موبائل فون ۔۔۔۔ نعمت یا زحمت؟

 اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہر نئی چیز بدعت نہیں ہوتی۔بلکہ ہر نئی ایجاد کسی نہ کسی اعتبار سے انسان کے لئے فائدہ مند ضرور ہوتی ہے لیکن دو طریقوں سے کوئی بھی فائدہ مند شئے مضربنتی ہے۔ ایک یہ کہ جس بنیادی مقصد کے لئے کسی چیز کو ایجاد کیا گیا ہو اس کے بجائے کسی دوسرے غیر ضروری مقصد کے لئے استعمال ہو جائے ۔ دوسرا نقصان دہ پہلو یہ ہے کہ اس کا ضرورت سے زیادہ استعمال ہو۔اس بات میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ اس وقت تمام انسانی معاشروں میں جس چیز کا اوسطاً اور نستباًسب سے زیادہ استعما ل ہو تا ہے وہ موبائیل فون ہی ہے۔ در اصل موبائیل فون موجودہ دور کی حیرت انگیز ایجاد ہے کہ جو سماج کے کسی بھی طبقے سے تعلق رکھنے والے ہر فردکے لئے لازمی بن گئی ہے۔ اس میں غیر معمولی کشش و جاذبیت پائی جاتی ہے اور اسے کراہت رکھنے ولا کوئی شخص اس وقت شاید ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں کچھ غیر معمولی خوبیاں بھی تو ہوں گی کہ جن کی وجہ سے یہ ہر فرد کے لئے منظور ِ نظر بن گیا ہے بلکہ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ اس کے وجود کا لازمی جز بن چکا ہے۔اس پر مستزاد یہ کہ جب سے موبائیل فون کو ترقی یافتہ شکل یعنی سمارٹ فون کی صورت میں پیش کیا گیا تب سے موبائیل فون بہت ساری کارآمد چیزوں کا مجموعہ بن گیا ہے۔ یہ مراسلات و مواصلات کا سب سے آسان ، تیز رفتار ، ہمہ پہلو ، وسیع ، اور کارآمد ذریعہ ہے۔ یہ خبر رسانی کے ساتھ ساتھ تعلیم ، تحقیق ،اور اطلاعات بہم پہچاننے کا ایک ایسا آلہ ہے جسے انسان سفر و حضر میں نہ صرف اپنے ساتھ رکھ سکتا ہے بلکہ اس کا استعمال بھی بآسانی کر سکتا ہے۔ موجودہ دور میں اسے بڑھ کرتفریح کا کوئی ایسا آلہ نہیں جسے ہر پیر و صغیر سب سے زیادہ استعمال کر تا ہو۔ یہ نہ صرف گزشتہ دور کی روایتی چیزوں کا بہترین نعمل البدل ہے بلکہ اس نے بہت سی تازہ دم ایجادات کی قدرو قیمت اور استعمال کو بھی بہت حد تک کم کیا ہے۔یہاں تک کہ اس دور کی سب سے اہم اور کثیر الاستعمال سائنسی ایجاد یعنی کمپیوٹر کی اہمیت کو بھی گھٹا دیا ہے۔ کیونکہ بہت سے ایسے کام جن کی انجام دہی کے لئے کمپیو ئٹر کی ضرورت پڑتی تھی آج بآسانی سمارٹ فون کے ذریعے کئے جا تے ہیں۔گویا سمارٹ فون نے کمپیو ٹر جیسی جاذب شئے کو بھی اپنے اندرسمو لیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس کی جاذبیت نے نہ جانے کتنوں کواپنے اندر جذب کر دیا ہے۔ وہ اس چھوٹی سی چیز کے اندر اپنی عظیم ہستی اور شخصیت کو کھو بیٹھے ہیں۔

