ہلدی رام کے بھجیا پیکٹ پر اردو میں لکھے جانے کا شوشہ یونہی نہیں چھوڑا
گیا ۔بلکہ اس کے پیچھے ایک سوچی سمجھی،منصوبہ بند منظم سازش ہے۔ جس کا مقصد
اردو زبان کی مخالفت اور اس کے بولنے والوں کو حاشیہ پر ڈالنے کی کوشش ہے۔
اس اردو مخالف منصوبہ کے تحت پورے ملک میں ہندی زبان کو مسلط کئے جانے کے
پلان کاردّ عمل بھی دیکھنا بھی ہے ۔ یوم ہندی کے موقع پر وزیر داخلہ امیت
شاہ کا متنازعہ بیان جس میں انھوں نے ہندی زبان کو پورے ملک میں قومی زبان
بنانے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کی ایک زبان ہو، جس کی وجہ سے غیر
ملکی زبان کو جگہ نہ ملے۔ اس بیان کا فوری ردعمل تمل ناڈو میں ڈی ایم کے،
کے صدر ایم کے اسٹالن نے امت شاہ سے اپنے اس بیان کو فوری واپس لینے کا
مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہم لگاتار ہندی تھوپے جانے کے خلاف احتجاج
کرتے آئے ہیں۔امت شاہ کا بیان ہمارے لئے ایک جھٹکے کی طرح ہے۔‘
ملک کے اسکولوں میں طلبا کو ہندی زبان لازمی طور پر پڑھانے کی وفاقی حکومت
کی تجویز پر غیر ہندی ریاستوں بالخصوص تمل ناڈو،تلنگانہ،کرناٹک اور مغربی
بنگال میں سخت مخالفت کرتے ہوئے اس تجویز کو رد کر دیا گیا تھا۔ دراصل مودی
حکومت نے گزشتہ دنوں نئی قومی تعلیمی پالیسی کامسودہ جاری کرتے ہوئے اس
مسودہ میں غیر ہندی علاقوں میں درجہ ششم سے ان ریاستوں کی علاقائی زبان اور
انگریزی کے علاوہ ہندی کی تعلیم کو لازمی قرار دیا تھا۔جس کی بڑے پیمانے پر
مخالفت کی گئی ۔جس کے بعدہنگامہ سرد کرنے کے لئے مرکزی وزیر فروغ انسانی
وسائل رمیش پوکھریال کو اپنے ایک ٹوئیٹ کے ذریعہ یہ صفائی دینی پڑی کہ
حکومت کا کسی پر کوئی زبان تھوپنے کا ارادہ نہیں ہے اور تمام بھارتی زبانوں
کی ترقی کے لئے کام کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسی کوششیں جب کبھی کی گئی
ہیں اور ملک کی واحد سرکاری زبان ہندی کوبنانے کی تجویز پیش کی گئی ۔اس وقت
حکومت کو سخت تنقید اور احتجاج کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ واضح رہے کہ 1965
میں جب کچھ فرقہ پرستوں نے پورے ملک میں ہندی زبان کو مسلط کرنے کی کوشش کی
تھی ۔ اس وقت ہندی کی مخالفت میں پر تشدد مظاہرے تمل ناڈو میں دیکھنے کو
ملے تھے ۔جس میں غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پانچ سؤ سے زیادہ افراد
ہلاک ہوئے تھے۔
اس پورے منظر نامہ کی کوشش کی ابتداء ہمارے وزیراعظم کے ایک جھوٹ سے ہوتی
ہے ۔جب انھوں نے سال رواں کے فروری ماہ کے اپنے ایک پسندیدہ ریڈیو پروگرام
میں اپنے من کی بات کو ظاہر کرتے ہوئے کہی تھی۔میں نے اسی وقت یہ لکھا تھا
کہ اس جملے کے پیچھے کوئی گہری سازش پوشیدہ ہے۔جو یوم ہندی کے موقع پر
