بچوں کے حقوق‘ ریاستی ادارے خود ہی پامالی میں مصروف عمل
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
ہر وہ شخص جس کی عمر اٹھارہ سا ل سے کم ہوخواہ وہ لڑکا ہو یا لڑکی‘ اسے بچہ بھی جانا جائیگا اور اس کے ساتھ عام زندگی سمیت قانونی طورپر بچے کی حیثیت سے ٹریٹ کیا جائیگا یہ وہ بنیادی نکتہ ہے جسے چائلڈ لیبر کے طور پر کام کرنے والے مختلف غیر سرکاری تنظیمیں لوگوں کو سمجھانے کیلئے کوشاں ہیں‘ جس کیلئے مختلف سطح پر آگاہی مہم سمیت تربیتی سیمینار و رکشاپ بھی کروائے جارہے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے اس دور میں ریاستی ادارے سمیت مختلف سیاسی پارٹیاں ان بچوں کے حقوق کی پامالی میں مصروف عمل ہیں. جس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے. قانون پر قانو ن بن رہے ہیں لیکن ہر کوئی اس قانون کو اپنی طرف موڑ کر اپنے لئے راستہ نکالنے کی چکروں میں مصروف عمل ہیں.
انٹرنیشنل لیبر فیڈریشن سمیت پاکستان کی سطح پر چائلڈ لیبر اور چائلڈ پروٹیکشن کیلئے کام کرنے والے اداروں کی بدقسمتی یہی ہے کہ پاکستان میں چائلڈ لیبر کے قوانین بھی تضاد کا شکار ہیں‘ پاکستان کے آئین میں بچوں کے حقوق کیلئے کوئی خاص قانون نہیں‘ تعلیم کے حوالے سے سیکشن تو موجود ہے کہ تعلیم دینا ریاست کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک لازمی شرط ہے لیکن اس پر عملدرآمد کون کروائے یہ وہ چیزہے جس پر خاموشی ہیں‘ آئی ایل او کی طرف سے چائلڈ لیبر کے خاتمے کیلئے کئے جانیوالے عالمی معاہدوں پر حکومت پاکستان نے دستخط تو کئے ہیں اور کسی حد تک مخصوص صوبوں میں قانون سازی بھی ہوئی ہے مگر یہ بھی برائے نام ہی ہے.ملکی قوانین میں بچوں کی عمریں کہیں پر چودہ سال ہے تو کہیں پر سولہ سال‘ قومی سطح پر بننے والے قوانین میں اگر کہیں پر چائلڈ لیبر کیلئے عمر پندرہ سال مقرر کی گئی ہے تو مزے کی بات ہے کہ پنجاب میں اگر قانون بنا ہے تو سندھ‘ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں اس معاملے میں پرخاموشی چھائی ہوئی ہیں اور کسی کو اس بارے میں معلومات بھی نہیں.
ابھی تک کسی بھی صوبے کے لیبر ڈیپارٹمنٹ جانب سے کوئی ریکارڈ مہیا نہیں کیا گیا‘ نہ ہی کوئی سروے کا اہتمام کیا گیا کہ کونسی صنعت میں کتنی عمر کے بچے ہیں اور کتنی عمر کے بچیاں چائلڈ لیبر کے طور پر کام کررہی ہیں‘ بھٹہ خشت آج بھی شہر کے مختلف علاقوں میں چل رہے ہیں جہاں پر غلامی کی سی زندگی گزارنے والے خاندان خصوصا بچے کام کررہے ہیں ان کی صحت مندانہ سرگرمیاں کیا ہے‘ کیا ان کی ذہنی و اخلاقی نشوونما قانون کے مطابق ہورہی ہیں یا صرف ریاستی ادارے وقت پورا کررہے ہیں
