دوستی کا آئینہ

روس اگر چہ عسکری،فوجی اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے امریکہ کا ہم پلہ نہیں ہے لیکن اس کے باوجود روس امریکہ کو زچ کرنے کیلئے کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کرتا ۔کبھی افغانستان کا میدان ،کبھی مشرقِ وسطی کا میدان ،کبھی شام کا میدان،کبھی یمن کا میدان،کبھی لیبیا کا میدان اور کبھی عراق کا میدان ۔روس ہمیشہ امریکی تسلط کے خلاف اپنی سفارتی، تجارتی اور معاشی سرگرمیوں کو دھیما نہیں ہونے دیتا بلکہ وہ کسی ایسے موقع کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے جس میں اسے امریکہ کو کسی بڑے قضیہ میں محبوس کرنے کا موقعہ نصیب ہو جائے ۔تازہ ترین واردات یوکرین کا خطہ بنا ہوا ہے جہاں ایک طرف روس اور اس کے حلیف ممالک ہیں جب کے دوسری طرف امریکہ یورپ اور ان کے حواری ہیں ۔ روس کی افواج یوکرین کو تاراج کرنے کے لئے بے تاب ہیں لیکن امریکہ اور نیٹو روسی عزائم کے خلاف آہنی دیوار بنے ہو ئے ہیں جس کی وجہ سے روسی فتح دن بدن دور ہوتی جا رہی ہے ۔اگر چہ امریکہ اس قضیہ میں اپنی افواج بھیجنے سے گر یز کر رہا ہے لیکن اس کے باوجود وہ یوکرین کی مالی، اخلاقی ،سفارتی اور عسکری مدد کر رہا ہے ۔ یوکرین ایک چھوٹا ساملک ہے لہذا روسی افواج کو روکنا یوکرین کے بس میں نہیں ہے لیکن دنیا دیکھ رہی ہے کہ روسی افواج اتنے دن گزر جانے کے باوجود یوکرین کے دارالحکومت کیف کو فتح کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہیں ۔جنگ طویل ہو تی جا رہی ہے اور شائد یہی امریکی گیم کا نقطہ ماسکہ ہے ۔امریکہ نے روس کو یوکرین میں جس بری طرح سے اپنے جال میں پھانس لیا ہے اس سے شائد روس کا نکلنا ممکن نہیں ہے۔آغاز میں ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ روسی حملہ تیسری عالمی جنگ کا روپ دھار لیگا لیکن اقوامِ عالم کی مداخلت اور سفارت کاری سے فی الحال ایسا ہوتا ہوا دکھا ئی نہیں دے رہا۔اقوامِ متحدہ کی قرار دادیں بھی روس کو دباؤ میں لانے کیلئے اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔روس کی فوجی طاقت کے سامنے یوکرینی فوج کی کوئی حیثیت نہیں ہے لیکن نیٹو اور امریکہ کیلئے یوکرین ایک ایسا مورچہ ہے جہاں سے انھوں نے روس کو زخمی کرنا ہے۔اگر روس یوکرین کو فتح کر نے میں کامرنی سے سرفراز ہو جاتا ہے تو پھر یورپ اور نیٹو کو سر نگوں ہونا پڑے گا۔یورپی یونین روسی توسیع پسندی سے خوفزدہ ہے لہذا وہ روسی عزائم کو ہر حال میں روکنا چاہتی ہے۔،

ایک زمانہ تک مشرقی یورپ روسی پنجوں میں جکڑا ہوا تھا ۔پولینڈ،ہنگری،یوگوسلاویہ جیسے ممالک روسی حاکمیت کے زیرِ سایہ پرورش پا رہے تھے لیکن پھر افغانی جنگ نے مشرقی یورپ کو روسی پنجوں سے رہائی فراہم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا تھا لیکن اب بدلتے حالات میں اگر روسی فوجیں یوکرینی دارالحکومت میں داخل ہو جاتی ہیں تو پھر مشرقی یورپ ایک دفعہ پھر روسی تسلط میں چلا جائے گا جو امریکہ اور یورپ کو کسی بھی صورت میں قبول نہیں ہے ۔اس وقت یورپ پر خوف کے بادل چھائے ہوئے ہیں اور روسی قائد دلاور میر پوٹین کی جارحانہ سوچ یورپ کو چین سے سونے نہیں دے رہی ۔ یورپ روس کی فوجی یلغار کے سامنے کھڑا ہونے کی سکت نہیں رکھتا کیونکہ اس کا معاشی اور عسکری درجہ روس سے کہیں زیادہ چھوٹا ہے۔یورپ کے چھوٹے چھوٹے ممالک جن کی آبادی اور رقبہ انتہائی مختصر ہے روس جیسی عظیم سلطنت کا دباؤ برداشت نہیں کر سکتے۔امریکہ کی چھتری سر سے ہٹ گئی تو پھر یورپ روس کا تر نوالہ بن جا ئے گابالکل ویسے ہی جیسا دوسری عالم گیر جنگ میں جرمنی بکے ہاتھوں ہوا تھا۔روڈلف ہٹلر کی جارحیت پسندی نے پورے یورپ کو اپنے پاؤں تلے روندھ ڈالا تھا۔پورا یورپ جرمنی کے آہنی پنجوں میں تھا ۔یہ تو ہٹلر کی تو سیع پسندی کی ہوس تھی جس نے اسے روس کے خلاف جنگ پر ابھارا تھاجو جرمن افواج کی شکست کا پیش خیمہ ثابت ہواتھا۔روس اور یوکرین کے درمیان جنگ بندی کی کاو شیں جاری ہیں اور ہو سکتا ہے کہ مستقبل قریب میں روس اور یوکرین کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ ہو جائے لیکن فی الحال روس اندھی طاقت کے نشہ میں کسی کو در خورِ اعتنا نہیں سمجھ رہا ۔چینی قیادت کی تھپکی بھی روس کو مشتعل کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔چین کے اپنے مفادات ہیں۔امریکہ کو نیچا دکھائے بغیر چین سپر پاور نہیں بن سکتا اور یہی وہ نقطہ ہے جو روس اور چین کی قربتوں میں اضافہ کا باعث بن رہا ہے۔روس اور چین دوسری عالمِ جنگ کے بعد ایک دوسرے کے حریف تھے اور ان کے درمیان کبھی بھی معمول کے تعلقات نہیں رہے ۔چینی قائد ماؤزے تنگ اورروسی مردِ آہن سٹالن کے درمیان کبھی ملاقات نہیں ہوئی ۔دونوں ممالک اگر چہ کیمونزم کے علمبردار تھے لیکن اس کے باوجود دونوں ایک دوسرے کے حریف تھے ۔