سامنے آ ہی گیا۔حقیقت یہ ہے کہ ملک کے سربراہ کا جب کبھی کوئی بیان عوامی
طور پر سامنے آتا ہے تو اس بیان کی بڑی اہمیت ہوتی ہے اور عوام نہ صرف ایسے
بیانات پرپوری طرح یقین کرتے ہیں بلکہ ملک کے سربراہ کی باتوں کے ہر ہر لفظ
کے طرح طرح کے معنیٰ بھی نکالتے ہیں۔لیکن افسوس کہ ہمارے وزیر اعظم کے اکثر
ایسے بیانات آتے ہیں ،جنھیں دیکھ کر دانشوروں کی عقل تسلیم کرنے ہی انکار
کر دیتی ہے،لیکن معصوم اور کم تعلیم یافتہ لوگ ان کی باتوں پر کسی حد تک
ضرور یقین کر لیتے ہیں ۔ گزشتہ ماہ ہمارے وزیراعظم نریندر مودی نے ایک ایسا
ہی بیان اپنے ماہانہ ریڈیو پروگرام میں دیتے ہوئے فخریہ بتایا کہ’2019ء میں
ہندی دنیا کی تیسری سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان تھی۔ہر ہندوستانی کو
اس پر فخر ہونا چاہیے۔زبان نہ صرف اظہار کا ذریعہ ہے بلکہ معاشرے اور ثقافت
کو بھی محفوظ رکھتی ہے ‘ ۔ اس بیان کو عام طور پر کوئی خاص اہمیت نہیں دی
گئی کہ پڑھا لکھا طبقہ اس امر سے بخوبی واقف ہے کہ یہ بیان حقیقت سے کافی
دور ہے ۔ لیکن گاؤں دیہات جہاں ریڈیو کا چلن آج بھی برقرار ہے ،وہاں کے
معصوم اور ناخواندہ لوگ تو اس بات پر یقین کرتے ہوئے مودی کی تعریف کے پُل
باندھتے ہوئے تالیاں بھی بجائی ہونگی۔ اب اتنا کون تحقیق کرے کہ دنیا میں
کون سی زبان زیادہ اور کم بولی جاتی ہے ۔ ملک کے سربراہ نے جب یہ بات کہی
ہے تو غلط کیسے ہو سکتی ہے ۔ وزیراعظم مودی کے اس بیان کو میں بھی نظر
انداز کر جاتا ، لیکن پھر خیال ہوا کہ اس بیان کی وضاحت ضروری ہے ۔ نہیں تو
نہ جانے کتنی کتابوں میں وزیر اعظم مودی کے حوالے سے یہ بات کتابوں وغیرہ
میں شامل کر لی جائے گی اور نسل در نسل طلبہ ایک غلط بات پر یقین کرتے
رہینگے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کے اس بیان کی تحقیق کی جائے تو حقیقت صرف اتنی
سامنے آتی ہے کہ 24 ؍اپریل2015ء کو امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اپنے ایک
سروے رپورٹ میں یہ انکشاف کیا تھا کہ دنیا میں بولی جانے والی زبانوں میں
اوّل چینی زبان ہے جس کے بولنے والے ایک ارب 39 کروڑ ، دوسری ہندوستانی
زبان یعنی مشترکہ طور پر اردو ،ہندی زبان جس کے بولنے والے 58 کروڑ 50 لاکھ
ہیں اور اس کے بعد تیسرے نمبر پر انگریزی زبان ہے جس کے بولنے والے 52کروڑ
70 لاکھ ہیں ۔یعنی ہندوستانی زبان کو دوسرا مقام عالمی سطح پر حاصل ہے ۔
لیکن سال 2019 ء کے سروے میں ہندوستانی زبان دوسرے پائدان سے تیسرے نمبر پر
آ گئی۔
اب ہم ہندوستانی زبان کا جائزہ لیں تو حقیقت اس طرح واضح ہوتی ہے کہ عام
طور پر بول چال میں اردو اور ہندی زبان ایک دوسرے سے بہت قریب ہیں۔ جسے