اقوام متحدہ کے بچوں کے حقوق کے حوالے سے عالمی معاہدہ 1989 کے مطابق یہ ممبر ممالک کی ذمہ داری ہے کہ بچوں کی تنظیم سازی کرے‘ اور اس حوالے سے انہیں سہولیات فراہم کرے‘ سوائے چند تنظیموں کے اس بارے میں پورے پاکستان خصوصا خیبر پختونخواہ میں مکمل طور پر خاموشی ہیں. اسی طرح بچوں کے کھیلنے کے مواقع دینا بھی ریاست کی اہم ترین ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری ہے لیکن کیا ریاستی ادارے یہ ذمہ داریاں پوری کررہی ہیں جواب نا ں میں ہی ہے‘ ابھی تک کسی سے ریاستی ادارے نے یہ دیکھنے کی زحمت گوارہ کی ہے کہ پشاور سمیت صوبے میں کتنے ایسے سکول ہیں جن کے پاس کھیلنے کے میدان تک نہیں‘ نہ ہی سرکار کی طرف سے بنائے جانیوالے سکولوں میں کھیلنے کیلئے میدان موجود ہیں نہ ہی پرائیویٹ سکولوں میں ایسی کوئی سہولت میسر ہے‘ ہاں ایلیٹ کلاس کے بچوں کیلئے کھیلنے کی جگہیں بھی ہیں‘ بڑے بڑے سکولز ہیں لیکن وہاں پر عام بچے جا نے کا سوچ بھی نہیں سکتے‘ اسی طرح کھیلوں کے میدان جو اب مختلف پارکوں میں تبدیل ہو چکے ہیں یا بڑے بڑے سٹیڈیم بن چکے ہیں وہاں پر بغیر ممبرشپ فیس کے داخلے کا تصور بھی ناممکن ہی ہے کیا ہماری اپنی ریاست‘ قوانین اقوام متحدہ کے قوانین کے نفی نہیں کررہے.یہ وہ سوال ہیں جس پر صوبائی اسمبلی سمیت پارلیمنٹ میں بیٹھے قانون سازوں‘ اور منبر و مسجد پر بیٹھے مذہب رہنماؤں و علماء کو اپنے آپ سے کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ آج کے بچے کل کا مستقبل ہے.
بچوں کے روزگار کے حوالے سے آئی ایل آو نے جو کنونشن1973 پاس کیا ہے اس کی شق 138 کے تحت کم سے کم عمر پندرہ سال ہے تاہم یہ کام بھی لائٹ ہوں تبھی وہ کرسکتے ہیں جبکہ پینتیس ایسے شعبے جو خطرناک ہیں میں بچوں کے کام کرنے پر پابندی ہے لائٹ ورک سے مراد وہ کام جس کا دورانیہ بھی کم ہو‘ اور اس سے بچے کی ذہنی‘ جسمانی و تعلیمی سرگرمیاں بھی متاثر نہ ہوں لیکن اپنے ارد گرد دیکھ لیں ہمارے ہاں بچوں سے کون سے کام نہیں لئے جارہے کیا لائٹ اور کیا خطرناک‘ ٹھیک ہے کہ پاکستان ایک غریب ملک ملک ہے لیکن کیا اس طریقے سے ہم اپنی غربت ختم کرسکتے ہیں.اس وقت پشاور سمیت صوبے کے تمام بڑے بڑے شہروں میں کام کیلئے غریب گھروں سے لائے جانیوالے کتنے بچے اوربچیاں ہیں جنہیں ان کے والدین نے صرف چند ہزار کے عوض ان خاندانوں کے پاس گروی رکھا ہوا ہے‘ اسلام آباد میں جج کے گھر میں تشدد کا شکا ر ہونیوالا کیس صرف ایک نہیں اس طرح کے ہزاروں بچیاں ایلیٹ کلاس میں برتن دھونے سے لیکر استری کرنے اور اس طرح کی متعدد کام کررہی ہیں جہاں پر انہیں نہ صرف ذہنی طور پر بلکہ جسمانی طور پر بھی تشدد اور ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن ان چیزوں کو رپورٹ کرنے والا کوئی نہیں‘ نہ ہی کسی ریاستی ادارے کے پاس کوئی ریکارڈ موجود ہیں کہ دوسروں کے گھروں میں کام کرنے والے نوعمر بچوں اور بچیوں سے کس حد تک کام لیا جاتا ہے‘ انہیں ادائیگیاں کس طرح سے کی جاتی ہیں اور ان کی تعداد کتنی ہیں.فیکٹریوں میں ہر کوئی داخل ہو کر رپورٹ بنا سکتا ہے‘ کیا لیبر انسپکٹر اور کیا صحافی‘ لیکن ان گھروں میں کام کرنے والے ان کم عمر بچوں کی حیثیت کیا ہے جو کسی بھی معاملے میں اپنا تحفظ نہیں کرسکتے اور ریاست بھی اس سارے معاملے میں سوتیلی ماں جیسا سلو ک کررہی ہیں.
