آج موسم بہت خوشبودار تھا،عائشہ نے جب باہر پودوں کو پانی
دینے کے لئے گیٹ کھولا تو ٹھنڈی ہوا کے ساتھ کچھ پھولوں کی پتیاں بھی اس پر
آن گریں
"ماما ،لگتا ہے آج بارش ہوگی" اس نے آواز لگائی۔
"اللہ کرے ،ہوجاۓ بارش "ماما نے جواباً کہا۔
یہ ملک ترکی میں استنبول کا مضافات تھا جہاں یہ پاکستانی خاندان ایک سال
قبل آکر آباد ہوا تھا ۔ عائشہ کی کچھ کالج فیلوز آج افطار پہ مدعو تھیں،اس
لئے ماں بیٹی آنے والے مہمانوں کی ضیافت کے انتظام میں مصروف تھیں۔
گیٹ بیل کی آواز سنتے ساتھ ہی عائشہ نے گیٹ کھولا اور اب ڈرائنگ روم سب
لڑکیوں کی چہچہاتی آوازوں سے گونج رہا تھا۔ماما نے ٹیبل سجادی اور اذان کی
آواز سنتے ساتھ ہی سب افطاری کرنے لگے پھر نماز کے لئے خوب صورت جاۓ نمازیں
بچھ گئیں۔نماز کے بعد گفتگو کا اگلا موضوع"عید" تھا۔ عائشہ نےاپنی سہیلیوں
سے سوال کیا کہ وہ عید کی نماز کہاں ادا کریں گی؟"آیا صوفیہ میں"وہ چاروں
اکٹھی بول پڑیںاور پھر ہنس دیں۔
"ہمم،لیکن یہ بتاؤ کہ کیا پہلے یہاں چرچ تھا ،پھر اسے مسجد بنادیا گیا؟
عائشہ نے پوچھا۔
ھنیاء کہنے لگی،"جب سلطان محمد فاتح یہاں آیا تو اس نے اس چرچ کو خرید کر
مسجد کی شکل دے دی، پھر صدیوں بعد صدر رجب طیب اردوان نے اسے دوبارہ مسجد
کی حیثیت میں بحال کرنے کا اعلان کیا تھا".
شیماء بالکل خاموش تھی،شیماء کا خاندان جنگ زدہ ملک شام سے ہجرت کرکے ترکی
میں آباد ہوا تھا۔
ھنیاء نے پوچھا،"کیا بات ہے شیماء ؟"
"میری کچھ کزنز ، مہاجرین کے کیمپ میں ہیں ،چھ، یتیم بہنیں، مجھے ان کے لئے
عید کے کپڑوں کا انتظام کرنا ہے "شیماء نے دکھ سے کہا۔
" اوہو ، آپ فکر نہ کریں ،" عائشہ نے پرجوش انداز سے کہا ۔
" یتیم کی پرورش کرنے والے کو نبی کریم ص کی رفاقت نصیب ہوگی تواس بار ہم
اپنے لئے عید کے جوڑے لینے کی بجائے ان یتیم بچیوں کی ضرورت کا سامان
خریدیں گے !" اور شیماء کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔
#
|