’’ہندوستانی‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔یہ ہندوستانی زبان اتر پردیش ،بہار ،
راجستھان ،آندھرا پردیش،مشرقی پنجاب وغیرہ جیسے علاقوں میں خوب بولی جاتی
ہے۔گرچہ مختلف علاقوں کی بولی کے اثرات اور لب و لہجہ بھی اس میں شامل ہو
جاتے ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ ہندوستانی زبان فلموں ، ڈراموں، ٹی وی سیرئلوں ،
ریڈیو اورٹی وی پر نشر ہونے والی خبروں میں بہت مقبول ہے ۔اس ضمن میں ہمیں
یہ قطئی نہیں بھولنا چاہیے کہ ’’ہندوستانی‘‘ زبان کو متعارف کرانے اور اسے
فروغ دینے میں انگریزوں نے اہم رول ادا کیا ہے ۔ 22 دسمبر 1677 ء کو ایسٹ
انڈیا کمپنی کے کورٹ آف ڈائریکٹرس نے قلعہ سینٹ جارج (مدراس) کو اپنے ایک
مراسلہ میں لکھا تھا ․․․
’’ اس کا اعادہ کیا جاتا ہے کہ کمپنی کے جو ملازمین فارسی سیکھیں گے ،ان کو
دس پونڈ اور جو انڈوستان زبان سیکھیں گے ان کو بیس پونڈ بہ طور انعام دئے
جائیں گے ،نیز یہ کہ اس زبان کی تعلیم دینے والے کسی مناسب آدمی کا تقرر
بھی کیا جائے گا ۔․․․․․‘‘
(بحوالہ : Grirson:Linguistic survey of india,Vol-ix, p. 8 )
ان کوششوں سے فائدہ اور نقصان دونوں ہوا ۔ فائدہ یہ ہوا کہ اردو اور ہندی
زبان کے بولنے والوں کی تعداد اس قدر بڑھ گئی کہ واشنگٹن پوسٹ نے اس زبان
اپنے ایک سروے میں عالمی سطح پر دوسرے اور تیسرے مقام پر رکھا ، نقصان یہ
ہوا کہ اردو اور ہندی دونوں زبان کی اپنی انفرادیت اور تشخص ختم ہوتی جا
رہی ہے ۔ اس نقصان کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت بھی واضح ہوتی
ہے کہ ہندوستانی زبان سے اردو زبان کو بہت زیادہ نقصان پہنچ رہاہے اور
بتدریج اردو کے وجود پر خطرہ منڈرا رہا ہے ۔المیہ یہ ہے لوگ پاکیزہ، میرے
محبوب ، میرے حضور، پالکی وغیرہ جیسی اردو زبان کی فلمیں دیکھنے کے بعد دل
و دماغ میں اتر جانے والے اردو زبان کے نغموں اور ڈائلاگ و مکالمے والی
فلموں کو ہندی زبان کے ملنے والے سرٹیفیکیٹ کی وجہ کر ہندی فلم سمجھنے پر
مجبور ہوتے ہیں ۔فلموں میں نغمے اردو کے ، ڈائلاگ اردو کے اور کہا جاتا ہے
کہ یہ گانے ،یہ ڈائلاگ ہندی فلم کے ہیں ۔ کسی چینل یا یو ٹیوب پر ہندی
فلموں کے گانے لکھے یا بولے جانے پر اردو کے گانے سنے جا سکتے ہیں ۔اردو
گانے کا چلن ابھی صرف پاکستان تک محدود ہو گیا ہے یہی حال ریڈیو اور ٹی وی
پر نشر ہونے والی خبروں اور ڈراموں میں بھی دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ اب تو
ہندی اخبارات میں بھی دھڑلے سے اردو زبان کے الفاظ کی سرخیاں لگائی جا رہی
ہیں ،بس رسم الخط ہندی میں ہوتا ہے ۔ ایسی ہی کوششوں کے باعث اردو زبان کو
شدید نقصان یہ بھی ہو رہا ہے کہ ہندوستانی زبان میں اردو بولنے والوں کی
