تعصب کی عینک

ایک نوبیاہتا جوڑا نئے گھر میں شفٹ ہوا۔۔۔

نئے گھر کے بالائی پورشن پر وہ صبح اکٹھے بیٹھ کر ناشتہ کرتے تھے۔ وہاں ایک ایسی کھڑکی بھی تھی جس سے پڑوسیوں کے گھر کی چھت واضح طور پر نظر آتی تھی۔ چنانچہ ایک دن بیوی نے دیکھا کہ پڑوسن چھت پر دھلے ہوئے کپڑے تار پر سکھانے کے لیے لٹکا رہی تھی لیکن وہ کپڑے اسے میلے کچیلے نظر آ رہے تھے۔ اس نے خاوند کو کہا:

" ہماری پڑوسن کو تو کپڑے دھونے بھی نہیں آتے۔۔ دیکھو تو
کپڑے دھلنے کے بعد بھی کتنے میلے کچیلے سے ہیں۔"

خاوند نے بیوی کی بات سن کر کپڑوں کی طرف دیکھا لیکن بیوی کو کوئی جواب نہ دیا۔

پھر یہ معمول بن گیا جب بھی پڑوسن دھلے ہوئے کپڑے چھت کی تار پر لٹکانے آتی تو یہ حقارت سے پڑوسن کو دیکھتی اور اپنے خاوند کے سامنے اس کا ضرور گلہ کرتی کہ اسے کپڑے دھونے کا ڈھنگ ہی نہیں ہے۔

ایک روز بیوی نے پڑوسن کے دھلے کپڑے دیکھ کر یہی تبصرہ معمول کے مطابق خاوند کے سامنے کیا تو خاوند اٹھا اور پرانے کپڑے کو گیلا کر کے کھڑکی کے شیشے کو اچھی طرح صاف کیا اور بیوی کو کہا:

"اب کپڑوں کو دیکھو۔"

بیوی نے جب کپڑوں پر نظر ڈالی تو وہ بالکل صاف ستھرے تھے۔بیوی کے چہرے پر حیرانی پھیل گئی۔

خاوند دوبارہ بیوی سے گویا ہوا:

"پڑوسن کو صحیح کپڑے دھونے آتے تھے لیکن کھڑکی میں لگا گرد آلود شیشہ تمھیں وہ کپڑے میلے دکھا رہا تھا۔۔ اب میں نے شیشہ صاف کر دیا تو کپڑے بھی تمھیں صاف نظر آنے لگے ہیں"۔

کچھ لوگ تعصب کی عینک آنکھوں پر لگا کر دنیا کو دیکھتے ہیں ۔ اس وجہ سے انہیں ہر طرف منفیت دکھائی دیتی ہے۔ یہ نیکی کو بدی سمجھتے ہیں۔ ان کو پلس میں بھی دو منفی نظر آتے ہیں۔ یہ دنیا کو ویسے نہیں دیکھتے جیسے کہ وہ ہے بلکہ ایسے دیکھتے ہیں جیسے کہ وہ خود ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ تعصب کی گرد آلود عینک اتاری جائے کیونکہ اس کی موجودگی میں سچائی کی تلاش ناممکن ہے۔۔

 

Obaid Khokhar
About the Author: Obaid Khokhar Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.