کراچی میں ہوئی۔ ********** آپ کے بچپن کی کوئی خا ص یاد، جو قارئین کو بتا نا چاہیں؟ فہیم زیدی: مجھے اس کا اندازہ نہیں ہے کہ یہ بات سچ ہے کہ نہیں مگر ایسا ہوا۔ میں نے ایسا سنا ہے چوپائے جانور کی اگر دُم پر ہاتھ لگایا جائے تو وہ بیمار ہو جاتا ہے ایسا ہی کچھ ہوا۔ جب میں بہت چھوٹا تھا میرے چچا مرحوم ایک سفید رنگ کی بہت خوب صورت سی بکری خرید کر لائے۔جب وہ بکری بیٹھی ہوتی تھی میں جا کر اس کی دم پر پکڑتا تو وہ جھٹکے سے ہلاتی اور زمین کا وہ حصہ اس کی دم کی جھاڑو لگنے سے صاف ہوجاتا ہے۔مجھے اس کے جھاڑو لگانے میں اتنا لطف آتا میں بار بار بکری کی دم پکڑتا رفتہ وہ بکری کمزور پڑنے لگی۔ اس کو دستوں کی بیماری ہوگئی جس کا بہت علاج کروایا مگر وہ سنبھل نہ پائی۔اس بیماری میں بھی میں اپنی اس حرکت سے باز نہیں آیا آخرکار وہ بکری مر گئی۔جب بات سوچتا ہوں تو بہت دکھ ہوتا ہے کہ نا سمجھی میں، میں یہ سب کرتا تھا واقعی وہ بکری بہت خوب صورت تھی جو اس کے مرنے کی خبر سنتا افسوس کرتا اور ساتھ یہ بھی کہتا اس کو نظر لگ گئی تھی۔ ********** آپ کو کب خیا ل آیا کہ لکھنا چاہیے۔ پہلی تحریر کچھ یاد ہے کہ کس موضوع پر لکھی تھی؟ فہیم زیدی:اگر چہ میرے گھر میں کوئی لکھنے کی طرف راغب نہیں ہے البتہ اچھا سب پڑھنے کے شوقین ہیں۔میرے والدمرحوم کے ہاتھ میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی ڈائجسٹ،ناول رہتا تھا۔ وہ بے حد پڑھنے کے شوقین تھے۔ لکھنے کا خیال کب آیا تو میں سمجھتا ہوں کہ کچھ چیزیں انسان کی فطرت میں شامل ہوتی ہیں وہ اسے خود اس جانب کھینچ کر لے آتی ہے شاید ایسا ہی میرا ساتھ بھی ہوا، جنوں، بھوتوں، ملکہ بادشاہ، عمر و عیار ٹارزن جیسے موضوعات پر پاکٹ سائز کہانیاں شائع ہو ا کرتی تھیں جسے ہم بہن بھائی بڑے شوق اور دلچسپی سے پڑھتے تھے پھر ہم بچوں کی رسائل کی جانب آئے۔ساتھی، نونہال،تعلیم و تربیت، آنکھ مچولی،جگنو،بچوں کی دنیا،ٹوٹ بٹوٹ اور بھی اس اس وقت کے مقبول رسائل پڑھے۔جب بچوں کے رسائل میں کہانیوں پر تبصرہ کرتے خطوط پڑھتے تو دل چاہتا کہ ہمیں بھی کچھ لکھ کر بھیجنا چاہئے۔اس طرح کافی تبصروں کے کافی خطوط بھیجے جو شائع ہوئے بھی جب پہلا خط شائع ہوا تو اس وقت بھی خوشی دیدنی تھی بعدازاں کہانیاں بھی لکھیں مگر ابتدائی دور تھا کوئی خاطرخواہ کامیابی دامن گیر نہ ہو سکی۔ پہلی کہانی جنگ اخبار میں غیر ضروری اعتقادکے موضوع پر شائع ہوئی۔ ********** اولین تحریر کی اشاعت پر کیسا محسوس ہوا تھا؟ فہیم زیدی:بچوں کے رسائل میں جب کہانیاں نہ شائع ہو سکیں تو اس وقت گھر میں جنگ اخبار آتاتھا اس چھٹی والے دن جمعہ کو (اس وقت جمعہ کی چھٹی ہوا کرتی تھی) جنگ ڈائجسٹ پورا ایک صفحہ کہانیوں کا شائع ہوتا تھا،سوچا اس صفحے کے لئے کہانی لکھی جائے۔