قارئن!یوں تو مسلح افواج کی تاریخ ایثاراور قربانیوں کے
واقعات سے بھری پڑی ہے ۔اورایسا کبھی نہیں ہوا کہ فوج کو کوئی ٹاسک ملے
۔اور اُس نے رزلٹ نہ دیئے ہوں۔سمندرکی گہرائیوں سے لیکرسندھ ، بلوچستان
،خیبرپختونخواہ ،گلگت بلتستان ،کشمیراور پنجاب تک ایسا کوئی مقام نہیں جہاں
مسلح افواج نے کسی مشکل کومشکل سمجھا ہو۔اور یہ کمال یہاں تک کہ اقوام
متحدہ کے تحت امن مشن پربھی پاکستانی فوج کی پروفارمنس قابل قدرسمجھی جاتی
ہے ۔شورش زردہ رلاقوں میں اقوام متحدہ کے تحت امن کی بحالی اور مقامی لوگوں
کی مددکے سلسلے میں بہت سے ممالک کی فوجیں جاتی ہیں ۔لیکن پاکستانی فوج کا
رویہ اس قدر مثالی ہوتا ہے کہ کسی تفریق وامتیاز اور تعصب کا سوال ہی پیدا
نہیں ہوتا ۔اس طرح کانگوسمیت دیگرعلاقوں میں جہاں جہاں بھی پاک فوج تعینات
کی جاتی ہے ۔وہاں مثبت رحجانات نمایاں نظرآتے ہیں ۔تاہم امن کی بحالی اور
انسانوں کے تحفظ کی اس عالمی کوششوں میں بعض اوقات وہاں سرگرم منفی کرداروں
کی بُزدلانہ کارروائیوں کیوجہ سے ’’امن مشن ‘‘میں موجود ہماری فوج کو جانی
نقصان کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے تاہم ’’موت کا خوف‘‘ہماری افواج پرکبھی
غالب نہیں آسکتا ۔اس لئے چاہے اوقوام متحدہ کے مشن تحت، زندگی کیلئے
ناگزیرضرورت’’امن ‘‘کا سوال ہو ۔یا پھروطن کا دفاع اور اپنوں کی سلامتی کا
۔مسلح افواج اپنا کام بخوبی کرنا جانتی ہیں ۔بہرحال اپنے موضوع کی طرف
بڑھتے ہوئے یہاں کانگومیں انسانی زندگی کیلئے امن و سکون کی بحالی کیلئے
کوشاں پاک فوج کے لیفٹیننٹ کرنل آصف علی اعوان سمیت چھ جانبازوں کی ہیلی
کاپٹرگرنے سے ہونیوالی شہادت کا تذکرہ ناگزیرہے ۔مسلح افوا ج جہاں بھی ہوں
،انکاکردار دھرتی پرزندگیوں کیلئے اپنا اثررکھتا ہے ۔چونکہ کانگو میں شہید
ہونیوالے لیفٹیننٹ کرنل آصف علی اعوان کا تعلق پنجکوٹ حلقہ لچھراٹ سے ہے
۔اور 29مارچ 2022کے روز امن مشن میں تعینات پاک فوج کے لیفٹیننٹ کرنل آصف
علی اعوان سمیت دیگرجانبازوں کی شہادت سے لیکر ان سطورکو لکھنے تک سوشل
میڈیا پر بہت زیادہ پوسٹیں دیکھنے کو ملی ہیں جن میں شہید کو خراج عقیدت
پیش کیا گیا ۔انکے خاندان کیلئے صبرو استقامت کی دعاکی گئی ہے ۔اس دوران
سوشل میڈیا پر جناب وزیراعظم آزادکشمیرسردارعبدالقیوم نیازی کے پیج پربھی
پاک فوج کے کانگومیں شہید ہونیوالے لیفٹیننٹ کرنل آصف علی اعوان سمیت تمام
شہداء کیلئے پوسٹ نظرسے گزری ۔تاہم مذکورہ پوسٹ پرکمنٹ کئے بغیررہا نہیں
گیا ۔اور جناب وزیراعظم کو باور کرایا کہ ’’آپ ریاست کے چیف
ایگزیکٹوہیں‘‘لہذا محض تعزیتی کلمات سے بات نہیں بنے گی ۔بلکہ پاک فوج کے
بہادرسپوت لیفٹیننٹ کرنل آصف علی اعوان کوخراج عقیدت پیش کرنے کیلئے پنجکوٹ
کا گورنمنٹ بوائز ہائی سکول منسوب کردیا جائے ۔خواجہ فاروق احمد میریٹورس
