لہجے اور رویے کی منافقت اور ہمارا اضطراب

انسان کرب میں ہے. بے انتہا کرب میں. وہ مصنوعی ہنسی ہنس رہا ہے. مصنوعی خوشیاں خرید رہا ہے. مصنوعی کھلونوں میں خود کو بہلانے کی ناکام کوشش کر رہا ہے. اس نے خوب صورت لباس ضرور پہن رکھے ہیں لیکن اس کی روح زخمی ہے. اس کی زخمی روح کا کرب اس کی مصنوعی مسکراہٹ بیان کر رہی ہے.

انسان ذہنی انتشار کا شکار ہے. وہ جس قدر سکون کا تعاقب کر رہا ہے اس کا اضطراب اسی قدر بڑھتا جا رہا ہے.

انسان شاکی ہے. بے انتہا شاکی. والدین کو شکایت ہے کہ بچے فرماں بردار نہیں. بچوں کو شکایت ہے کہ والدین انہیں سمجھتے نہیں. ان کی خواہشات کا احترام نہیں کرتے.

نوجوان پریشان ہیں کہ انہیں ملازمت نہیں مل رہی ہے، اچھا رشتہ نہیں مل رہا. جن کے پاس ملازمت ہے وہ دفتری مسائل سے پریشان ہیں. باس کی جھڑکیاں، کام کا پریشر انہیں ذہنی طور پر منتشر رکھتا ہے. جو ازدواج کے رشتے سے بندھے ہیں وہ ازدواجی مسائل کا رونا روتے رہتے ہیں.

قیادت کو شکایت ہے کہ عوام ان کا اتباع نہیں کرتے، ان پر بھروسہ نہیں کرتے، عوام شاکی ہیں کہ قیادت گمراہ ہو چکی ہے. قیادت پر حرص و ہوس اور جاہ و منصب کی تمنا حاوی ہو چکی ہے.

مختلف قسم کے اختلافات انسان کے اضطراب کی الگ وجہ ہیں. گھروں میں اختلافات ہیں. بھائی بھائی کا اختلاف، ساس بہو کا اختلاف. مذہب کا اختلاف، رنگ و نسل اور زبان کا اختلاف، مسلکی اختلاف، سیاسی اختلاف...... پھر ان اختلافات میں بھی اختلافات ہیں. مثلاً ایک مسلک کو ماننے والے بھی پوری طرح متفق نہیں.....
خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں...…

انسانی گفتگو شکوہ شکایت، غیبت بہتان، اپنی برتری کا قصیدہ، دنیا کے فریب کا نوحہ پڑھتے ختم ہوتی ہے.
انسان مسلسل جھوٹ بولتا ہے. اس نے منافقت اپنے چہرے اور زبان پر سجا رکھی ہے. کسی سے پوچھیے کہ خیریت ہے تو کہتا ہے کہ بس اللہ کا شکر ہے اور پھر مسائل کا ایک کوہِ گراں لے کر کھڑا ہو جاتا ہے. اگر اللہ کا شکر ہے تو پھر مسائل کا ذکر ناشکری نہیں ہے؟

شکر کی نعمتیں نازل کرنے والا کہتا ہے کہ اگر تم شکر ادا کروگے تو مزید نوازوں گا اور ناشکری کروگے تو دی ہوئی نعمت چھین لوں گا. ہم زبان سے شکر تو ادا کرتے ہیں لیکن ہمارا اضطراب مسلسل ناشکری کرتا رہتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بظاہر تو شکر کے زبانی دعوے کے انعام میں ہمیں نواز دیا جاتا ہے لیکن اس کے بعد ہمارا سکون چھین لیا جاتا ہے. چنانچہ ہمارے پیسوں میں اضافہ ہو رہا ہے. طرز رہائش اچھی ہو رہی ہے. کھانے پینے کی اشیا میں فراوانی ہے. لباس ہمارے پاس اچھے سے اچھا ہے. مکانات ہیں. گاڑیاں ہیں لیکن سکون..........؟

یعنی ظاہری عمل (ظاہری شکر) کا انعام ظاہری اور مادی صورتوں میں مل رہا ہے لیکن باطنی سکون و اطمینان ہماری زبان اور رویے کی منافقت کی وجہ سے چھین لیا گیا ہے.

اگر ہم واقعی پرسکون رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی زبان اور رویے کی منافقت سے توبہ کرنی چاہیے.

 

Kamran Ghani
About the Author: Kamran Ghani Read More Articles by Kamran Ghani: 33 Articles with 36248 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.