پھر ذہن میں آیا کہ بچوں کے رسائل نہیں شائع کرتے جنگ جیسا بڑا ادارہ کیوں چھاپے گا خیرہمت کرکے ایک کہانی جنگ ڈائجسٹ کے لئے لکھی اور سپرد ڈاک کرکے یہ ذہن بناکر بیٹھ گئے کہ ہم نے یہ کہانی سپرد ڈاک نہیں سپرد خاک کر دی مگر تین ماہ بعد جب یہی کہانی اور میری سب سے پہلی کہانی جو غیر ضروری اعتقاد کے موضوع پر تھی جنگ اخبار کے اس صفحے پر شائع ہوئی تو میں میری کیا حالت تھی،میں بتانے سے قاصر ہوں۔یہ ہر لکھاری کے ساتھ ایسا ہوتا کہ وہ خوشی سے پھولانہیں سماتا ہے اور جب جنگ جیسے اخبار میں پہلی کہانی شائع ہوجائے تو اس کا اندازہ آپ بہ خوبی خود بھی لگا سکتے ہیں۔ ********** اداکاری کی طرف کیسے مائل ہوئے کن ڈراموں میں کام کرنے کاموقع ملا ہے؟ فہیم زیدی:ارے آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ میں اداکاری بھی کر چکا ہوں؟ بہت باخبر ہیں بھئی آپ تو۔جی ہاں اداکاری کا شوق بھی شروع ہی سے تھا تاہم انٹر کرنے کے بعد باقاعدہ ایک سنجیدہ تھیٹر میں شمولیت اختیار کی اور سنجیدہ موضوعات پر مبنی کھیلوں میں فن اداکاری کے جوہر دکھائے۔ یہ سلسلہ بھی کافی سالوں چلا،ٹی وی پر بہت تھوڑا کام کیا ترجیح زیادہ تر تھیٹر ہی کی رہی۔ ********** کہانی لکھنا آسان ہے یا پھر اداکاری کرنا؟ فہیم زیدی: دونوں ہی شعبے خداداد صلاحیت ہونے کے ساتھ ساتھ وقت اور محنت مانگتے ہیں تو میں دونوں کو ہی آسان کام نہیں گردانتا۔ ********** آپ کے خیال میں نوجوانوں کو اداکاری کو بطور پروفیشنل اپنا نا چاہیے؟ فہیم زیدی: بنایا جا سکتا ہے اداکاری کو پیشہ،بے تحاشا چینلوں پر بہت ڈرامے نشر ہورہے ہیں مگر نئے آنے والے کے لئے اس شعبے میں قسمت کا بھی بڑا عمل دخل ہے وگرنہ تو میں کافی ا یسے لوگوں کو جانتا ہوں جو پی ٹی وی کے بلیک اینڈ وائٹ دور سے اداکاری کررہے ہیں وہ اپنی شناخت نہیں بنا پائے۔ ان کے اہل خانہ اوردوست ہی جانتے ہیں کہ وہ اداکاری بھی کرتے ہیں بس اسی لئے میں نے بھی کبھی اداکاری کو پیشہ بنانے کا نہیں سوچا کیوں کہ بسا اوقات انسان گھر کا رہتا ہے نہ گھاٹ کا۔ ********** آپ نے کیا سوچ کر صاحب کتاب بننا قبول کیا؟ فہیم زیدی:بہت اچھا سوال ہے یہ آپ کا۔ کسی نے یہ بات بہت خوب کہی تھی اور میں اس سے اتفاق بھی کرتا ہوں کہ اخبار میں چھپے ہوئے کی زندگی ایک دن کی،ہفتہ روزہ میں شائع کسی تحریر کی مدت ایک ہفتہ او ر ڈائجسٹ میں لکھے ہوئے کی تیس دن ہوا کرتی ہے اور کسی بھی لکھاری کی تخلیق اسے اپنی اولاد کی طرح عزیز ہوتی ہے جسے وہ ساری زندگی اپنے ساتھ رکھنا چاہتا ہے اورمیری شائع شدہ تخلیقات گھر میں شروع میں تو بے ترتیب پڑی ہوتی تھی کبھی کوئی مسودہ کہیں سے مل رہا ہے تو کوئی تحریر الماری میں دفن سالوں بعد سامنے آرہی تھی۔ یہ سلسلہ میرے ساتھ کافی تھا اور جب گزشتہ برس باقاعدہ دوبارہ بچوں کے لئے لکھنا شروع کیا اور اس میں کامیابی مقدر بننے لگی تو خیال آیا کہ کتاب کی صورت اپنے تمام تخلیقی کام کو یکجا کیا جائے تاکہ وہ نہ صرف ادھر ادھر بھٹکتی رہیں بلکہ محفوظ ہو کر زندگی بھر ساتھ رہے بس یہی محرک کتاب کی اشاعت کا بنا۔ ********** ”مٹھو اوربنٹی“ آپ کی اولین کتاب کا نام ہے، یہ کس وجہ سے رکھا گیا ہے؟ فہیم زیدی:اس مجموعے میں شامل تمام کہانیوں کا جب جائزہ لیا گیا تو بس یہی ایک نام ناشر فہیم عالم صاحب کی مشاورت سے ”مٹھو اور بنٹی“ منتخب ہوا۔ ********** ”مٹھو اوربنٹی“ میں کن موضوعات پر کہانیاں ہیں، کچھ اپنے قارئین کے لئے بتائیں؟ فہیم زیدی:اس کتاب میں کل سترہ کہانیاں شامل ہیں جس میں سوائے ایک دو کے باقی تمام کہانیوں میں بچوں کے لئے کوئی نہ کوئی پیغام موجود ہے اور حق بھی یہی ہے کہ جب لکھا جائے وہ پڑھنے والے کی تربیت بھی کرے۔ ********** ایک لکھاری کو کیوں انفرادیت کا حامل بننا چاہیے؟ فہیم زیدی:اگر ہم جائزہ لیں تو ملک بھر میں ماشاء اللہ بے تحاشافعال اور متحرک ادیب نظر آتے ہیں جو وقتاً فوقتاً اور بعض تو ہر ماہ باقاعدگی سے شائع ہورہے ہیں،اگر ہم سب مل کر بچوں کو اپنی کہانیوں میں نصیحتیں کرنااور درس دینا شروع کردیں گے تو یقینا پڑھنے والا یکسانیت کا شکار ہو کر نہ صرف بوریت محسوس کرے گا اور یہ بھی ہوسکتاہے کہ وہ آپ کو پڑھنا ترک بھی کر دے تو اس لئے کسی بھی ادیب چاہے وہ کسی بھی کردار کے حوالے سے، یا دلچسپ موضوع کے حوالے سے اپنی پہچان بنانا چاہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، کوئی ہرج نہیں ہے قاری ہمیشہ منفرد پڑھنے کی خواہش رکھتا ہے اس لئے ادیب کوبھی اس حوالے سے انفرادیت کا حامل ہونا چاہئے۔ ********** آپ کی کامیابی میں آپ کے والدین کا کردارکتنا اہم ہے؟ فہیم زیدی:کسی بھی شعبے میں والدین کی حوصلہ افزائی کے بغیر کوئی بھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔ ان کی دعائیں اوررہ نمائی بطور مہمیز کردار ادا کرتی ہیں الحمد للہ ایسا میرے ساتھ بھی ہے۔میرے والدین اور بہن بھائیوں کی پذیرائی نے مجھے بھی تقویت عطا کی اور ساتھ میں اپنے دوستوں کا ذکر بھی کروں گا بہت سے دوست میرا لکھا اور شائع ہوتا دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں۔ ********** آپ کی زندگی کا اہم ترین سبق کیا ہے؟ فہیم زیدی: جب تک انسان کی زندگی ہے وہ اپنے لئے کسی بھی حوالے سے آگے بڑھنے کی جستجو اور جدوجہد میں لگا رہتا ہے اگرکسی بھی معاملے میں اسے کہیں کوئی چھوٹی سی بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑے تو اس سے سبق حاصل کرتاہے اورضروری ہے کہ وہ اس کے اسباب جاننے کے بعد اس پرقابو پانے کی کوشش کرے۔ کچھ چھوٹے موٹے واقعات میرے ساتھ بھی ہیں جس سے میں نے سبق سیکھا تاہم وہ واقعات واجبی سے جن کا یہاں ذکر نہ بھی ہوتو کوئی بات نہیں ہے۔ ********** دورحاضر کے کن ادیبوں کی خدمات کو آپ اہمیت کا حامل سمجھتے ہیں؟ فہیم زیدی:میں سمجھتا ہوں کہ آج کا ہرچھوٹا یا بڑا ادیب قابل احترام ہے کیوں کہ وہ ادب کے حوالے سے متحرک ہے بس کام میں ناپختگی او ر پختگی کاعنصر ہو تا ہے مگر وقت کے ساتھ ساتھ انسا ن اپنے مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر ارتقائی منازل طے کرتا رہا ہے۔ بے شک جو بہت تجربہ کار ہیں جن کا مشاہدہ وسیع ہے وہ اسی اعتبار سے اپنی تخلیقات کو منظر عام پر لاتے ہیں ا س لئے ان بڑے ادیبوں کا صرف نام لے دینا چھوٹے ادیبوں کے ساتھ زیادتی ہوگا اس لئے میری نظر میں ہر لکھنے والا ادیب اہمیت کا حامل ہے اور میں اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ ********** آپ کے خیال میں پردیس کی زندگی بہت آسان ہے؟ فہیم زیدی: بہت مشکل ہے پردیس کی زندگی،دیس میں بیٹھاشخص قیاس آرائیاں کررہا ہوتاہے کہ فلاں شخص باہر بیٹھا بڑے مزے کر رہا ہے بہت پیسہ کما کر بھیج رہا ہے جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے،بیوی بچوں،گھروالوں اور دیگر قریبی رشتوں سے دور رہنا بہت اذیت ناک ہے۔ گھر کی بعض اہم تقاریب میں انسان شامل نہیں ہوپاتا، تہواروں میں بھی بس کمرے میں رہ کر یا ساتھ احباب کے ساتھ کچھ کھا پی کر اس دن کو منا لیتا ہے، ایسا بھی ہوتا ہے بسا اوقات گھر میں کسی کا انتقال ہو جائے تو وہ آخری دیدار سے محروم ہوجاتا ہے ایسا میرا ساتھ ہو چکا ہے۔ اپنے والد صاحب کے جنازے میں شامل نہیں ہو سکتا تھا میں۔ تو پردیس کو کسی طرح سے بھی آسان تصور نہیں کیا جا سکتا۔ ********** قارئین کی پذیرائی کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ فہیم زیدی:قارئین کی پذیرائی رگوں میں دوڑتے ہوئے خون کی مانندہے جو ادیب کومتحرک اور فعال رکھ کر زندہ رکھتی ہے۔ ********** اپنے قارئین کے نام کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟ فہیم زیدی:قارئین کو بس یہی کہوں گا کہ نصاب کے علاوہ ادب کو بھی پڑھیں، پڑھیں اور خوب پڑھیں کیوں کہ پڑھنے سے ہی انسان آگاہی کے سمندر میں غوطہ زن ہو کر کائنات تسخیرکرپاتا ہے۔ آپ کے قیمتی وقت کا بے حد شکریہ۔۔ ختم شد۔ ********** بشکریہ ہفت روزہ مارگلہ نیوز، اسلام آباد
|