کثیر تعداد کے باوجود دنیا میں بولی جانے والی زبان کی فہرست میں اب اردو
کا ذکر نہیں مل رہا ہے بلکہ زبان کی فہرست میں بھی اردو کی جگہ ہندوستانی
ہی نظر آ رہا ہے ۔جس میں مجھے گہری سازش نظر آ رہی ہے ۔ اسی سازش کا حصہ
ہمارے وزیر اعظم مودی کا وہ بیان ہے جس میں انھوں نے اردو، ہندی مشترکہ
زبان ہندوستانی کو نظر انداز کرتے ہوئے انھوں نے صرف ہندی زبان کا ذکرکیا
اورکہا کہ ’ہندی کو 2019 ء میں دنیا کی تیسری سب سے زیادہ بولی جانے والی
زبان کا درجہ ملنے پر ہر ہندوستانی کو اس پر فخر ہونا چاہئے۔‘ اس بیان میں
سازش کی بو کومحسوس کیا جا سکتا ہے۔ سچائی تو یہ ہے کہ مختلف اوقات میں
اپنی جنم بھومی بھارت سے نکل کر جغرافیائی حدود کو توڑتی ہوئی اردو زبان
دنیا کے بہت سارے ممالک اور خطّوں میں پہنچ کر لوگوں کے دل و دماغ پر اپنی
سحر انگیزی کا احساس کرا رہی ہے ۔ دنیا کو گلوبل گاؤں بننے کا بھی اردو
زبان کو بڑا فائدہ پہنچاہے۔ دوریاں نزدیکیاں میں بدل گئی ہیں ۔ کووڈ 19 سے
دنیا جب تھم سی گئی تھی ، ان دنوں عالمی سطح پر آن لائن اور ورچوئل سیمینار
، سمپوزیم، مباحث، مشاعرے ، شام افسانہ وغیرہ کے انعقاد سے یہ حقیقت بھی
سامنے آئی کہ اردو زبان کتنی دور دور تک پہنچ کر لوگوں کے احساسات و جذبات
کی ترجمانی کر رہی ہے ۔
ہم اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کر سکتے ہیں کہ اردو زبان میں اپنی تہذیب،
تمدن، ثقافت اور قدروں کی جڑیں پیوست ہوتی ہیں ، جو کہ شخصیت کی تعمیر و
ترقی میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ جو لوگ اپنی مادری زبان کی اہمیت نہیں
سمجھتے وہ لوگ نسل در نسل منتقل ہو رہی اپنی زبان کی امانت کی حفاظت نہیں
کر پاتے اور ایک ایسا وقت آتا ہے ، جب وہ اپنی قوم ، تہذیب ، ثقافت اور
قدروں سے الگ تھلگ پڑ جاتے ہیں اور ان کی آنے والی نسل کی کوئی شناخت نہیں
بن پاتی ہے۔ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ اردو زبان کے فروغ میں، اس
کے ادب و صحافت کو گرانقدر بنانے میں صرف مسلمانوں کی ہی قابل قدر خدمات
نہیں رہی ہیں ، بلکہ اردو زبان ،ادب و صحافت کی ترویج و اشاعت میں ہندو ،
مسلم، سکھ عیسائی کابہت بڑااور اہم رول رہا ہے،بلکہ کئی اصناف ادب اور اردو
صحافت میں اوّلیت کا سہرا ان ہی غیر مسلموں کے سر جاتا ہے۔ لیکن تقسیم ہند
کے بعد’اردو‘ زبان کے عربی رسم الخط کے باعث متعصب ذہنیت کے لوگوں نے اس
زبان کے تمام حقوق کو نہ صرف ختم کر دیا بلکہ اس کے خلاف منظم اور منصوبہ
سازش کراسے جلا وطن کرنے کی مزموم کوششیں بھی کی گئیں ۔ حالانکہ ہر صاحب
علم اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ یہ اردو ہی زبان ہے جس نے اپنی گود میں لے
