نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ :’’ رمضان صبر کا مہینہ ہے اور
صبر کا بدلہ جنت ہے ‘‘۔ سوال یہ ہے کہ آخر صبر کا رمضان سے کیا تعلق ہے؟
اردو میں صبر سے مراد مجبوری لیا جاتا ہے لیکن عربی میں اس کا مفہوم خاصہ
وسیع ہے۔ رمضان ایک ایسا مہمان ہے جو موسم بدل بدل کر آتا ہے یعنی اس کا
ماحول کبھی نرم تو کبھی گرم ہوتا ہے۔ وباء کے دوران یہ نہایت خاموشی سے
آکر چلا گیا لیکن اس بارخاصی گہما گہمی ہے۔ موسم کے ساتھ حالات بھی گرم
نرم ہوتے رہتے ہیں۔ مغربی بنگال کے انتخابی نتائج سے جو ماحول بنا تھا وہ
یوپی کے بعد بدل گیا ۔ قرآن حکیم میں اس طرح کی تبدیلی کا سبب یہ بیان کیا
گیا ہے :’’ا ِس وقت اگر تمھیں چوٹ لگی ہے تو اس سے پہلے ایسی ہی چوٹ تمہارے
مخالف فریق کو بھی لگ چکی ہے یہ تو زمانہ کے نشیب و فراز ہیں جنہیں ہم
لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں‘‘۔ اس کا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ :’’
تم پر یہ وقت ا س لیے لایا گیا کہ اللہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم میں سچے
مومن کون ہیں، اور ان لوگوں کو چھانٹ لینا چاہتا تھا جو واقعی (راستی کے)
گواہ ہوں کیونکہ ظالم لوگ اللہ کو پسند نہیں ہیں ‘‘۔
وطن عزیز میں فی الحال فتنوں کا طوفان بپا ہے ۔ہندو مہا پنچایت کے اندر
بدنام ِ زمانہ یتی نرسنگھا نند کہتا ہے:’’ اگر ہندوؤں نے ہتھیار نہیں
اٹھایا توبھارت میں مسلم وزیر اعظم آ جائے گا۔ آپ میں سے 50 فیصد
ہندواگلے 20 سال میں اپنا دھرم بدل لیں گے‘‘ ۔ یہ دونوں باتیں اگر ہوجائیں
تو یہ ملک و قوم کے لیےباعثِ خیر ہوں گی لیکن وہ آگے ہندووں کو خوفزدہ
کرنے لیے کہتا ہے:’’اگر ہندوستان میں کوئی مسلمان وزیر اعظم بنا تو 40 فیصد
ہندو مارے جائیں گے۔ یہ ہندوؤں کا مستقبل ہے۔ اگر آپ اسے بدلنا چاہتے ہیں
تو مرد بنیں۔ کوئی ہے جو مسلح ہو‘‘۔ سوال یہ ہے جب اقتدار کی باگ ڈورمسلمان
کے ہاتھ میں ہوگی اور اتنے بڑے پیمانے پر برادرانِ وطن اپنا مذہب تبدیل
کرلیں گےتو انہیں نہ کوئی خطرہ ہوگا نہ کوئی مارنے کی غلطی کرے گا؟ ہندووں
کو مسلح کرنے کی دھمکی سے متعلق ارشادِ ربانی ہے :’’مسلمانو! تمہیں مال اور
جان دونوں کی آزمائشیں پیش آ کر رہیں گی، اور تم اہل کتاب اور مشرکین سے
بہت سی تکلیف دہ باتیں سنو گے اگر ان سب حالات میں تم صبر اور تقویٰ کی روش
پر قائم رہو تو یہ بڑے حوصلہ کا کام ہے‘‘ ۔
یہاں صبر و ثبات کے ساتھ تقویٰ وپرہیز گاری کی تلقین فرمائی گئی ہے ۔ رمضان
کے روزوں کا مقصد تقویٰ کا حصول ہے یعنی اس ماہ کے روزے اور صبر مومنین کو
حالات کا مقابلہ کرنے کے قابل بناتے ہیں ۔ راشٹریہ مسلم منچ کی افطار
پارٹیوں کا اہتمام کرنے والوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ : ’’اے لوگو جو
ایمان لائے ہو، اپنی جماعت کے لوگوں کے سوا دوسروں کو اپنا راز دار نہ بناؤ
وہ تمہاری خرابی کے کسی موقع سے فائدہ اٹھانے میں نہیں چوکتے تمہیں جس چیز
سے نقصان پہنچے وہی ان کو محبوب ہے ان کے دل کا بغض ان کے منہ سے نکلا پڑتا
ہے اور جو کچھ وہ اپنے سینوں میں چھپائے ہوئے ہیں وہ اس سے شدید تر ہے ہم
نے تمہیں صاف صاف ہدایات دے دی ہیں، اگر تم عقل رکھتے ہو (تو ان سے تعلق
رکھنے میں احتیاط برتو گے)‘‘۔
آگےسنگھ کے منچ سے قربت بڑھانے والوں کو قرآن خبردار کیا جاتا ہے کہ:’’
تم ان سے محبت رکھتے ہو مگر وہ تم سے محبت نہیں رکھتے حالانکہ تم تمام کتب
آسمانی کو مانتے ہو جب وہ تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے بھی مان لیا
ہے، مگر جب جدا ہوتے ہیں تو تمہارے خلاف ان کے غیظ و غضب کا یہ حال ہوتا ہے
کہ اپنی انگلیاں چبانے لگتے ہیں ان سے کہہ دو کہ اپنے غصہ میں آپ جل مرو
اللہ دلوں کے چھپے ہوئے راز تک جانتا ہے ۔ تمہارا بھلا ہوتا ہے تو ان کو
برا معلوم ہوتا ہے، اور تم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یہ خوش ہوتے ہیں‘‘۔ اس
طرح دشمنانِ اسلام کے ناپاک عزائم کے خلاف یہ بشارت بھی دی گئی ہے کہ:’’
مگر ان کی کوئی تدبیر تمہارے خلاف کارگر نہیں ہوسکتی بشرطیکہ تم صبر سے کام
لو اور اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو جو کچھ یہ کر رہے ہیں اللہ اُس پر حاوی
ہے‘‘ ۔ یہاں پھر صبرو تقویٰ کی تلقین کی گئی ہے۔ دشمنانِ اسلام کو ناکامی
سے دوچار کرنے کے لیے یہ ماہِ مبارک ہمیں اپنے آپ کو تقویٰ و صبر کی صفت
سے آراستہ کر کے حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرنا ہوگا ورنہ کوئی اذان کے
خلاف زہر اگلے گا کوئی گوشت پر پابندی لگائے گا۔ صبرو ثبات کی صفت اہل
ایمان کو نصرت الٰہی کا حقدار بناتی ہے ۔ ارشادِ حق ہے:’’آپ سے پہلے بھی
بہت سے رسول جھٹلائے جا چکے ہیں، مگر اس تکذیب پر اور اُن اذیتوں پر جو
انہیں پہنچائی گئیں، انہوں نے صبر کیا، یہاں تک کہ انہیں ہماری مدد پہنچ
گئی اللہ کی باتوں کو بدلنے کی طاقت کسی میں نہیں ہے‘‘۔
|