کسی زمانے میں چین ثقافتی انقلاب،داخلی انتشار اور سخت معاشی پالیسیوں کی وجہ سے غر بت اور معاشی بدحالی کی گرفت میں تھا اور پھر روس اپنی خوشخالی اور معاشی برتری کی وجہ سے خود کو چین سے بر تر سمجھتا تھا ۔ امریکہ بھی چین کی بجائے تائیوان کو فوقیت دیتا تھا۔اقوامِ متحدہ میں چین کی بجائے تائیوان کو نمائندگی حاصل تھی ۔ سچ تو یہ ہے کہ ۱۹۷۱؁ کے اوائل میں پاکستانی کاوشوں سے چین اقوامِ متحدہ میں نمائندگی کے اعزاز سے سرفراز ہواتھا۔شائد پاکستان کی یہی کاوشیں،قربانیاں اور سفارتی کوششیں پاک چین دوستی کی اصل بنیاد ہیں ۔روس یوکرین جنگ پر پاکستان ،بھارت اور چین نے روسی جارحیت کے خلاف سیکورٹی کونسل میں ووٹ نہیں ڈا لا جو ایک غیر معمولی بات ہے ۔بھارت کا ووٹ نہ ڈالنا تو سمجھ میں آتا ہے کیونکہ روس بھارت تعلقات کی ایک طویل داستان ہے۔دفاعی معاہدے، فوجی اسلحہ کی ترسیل اور بے شمار فلاحی منصوبے ان دونوں ممالک کی گہری دوستی کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔روس اور بھارت کے درمیان دس سالہ دفاعی معاہدہ کوئی معمولی بات نہیں تھی۔یہ وہی معاہدہ تھاجو مشرقی پاکستان میں ہماری شکست کی بنیادبنا تھا۔سچ تو یہ ہے کہ بھارت سب سے پہلے روس کا دوست ہے پھر امریکہ کا حلیف ہے۔امریکہ سے بھارت کی دوستی تو ابھی چند سالوں کی بات ہے جبکہ روس سے بھارتی تعلقات کئی عشروں پر محیط ہیں۔اس بات کو اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ پاکستان چین کا دوست ہے لیکن امریکہ کا حلیف ہے۔کیا ہم چین کے خلاف کسی قرار داد کا حصہ بن سکتے ہیں۔؟ بالکل نہیں کیونکہ چین سے ہماری دوستی پہاڑوں سے بلند اور سمندر سے زیادہ گہری ہے لہذا ہم چین کے خلاف کبھی کھڑے نہیں ہو سکتے اور اگر کوئی حکمران نشہ ِ طاقت میں مست ہو کر ایسا فیصلہ کرنے کی کوشش کرے گا تو قوم اس کو کچا چبا جائے گی۔ چین کی دوستی پا کستانی عوام کے دلوں میں جا گزین ہے لہذا کوئی بھی اس دوستی کو پاکستانی قوم کے دلوں سے کھرچ نہیں سکتا۔روس سے ہمارے تعلقات کبھی بھی مثالی نہیں رہے لہذا ہم جس سمت میں جانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ راہ کانٹوں سے بھری ہوئی ہے ۔ہمیں اس راہ پر سوچ سمجھ کر قدم رکھنے ہوں گے۔روس پاکستان کا نہیں بلکہ بھارت کا دوست ہے اور ہمارے پالیسی سازوں کو اس بات کو کبھی فراموش نہیں کرنا چائیے ۔امریکہ کے بارے میں کئی اتار چڑھاؤ آئے لیکن اس کے باوجود امریکہ نے پاکستان کے ساتھ وہ کچھ نہیں کیا جو روس نے ہمارے ساتھ کیا تھا۔ملکی پالیسیاں جذبات سے نہیں بلکہ حقائق کی بنیاد پر تشکیل دی جاتی ہیں اور حقیقت یہی ہے کہ روسی قیادت پر کسی بھی صورت میں بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔،۔

 

Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 515595 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.