سروسز اکنالجمنٹ کمیٹی کے چیئرمین بھی ہیں ،اور گذشتہ روزلیفٹیننٹ کرنل آصف
علی اعوان کی شہادت پراُنکے جذبات و خیالات کی پوسٹ بھی سوشل میڈیا دیکھی
ہے۔۔۔۔۔میں یہاں اُن تمام معززین احباب سے بھی کہنا چاہوں گا کہ وہ سوشل
میڈیا پر شہید لیفٹیننٹ کرنل آصف علی اعوان کوشایان شان طریقے سے خراج
عقیدت پیش کرنے کیلئے گورنمنٹ بوائز ہائی سکول پنجکوٹ منسوبی کے مطالبہ کی
پُرزورحمایت کرکے اپنے جذبات و خیالات کی ترجمانی کریں ۔ ۔۔۔۔۔۔۔
قارئن! وقت کیساتھ ساتھ انسان کی جسمانی توانائیاں ،دماغی قوت کم ہوتی جاتی
ہیں ۔اور پھرایک وقت میں بہت سے کاموں پرتوجہ دینا بھی مشکل ہوجاتا ہے
۔چونکہ میں ذاتی طور پر خواہش رکھتاہوں کہ آزادکشمیرکے شہدائے پاک فوج کی
قربانیوں کے اعتراف میں سرکاری تعلیمی ادارے منسوب ہوں ۔تاکہ اہالیان
آزادکشمیر ،بشمول نئی نسل میں ’’ریاست پاکستان کیساتھ فکری و نظریاتی
قربیت‘‘کا احساس رہے۔پاک فوج کی آزادکشمیررجمنٹ کی313تیموری الفاروق بٹالین
کے شہید نائیک سید محمد حسین شاہ کی یاد میں قائم کردہ شہدائے وطن میڈیا
سیل کے تحت کوششوں وکاوشوں کی بدولت کشمیریوں کی دفاع پاکستان
وآزادکشمیرکیلئے ہمہ جہتی عملی کردارکو اُجاگرکرکے ثابت کیا گیاکہ شہیدوں
کی نسبت سے ’’لواحقین ‘‘بھی تاریخ رقم کرسکتے ہیں۔خواہش تھی ہے کہ مرنے کے
بعد بھی زندہ رہوں ،اسی خواہش نے ’’مادر وطن کے محافظوں کے حوالے سے ’’موثر
و جاندارکردار‘‘اداکرتے ہوئے سال بھرمیں قومی دنوں کی مناسبت سے مختلف
سرگرمیوں کا سلسلہ تسلسل سے جاری رہتا ہے ۔یقین کی منزل پررہ کر’’نئی نسل
کی فکری و نظریاتی تربیت‘‘اور اہل وطن میں یہ احساس اُجاگرکیاجاتا ہے کہ
’’محفوظ جویہ دھرتی ہے ،اسکے پیچھے وردی ہے‘‘۔۔۔ابھی کچھ ہفتے پہلے جناب
صدر ریاست بیرسٹرسلطان محمود چوہدری کوایوان صدرمیں ایک پریس کانفرنس کے
اختتام پر بالمشافہ میرپورمیں کرنل عمران جرال شہید کے نام کوئی سرکاری
تعلیمی ادارہ منسوب کرنے کی جانب توجہ دلائی ۔اور حوالے سے ایک اخبارکا
شائع شدہ ایڈیٹوریل بھی پیش کیا ۔جبکہ قبل ازیں میجرمحمد کاظم شہیدسے کیڈٹ
کالج چھترکلاس،دارالحکومت میں برگیڈئیرنجم سلیم شہیدکے نام کوئی اہم تعلیمی
ادارہ جبکہ میجرمحمد رفیق شہید کے نام باغ میں تعلیمی ادارہ منسوبیت
کاتسلسل سے مطالبہ کیا گیا ہے ۔جبکہ لیفٹیننٹ کرنل حق نواز کیا نی شہید
فاتح لیپہ کی قربانی کی بہادری و شجاعت اور قربانی کی یادآرمی پبلک سکول
گڑھی دوپٹہ منسوب ہے نیزلیپہ میں چنیاں بازرکیساتھ واقع دفاعی مورچہ بندی
والی پہاڑی’’کرنل کیانی ‘‘کے نام منسوب ہے ۔ لیکن آزادحکومت نے اب تک اس
جانبازکوخراج عقیدت پیش کرنے کیلئے کیا اقدام کیا ہے ؟؟صیغہ راز ہی ہے ۔
دیکھتے ہیں پاکستان ،دفاع پاکستان اور آزادکشمیرکے شہیدوں سے متعلق اُمور