ٓ ٓٓٓآج کل ایک بچہ پیدائش کے بعد جن چیزوں سے فوراً مانوس ہو جاتا ہے ان میں موبائل فون سرِ فہرست ہے۔یہ انسیت بہت جلد لت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔پھر اس کا موبائل کے بغیرگزارا نہیں ہوتا۔ وہ ہر وقت موبائل کی جانب لپکتا رہتا ہے۔ ذرا سی عمر بڑھ گئی تو موبائل کی ضد شروع ہو جاتی ہے۔ بچہ ہر وقت اپنے والدین سے موبائل دیکھنے کا تقاضا کرتا رہتا ہے۔ بعض بچوں کا رونا اور چُپ کرنا اسی شئے پر موقوف ہو گیا ہے۔ گویا یہ موبائل فون اب بچپن سے ہی ایک انسان کا ریموٹ کنٹرول بنتا جا رہاہے۔اور بچوں کو لبھانے کا جو ہنر والدین خصوصاً ماں کے وجود میں قدرت نے رکھا تھا موبائل فون کا سب سے پہلا وار اسی ہنر پر پڑتا ہے۔کیونکہ والدین بھی اب ہر وقت سل فون کے ذریعے ہی اپنے بچوں کو لبھانے اور منانے کا عمل انجام دیتے ہیں۔اگر یہی صورت حال جاری رہی تو بعید نہیں والدین میں یہ ہنر ناپید ہو۔بچوں کی طرززندگی میں کس قدر تبدیلی واقع ہو ئی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ موبائل فون ایجاد ہونے سے قبل اگر کہیں دو چار بچے کہیں پر جمع ہوتے تو وہ ادھم مچاتے تھے ۔ان کی اچھل کو د گو کہ بڑے بزرگوں کے لئے یک گونہ پریشانی کا باعث تو ہوتی تھی لیکن ان کی اپنی جسمانی اور نفسیاتی صحت کے لئے ان کی بے ہنگم حرکتیں ایک فطری نعمت تھی جسے موبائل فون نے ہڑپ لیا۔ اب اکثر یہ دیکھنے کو ملتا ہے اگر کہیں پرچند ایک بچے جمع ہو بھی جائیں تو وہ کسی کونے میں بیٹھ کر موبائل کے ساتھ چپک ہیں۔بچوں کی موبائل فون کے ساتھ مانوسیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ایک بھی نوالہ کھانے کا حلق سے اس وقت تک نہیں اتارتے ہیں جب تک کہ موبائل فوں کی سیکرین پر ان کی نظر نہ ہو۔نوجوانوں کا حال بھی بچوں سے مختلف نہیں ہے۔ ان کی جسمانی سرگرمیاں کافی حد تک موبائل فون کے بدولت ماند پڑھ گئیں ہیں۔ان کے کھیل کود اور دیگر جسمانی سرگرمیوں کے لئے موزون وقت بھی اب ویڈیوگیم،سوشل میڈیا،یو ٹیوب وغیرہ کے نذر ہو جاتا ہے۔

وقت کے ضیاع کا بڑاذریعہ یہی موبائل فون بن چکا ہے ۔بلا خوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت ایک انسان جس چیز پر سب سے زیادہ وقت نچھاور کرتا ہے وہ موبائل فون ہے۔جب سے اس کے ہاتھ میں یہ شئے آگئی ہے نہ جانے کتنی کار آمد چیزیں اس کے ہاتھ سے نکل گئیں۔اس نے مطالعہ کا ذوق و شوق رکھنے والے نہ جانے کتنے موبائل زدہ افراد سے کتاب چھین لی۔دوسری جانب لا تعداد طالب علم بھی اس کے جھانسے میں آکر اپنے ہدف و مقصد یعنی حصول تعلیم سے منحرف ہو گئے۔انٹر نیٹ ، شوشل میڈیا وغیرہ کا استعمال موبائل صارفین کے لئے نہایت ہی آسان ہو گیا ہے۔اس لئے جب سے موبائل فون کے ذریعہ انٹرنیٹ اور شوشل میڈیا تک رسائی ممکن ہو گئی ہے تب سے انٹرنیٹ اور سماجی رابطہ کے ویب سائٹوں پر وقت گزاری اپنے عروج تک پہنچ چکی ہے۔چونکہ یہ چیز سفر و حضر میں انسان کے دست رس میں رہتی ہے ۔ اور اس کے استعمال کے لئے کسی بھی اہتمام کی ضرورت نہیں ہے ۔ لھٰذا اس کا استعمال بھی بے حد و حساب ہوتا ہے۔سماجی رابطہ سائٹوں پر وقت گزاری کا راست نتیجہ یہ نکلا ہے ۔ کہ ان سائٹوں پر مصروف انسان کے حقیقی سماجی روابط کی بنیاد کافی حد تک کمزور ہو گئی ہے۔ وہ دور درازاور انجانے لوگوں سے سوشل میڈیا کے ذریعے رابطے میں ہیں لیکن اپنے پاس پڑوس سے بے خبر ہے۔اسے اب دور کے ڈھول ہی سہانے لگتے ہیں۔قریب کے پیغامِ مسرت یا خبرِ غم اس کے لئے کوئی معنی ہی رکھتی۔باپ کی نصیحت اور ماں کے محبت بھرے بول اس کی مصروفیت میں خلل پیدا کرتے ہیں۔
بلا شبہ موبائل اطلات اور مواد کا ایک وسیع اور آسان ذریعہ ہے ۔اس کے ذریعے کسی بھی موضوع اور عنوان کے لئے بہت سارا مواد کبھی بھی جمع کیا جا سکتا ہے۔لیکن اطلاعات کی یہ فراوانی ایک منفی اثر بھی رکھتی ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان جو چیز جدو جہد سے حاصل کرے اس کے متعلق وہ نہایت ہی حساس ہوتا ہے نیز دوران جدو جہد اور ذہنی مشق وہ اس کی تہہ تک پہنچ پانے میں کامیاب ہوتا ہے۔مثال کے طور پر موبائل اور انٹرنیٹ سے پہلے جب ایک محقق کو کسی اہم انفارمیشن کے لئے کسی کتاب کی ضرورت پڑتی تھی اور اس کتاب کو حاصل کرنے کے لئے اسے کوئی لمبا سفر کرنا پڑتا تھا تو وہ دوران سفر اسی موضوع کے بارے میں مسلسل غور و خوض کرتاتو نئے نئے زاویے اس کے ذہن میں آجاتے تھے اور موضو ع اس کے ذہن میں تب تک راسخ ہو جاتا تھا کہ جب تک اسے اس کتاب یا کسی اور مآخذ تک رسائی حاصل ہو جاتی۔برعکس اس کے موبائل کی دنیا میں ثبات و ٹھہراو کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ یہاں ہر لمحہ کئی کئی مناظر بدلتے رہتے ہیں۔ایک منظر کو آنکھ بھر دیکھا نہیں کہ دوسرا منظر سامنے آگیا۔یہی وجہ ہے یہاں ـ’’خبروں‘‘ کا انبار ہے لیکن ’’نظر ‘‘ کا ہر جانب فقدان ہے۔ بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہے کہ خبروں کے ریلے میں ’’نظر‘‘ ایک تنکے کی طرح بے اختیار بہہ نکلتی ہے۔ اور پھر اس کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا۔ یہی وجہ ہے کہ موبائل کی دنیا کے مکین سیمابی کیفیت سے دوچار ہے۔ ایسی صورت حال میں ’’ثباتِ رائے‘‘ کا فقدان ایک قدرتی امر ہے۔ سیدھی سی بات ہے اگر انسان کو کسی ایک جگہ ٹھہرنے کی اجازت نہ ہو تو وہ کہیں کا نہیں رہتا۔اسے ہر مقام کو غور سے دیکھنے اور اس کے متعلق اپنی رائے قائم کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا ہے۔ اور پھر وہ کسی نامعلوم شاعر کے اس بہترین شعر کا مصداق بن کے رہ جاتا ہے۔
سرسری تم جہاں سے گزرے
ورنہ ہر جا ،جہانِ دگر تھا۔