سب سے افسوسناک اور خطرناک بات یہ ہے کہ ان تمام معاملات کے باوجود بھی حکومتی سطح پر ان بچوں کیساتھ وہ سلوک نہیں کیا جاتاجس کا حق نہ صرف بین الاقوامی بلکہ ملکی قوانین نے انہیں دیا ہے‘ آج کل کے سوشل میڈیا کے دور میں سب سے زیادہ بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی پولیس اور دیگر ادارے ہی کررہے ہیں‘کتنے ہی کم عمر بچے ہیں جنہوں نے غلطی کا ارتکاب کیا‘ ان کی تصاویر سوشل میڈیا پر حکومتی اداروں میں بیٹھے افراد نے جاری کردی‘ ٹھیک ہے کہ ون وویلنگ کرنا‘ بغیر ہیلمنٹ کے ڈرائیونگ کرنا جرم ہے اسی طرح غلطی سے سے بچوں کی جانب سے اسلحے کی نمائش یا پھر کسی جذباتی معاملے میں گالی گلوچ کی صورت میں انکی تصاویر سوشل میڈیا پر ڈالکر انہیں ریاستی ادارے بدنام نہیں کررہے حالانکہ یہ بنیادی قانون ہے کہ کسی بھی بچے کو‘ جس کی عمر اٹھارہ سال سے کم ہو اس کے جرم کے باوجود مستقبل میں کسی ملازمت سے نہیں روکا جاسکتا لیکن کیا سوشل میڈیا پر چلنے والے ان کلپس اور ویڈیو کی بنیاد پر کوئی ان بچوں کو مستقبل میں روزگار دے گا.. اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کیلئے ہر وہ کام جس میں ان کی ذہنی نشونما‘ جسمانی اور اخلاقی نشو نما نہ ہو پر پابندی ہے‘ اس قانون کے ہوتے ہوئے کیا کوئی یہ سوچ سکتا ہے کہ آج سوشل میڈیا کے دور میں بڑی بڑی سیاسی شخصیات سمیت سیاسی پارٹیو ں نے اپنی پارٹیوں کے مخصوص سلوگن کو پروموٹ کرنے کیلئے کم عمر بچوں کا انتخاب ہے‘ پندرہ سے بیس ہزار روپے کے عوض مختلف پیجز کے ایڈمن‘ ایڈیٹر کے اختیارات دیکر ان بچوں کی برین واشنگ کرکے اپنے مقاصد کیلئے انہیں استعمال کیا جارہا ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ سوشل میڈیا کے اس دور میں پیدا ہونیوالے یہ بچے دیگر لوگوں کے مقابلے میں سوشل میڈیا پر زیادہ بہتر سمجھتے ہیں اور ان کی یہ مہارت یہ سیاسی پارٹیاں اپنے مقاصد کیلئے استعمال کررہی ہیں لیکن ساتھ میں مخصوص ذہن سازی بھی کی جارہی ہیں.یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر آج کل کم عمر بچے سب سے زیادہ گالم گلوچ اوربرداشت نہ ہونے کے باعث مختلف مسائل کا شکار ہورہے ہیں.
سب سے مزے کی بات تو یہ ہے کہ ان چیزوں کی طرف ابھی تک کسی بھی ریاستی ادارے کی توجہ نہیں‘ نہ ہی اس کی روک تھام کیلئے کوئی قانون سازی ہورہی ہیں‘ ان سب معاملات کو دیکھتے ہوئے کیا ہم نہیں سکتے کہ اگر یہی صورتحال رہی تو آنیوالے وقتوں میں ملکی سطح پر بچوں کے حقوق کے حوالے سے ہمیں پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ اب تک حکومت کی جانب سے جمع کی جانیوالی اقوام متحدہ کی رپورٹس پر مسلسل سوالات کا ہمیں سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ان معاملات میں سنجیدگی تاحال دیکھنے میں نہیں آرہی جو قانون سازی کی حد سے لیکر اس پر عملدرآمد تک شامل ہیں.
|