پر بے نیازی کا ماحول کب تک رہتا ہے۔کب تک پاکستان پاکستان اور پاک فوج
،پاک فوج کہہ کرفریب کاری کی جاتی رہیگی ؟؟؟سنجیدہ حلقے سمجھتے ہیں۔کہ ’’
ریاست پاکستان اور آزادکشمیرکی انتظامیہ کو شہیدوں کے تابوتوں کا وزن معلوم
نہیں ‘‘ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ریاستی تعلیمی ادارے ودیگرتنصیبات شہدائے
وطن کے ناموں سے منسوبیت کے مطالبہ ہونے ،توجہ دلانے کے باوجود ایوانوں میں
’’پُراسررخاموشی ‘‘چھائی رہے۔چہ جائیکہ اب تک آزادکشمیرمیں شہیدوں سے منسوب
کردہ تعلیمی اداروں میں قومی سرگرمیاں تسلسل سے منظم کی جاتیں۔۔۔۔ظاہرہے
۔جب سرکاری تعلیمی ادارے شہیدوں سے منسوب ہوں ،مگر اُنھیں قومی سرگرمیوں کا
مرکز بنانے کی اہمیت و ضرورت کا خیال نہ کیا جائے تو منسوبیت بے معنی
ہوجاتی ہے ۔ شہداء کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون اُنکی ستائش کرتا ہے
۔البتہ یہ ہماری ضرورت ہے کہ ہم زندہ اور باوقار قوموں کی صفوں میں
شمارہونے کے لئے مادر وطن کے محافطوں /جانبازوں کی عزت کرنا سیکھیں ۔اور
بزرگوں ،جوانوں سے بچوں تک ،سبھی کوآزادی امن و سکون کی زندگی کی
ضامن’’مسلح افواج پاکستان‘‘کی اہمیت ،کوششوں وکاشوں سے متعلق تواترسے آگاہ
کرتے رہیں۔ ۔۔۔
ہمیں دیکھنا ہے کہ آخرکون سے اقدامات ہوں جن سے ملک و ملت کیلئے کام
کرنیوالوں کی تعظیم وتکریم کاتحفظ ہو۔ مدنظررہنا چاہیے کہ ’’امن و
سکون‘‘زندگی کی اہم اور بنیادی ضرورت ہے جسکے بغیرزندگی،محض سانس
لیناہے۔اگرچہ اب بھی ملک وقوم کو متعددچیلنجزکاسامناہے ،مگر الحمدﷲ، زندگی
پھربھی ’’ امن و سکون‘‘کے ثمرات لئے ہوئے ہے تو اسکا سبب ’’یہی وردی ہے
‘‘اور پھریہ وردی پہننے والے کوئی اور نہیں ،اسکی قوم کے بہادربیٹے ہیں
۔جنہیں اپنے ایثاروقربانی کی کوئی قیمت نہیں چاہیے ،ماسوائے اسکے کہ
’’اُنکی قربانیوں کی عزت کی جائے‘‘اس حوالے سے ریاست کا کردار سب سے اہم ہے
کہ وہ ’’اُنکی قربانیوں کی عزت ‘‘کیلئے ماحول بنائے ۔ وردی کی عزت کا تحفظ
ریاست کی ذمہ داری ہے ۔اور اس کیلئے سب سے پہلے ’’پاک فوج اور عوام ‘‘کے
اشتراک سے سال بھرمیں جاری رہنے والی سرگرمیوں میں مذید بہتری لانی ہوگی
۔دفاع وطن کیلئے جانیں قربان کرنیوالوں کے آبائی علاقوں کے تعلیمی ادارے
منسوب کرنے کیساتھ ساتھ ’’منسوب شدہ ‘‘اداروں میں پاک فوج ،محکمہ تعلیم
/صحت /جنگلات /زراعت اورانتظامیہ کے اشتراک سے سرگرمیاں منظم کرنا ہونگی
۔اگراس سے بھی بہترکوئی حکمت عملی ہو تو اختیارکرلی جائے۔ یادرکھنے کی
ضرورت ہے کہ ریاست تجربہ گاہ نہیں ہوتی ۔اور نہ ہی اقتدار واختیارہمیشہ
باقی رہنے والے ہیں ،اس لئے قومی احساس تفاخرکاتحفظ کیجئے ۔ملک وقوم کے
محافظوں کی قربانیوں کا اس طرح احترام کیجئے کہ محسوس بھی ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|