چنانچہ بار بار مختلف شوشل سائٹوں سے ایک موبائل صارف کو چند مخصوص آوازوں کے ذریعے اطلاعات بہم ہوتی رہتی ہے اور اسے متوجہ کرتی رہتی ہے کہ فلاں سماجی رابطہ سائٹ پر فلاں پوسٹ کے تعلق سے فلاں شخص نے اپنی پسندیدگی یا ناپسندیدگی کا اظہار کیا ۔اسے کچھ نہیں تو معتدد بار اس کا ذہن ان شوشل سائٹوں کی طرف ضرور جاتا ہے۔ اوراگر کسی عنوان یا مسئلے کے متعلق وہ محوِ غور و تفکرتھا تو اس موبائل فون کی وساطت سے بار بار اس کے فکرو خیال کا تسلسل ٹوٹ جاتا ہے۔بسا اوقات معمولی سے نوٹفکیشن کو دیکھنے کے بہانے جب سماجی میڈیا کی دنیا میں چلا جاتا ہے تو ایک عرصے کے بعد وہاں سے لوٹنے پر اس کے ہاتھ ذہنی عیاشی کے سوا کچھ بھی نہیں لگتاہے اور تو اور خیالات کی رو بھی منقطع ہوچکی ہوتی ہے۔ نتیجتاً اس کی ارتکاز ِ فکر زد پر آجاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ جو آج کل سطحیت نے ہمیں چاروں اور گھیر لیا ہے اس میں موبائل فون کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔توجہ مرکوز کرنے کا جو دورانیہ انسان میں ہوتا ہے وہ مسلسل کم ہوتا جا رہا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ موبائل ٹیکنالوجی کی زد میں آنے والاشخص ہر بدلتے لمحہ کے ساتھ کچھ اور چاہتا ہے۔ اس کے پاس زیادہ دیر تک ایک ہی منظر نامہ برداشت کرنے کی قوت ماند پڑھ چکی ہے ۔ وہ ہر وقت جلدی میں دکھائی دیتا ہے۔وقت طلب کاموں کی جانب جانے سے وہ کتراتا ہے۔ یہ سب دراصل ہر آن بدلتی موبائل کی دنیا میں زندگی بسر کر نے کا نتیجہ ہے۔کیا ان تلون مزاج لوگوں سے کوئی منضبط اور مبسوط کام کی توقع رکھی جاسکتی ہے؟حیرانگی کی بات یہ ہے کہ وہی شخص جو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر گھنٹوں مصروف رہتا ہے ہر وقت یہی کہتا دکھائی دیتا ہے کہ آج کل کے تیز رفتاری زمانے میں لمبی چوڑی تقریر سننے اور اور ذرا سی طویل تحریر پڑھنے کی فرصت کسے ہے!

