ضلع لاہور اور اس کے مرکز نشتر ٹاون میں حکومتوں اوردیگر
ذمہ داروں کی مسلسل لاپرواہی اورعدم توجہی کی بناء پر مختلف مسائل کی بھر
مار ہے جس کی وجہ سے یہاں کے عوام کو قدم قدم پر مشکلات کا سامنا رہتا
ہے،ان مسائل میں ایسے بھی ہیں جو فوری حل طلب ہیں اور ہر حکومت نے انہیں حل
کرنے کے بے شمار وعدے کئے مگر پورے نہیں کئے۔دیگر مسائل کے علاوہ اس وقت
لاہور شہر کا ناقص سوریج سسٹم ہے جو عوام کیلئے وبال جان بنا ہوا ہے،نکاسی
آب کانظام نہ ہونے کی وجہ سے معمولی بارش کے بعد ندی نالوں کا پانی سڑکوں
اور گلی کوچوں پر بہتا نظر آرہاہے اسی طرح کئی سڑکیں اورکئی محلے زیر آب
آجاتے ہیں،پانی مکانوں اور دکانوں میں گھس جاتا ہے جو گھریلواوردیگر سامان
ناکارہ کردیتا ہے اور نقصان کا سبب بن جاتا ہے،یہاں کے عوام کو اس طرح کی
صورتحال کا سامنا ہر بارش کے وقت کرنا پڑتاہے،ہر بارش کے بعدلوگ دیگر کام
کاج چھوڑ کر اپنی مددآپ کے تحت گھروں اوردکانوں کی صفائی ستھرائی میں لگ
جاتے ہیں۔لاہور شہر کے علاقہ کاہنہ میں بارش کے وقت پانی کے بہاؤ کی وجہ سے
بازار،دکانیں اورمارکیٹیں بند اورٹریفک رک جاتی ہے،بارش کا پانی سڑکوں پر
سیلابی ریلے کی شکل میں بہتاہے جبکہ یہی سیلابی ریلے دکانوں اور مکانوں میں
داخل ہوجاتے اورمالی نقصان کا سبب بن جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ شہر کے نشیبی
علاقوں کا ہر وقت زیر آب آنے کا خطرہ موجود رہتاہے جہاں کے بیشتر مکین بادل
آنے کے ساتھ ہی گھرخالی چھوڑ کرمحفوظ مقامات پر منتقل ہوجاتے ہیں اوربارش
رکنے پرگھر واپس آنے کے بعد انہیں اپنے گھرکاتمام گھریلوسامان پانی پر
تیرتا ہوا ملتا ہے جس کے بعدوہ گھروں سے کیچڑ صاف کرنے میں مصروف ہوجاتے
ہیں۔رواں سال زیادہ بارشیں ہوئیں تو اس نے لاہور شہر کے کئی محلوں اور
علاقوں کو شدید نقصان پہنچایا ان علاقوں میں مین فیروز پورڑوڈ ،کاہنہ،
چونگی امرسدھو،اچھرہ سمیت دیگر نشیبی علاقے شامل ہیں جہاں پر بارشوں سے
متاثرہونے والے لوگوں اور مکینوں کا کسی حکومتی اہلکار نے حال تک نہیں
پوچھا،لاہور شہر میں ناقص سیوریج سسٹم کے سبب اب تک لوگوں کو جتنا نقصان
پہنچا ہے اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے کیونکہ یہ صورتحال ایک یا
دوبارنہیں بلکہ بار بار سامنے آرہی ہے،یہاں پرجب بارش شروع ہوجاتی ہے تو
کچھ دیر بعد برساتی نالوں میں طغیانی آجاتی ہے،ندی نالے اوبل پڑتے
ہیں،کھیتوں کے بند ٹوٹ جاتے ہیں،سیلابی ریلے تیزی کے ساتھ راستے بناتے ہوئے
رہائشی آبادیوں میں گھس جاتے ہیں اور مکینوں کے سامنے ان کے مکان زیر آب
آجاتے ہیں اوران کا تمام سازوسامان برباد ہوجاتا ہے،اسی طرح تیار فصلوں اور
کھیتوں کو بھی شدید نقسان پہنچ جاتا ہے۔الیکشن کے وقت تمام امیدوار عوامی
مسائل کوحل کرنے کے دعوے کرتے نہیں تھکتے مگر الیکشن کے بعد سب کچھ بھول
جاتے ہیں،مقامی لوگوں نے ہر دور حکومت میں اس وقت کے متعلقہ ذمہ داروں اور
حکومتی اہلکاروں کے سامنے سیوریج سسٹم کا مسئلہ رکھا اور باربار ان کی توجہ
اس طرف مبذول کرائی مگر وہاں سے صرف زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں ملا،اہل
علاقہ کہتے ہیں کہ نکاسی آب کا ناقص نظام ہویاترقیاتی منصوبوں میں ناقص
میٹریل کا استعمال ہو ان میں لاہور شہر ایک نمبر پر ہے،لاہور شہر میں
ریاستی دور کی ندی نالیاں اب بھی موجود ہیں جو آبادی بڑھنے کے بعداب وہ
پانی کا وہ بوجھ یا بہاؤ برداشت نہیں کر پارہے جو وہ اس دور میں کررہے تھے
جس کے نتیجے میں یہ ندی نالیاں ہروقت گندگی سے بھری نظر آتی ہیں،یہاں پر
اگر ایک طرف سیوریج سسٹم ناقص ہے تو دوسری جانب صفائی ستھرائی کا نظام بھی
ابتر ہے جس کے باعث ندی نالیاں گندگی سے بھری رہتی ہیں جس سے ہروقت مختلف
اور خطرناک امراض پھیلنے کے خدشات موجودرہتے ہیں مگر مقام افسوس ہے کہ اس
کے باجود بھی حکومت اور منتخب نمائندوں کی آنکھیں نہیں کھل رہی
ہیں،حکمرانوں کی عدم توجہی اور غفلت ولاپرواہی کا نتیجہ ہے کہ اس وقت شہر
کے لوگ مختلف قسم کے مسائل اورمشکلات کے دلدل میں دھنستے جارہے ہیں مگر
انہیں بچانے اورمسائل سے چھٹکارا دلانے والا کوئی نہیں،عوامی نمائندوں کا
کام صرف اخباری بیانات جاری کرنے اور فوٹو سیشن تک محدودہوکر رہ گیاہے یہی
وجہ ہے کہ عوام کا ان نمائندوں پر سے اعتماداٹھتا جارہاہے لہٰذہ وقت کا
تقاضا ہے کہ حکومت مزید لاپراوہی اور غفلت کا مظاہر نہ کرے بلکہ شہر کے
ناقص سیوریج سسٹم میں بہتری لانے سمیت دیگر مسائل کے حل کیلئے ہنگامی
بنیادوں پر اقدامات اٹھائے تاکہ اہل شہر کی پریشانیوں میں کمی آئے اور
انہیں سکھ کی سانس نصیب ہوسکے۔
|