کر دیا نرائن نگم،جان گلکرسٹ،اشپرنگر،ماسٹر رام چندر، رام بابو سکسینہ،
منشی نول کشور،ہری ہر دت، منشی سدا سکھ رائے ،ہر سکھ لال ،بنسی دھر ، مکند
رام کشمیری ، منشی دیوان چند ،بابو شیو چند ناتھ ، بابو بھیرو پرشاد ،
کیدار ناتھ گھوش ،کاشی داس متر ،گوبند رگھو ناتھ ،بینی پرشاد ، نارائن
راؤ،شانتی نارائن بھٹناگر،رام ناتھ پوری ،وپن چندر دیال ،لالہ ہردیال ،
پنڈت رتن ناتھ سرشار، پریم چند، چکبست، فراق، سدرشن ، جوش ملسیانی، تلوک
چند محروم، آنند نرائن ملّا ، کرشن چندر، بیدی، رام لعل، جگن ناتھ آزاد،
شانتی رنجن بھٹا چاریہ، وشو ناتھ طاؤس، دیوندر اسر، دیوندر ستیارتھی، کالی
داس گپتا رضا، تارا چرن رستوگی، گوپی چند نارنگ، کشمیری لال ذاکر، بلراج
ورما ، رام لال نابھوی، گوپال متّل ، رتن سنگھ، گیان چند جین ، جوگندر پال
، مالک رام ، بلونت سنگھ ، کرشن موہن ، موہن چراغی، مانک ٹالہ ، اوپندر
ناتھ اشک، راج نرائن راز، شباب للت، نریش کمار شاد، فکر تونسوی، کنھیا لال
کپور، بلراج کومل، کمار پاشی، گربچن چندن، جمنا داس اختر، گلزار زتشی
دہلوی، شرون کمار ورما ، کیول دھیر،ش ک نظام ، چندر بھان خیال ،روشن لال
روشن ، جانکی پرشاد شرماوغیرہ کے افکار و اظہار میں بلا شبہ ہندوستان کی
تہذیبی، ثقافتی ، اور سماجی قدروں کی خوشبو رچی بسی تھی ۔ان تما م شاعروں
،ادیبوں ، صحافیوں وغیرہ کو اسی اردو زبان نے آفاقیت بخشی اور شہرت و
مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا کر ان کے نام نامی کو چاند تاروں کی مانند
درخشندہ بنا دیا ۔ اب کوئی بتائے کہ اردو اگر مسلمانو ں کی زبان ہے تو پھر
ان لوگوں کو ذات اور مذہب کے کس خانے میں رکھا جائے گا ۔ ہند و پاک اور ان
کے ہمسائے ممالک مثلاََ بنگلہ دیش ، افغانستان ،نیپال ، چین وغیرہ کے ساتھ
ساتھ امریکہ ، کناڈا ، برطانیہ وغیرہ جیسے ملکوں نیز سعودی عربیہ ، متحدہ
عرب امارات، نوروے ، ترکی ، جرمنی ، آسٹریلیا، ساوتھ افریقہ ،
بیلجئم،ڈنمارک ، سویٹزر لینڈ، جاپان وغیرہ جیسے ممالک میں بھی ان دنوں اردو
زبان کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے ۔ اس بات کا اعتراف عام طور پر کیا جا
رہا ہے ۔ چند روز قبل ہی دہلی میں اردو صحافت کے دو سو سالہ جشن کے موقع پر
سابق نائب صدر جمہوریہ ہندمحمد حامد انصاری صاحب نے اس بات کا اعتراف کیا
ہے کہ’ اردو آج ہندوستان یا برصغیر کی نہیں بلکہ بین الاقوامی زبان
ہے۔‘اردو بلا شبہ اس وقت بین الاقوامی زبان ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ اردو
زبان صرف رابطے کی زبان نہیں ہے بلکہ اس زبان میں ہماری اپنی تہذیب، تمدن،
ثقافت اور قدروں کی جڑیں پیوست ہیں ۔ جسے سمجھنا بہت ضروری ہے۔
٭٭٭٭٭
|