جس طرح مشینوں کی ایجاد سے انسان کی جسمانی مشقت و محنت اور بدنی حرکت میں کافی حد تک کمی واقع ہو ئی ہے۔ اسی طرح کمپیوٹر علی الخصوص موبائل سے اس کی ذہنی مشق و ریاضت کو بھی بہت حد تک گھٹ گئی ہے۔ موبائل یا کمپیوٹر تک رسائی سے قبل انسان اپنے حافظے سے بہت زیادہ کام لیتا تھا۔ لیکن اب ہر چیز اس نے موبائل فون کے حوالے کر دی ہے۔اپنے تمام کوائف اور دیگر حاصل کر دہ اطلاعات اسی میں محفوظ کر نا موجودہ دور کے انسان کا شیوہ بن چکا ہے۔گویا اس کے لئے موبائل کوئی برقی آلہ (electronic device)نہیں بلکہ یہ جیب میں متبادل دماغ لئے پھرتاہے ، جس سے وہ اپنے دماغ کی نسبت بہت زیادہ کام لیتا ہے۔ آج کسی بھی شخص سے ذاتی انفارمیشن کے متعلق دریافت کیجئے تو وہ فوراً اپنے سل فون کی جانب رجوع کرے گا۔اس طرز عمل سے انسان دن بدن اسی موبائل فون کی جانب اس کی محتاجی بڑھتی جا رہی ہے۔ یقینا اطلاعات کی بہم رسانی اور تبادلۂ خیالات موبائل کے ذریعے بہت آسان ہو چکا ہے لیکن اکثر موبائل صارفین کا یہ وطیرہ ہے کہ ذہن نیشن کئے بغیر ہی اور بعض دفعہ غیرشعوری طور ہی مختلف اطلاعات اور خیالات دوسروں تک پہنچاتے رہتے ہیں۔ ایسے میں ان کی دانش و بینش پر کیا اثرات مرتب ہوں گے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ اس وقت اخلاقیات سے بھر پور باتیں، تقریریں اور تحریریں بہت تیزی کے ساتھ پھیلتی ہیں لیکن ان کا اثر نہایت ہی کم دیکھنے کو ملتا ہے؟ دراصل اس طر ح کا مواد محض ایک آلے سے دوسرے آلہ تک منتقل ہوتا ہے۔انسان اب منتقل کرنے کا بس ایک ذریعہ ہو کر رہ گیاہے ۔جبکہ مواصلات کے آلات ہی اطلاعات اور مواد کے انتقال کا ذریعہ تھے۔اس معاملے میں ایک موبائل صارف کی مثال اس پائپ لائن کی سی ہے کہ جو پوری بستی کو سیرآب کرتی تو ہے لیکن خود ایک بوند پانی تک نہیں پیتی۔سیدھی سی بات ہے جب ذریعہ، ہدف اور ہدف، ذریعہ کی جگہ لے لے تو نتائج منفی ہی برآمد ہوں گے۔

اخلاقی بگاڑ کی بات کریں تو فحاشیت سب سے پہلے سینہ ٹھوک کر سامنے آجاتی ہے۔ موجودہ دور میں شرم و حیاء کو تارتار کرنے اور فحاشیت کو فروغ دینے میں سمارٹ فون کا اہم کردار ہے۔ کم سنی میں ہی ایک بچہ ایسے فحش مناظر غیر ارادی طور ہی سہی دیکھ لیتا ہے کہ جو اس کی جنسی حس کوقبل از وقت ہی بیدار کر تے ہیں۔اور پھر جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے سے قبل ہی ان مناظر سے اس کا باطن و ظاہر پوری طرح آلودہ ہوجاتا ہے۔ ان فحش مناظر کے سبب وہ ایک قسم کے جنسی ہیجان میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ یہ جنسی ہیجان اسے مخالف جنس سے روابط استوار کرنے پر اکساتا ہے۔ اور یہاں بھی موبائل فون ہی اس کی اس خواہش کو پورا کرنے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔دیکھا جائے تو نوجوانوں کی بے راہروی میں اس وقت موبائل فون کا کافی زیادہ عمل دخل ہے۔
 

Fida Hussain
About the Author: Fida Hussain Read More Articles by Fida Hussain: 55 Articles with 61216 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.