نشیئی افراد کے سنٹر‘پیدا گیری کانیادھندا اور قانونی حیثیت



ہمارے معاشرے میں لوگ آرام اور سکون کے اتنے طلبگار ہیں کہ اس کے حصول کیلئے نشہ اور اشیاء کا استعمال ایک عام سی بات ہوگئی ہیں کیا چھوٹے کیا بڑے اورکیا مرد و خواتین‘ زندگی کا ایسا کوئی شعبہ نہیں جہاں پر شہری نشہ آور اشیاء کا استعمال نہ کرتے ہوں‘ ایک زمانے میں سگریٹ اور نسوار نشے کیلئے استعمال کرتے تھے پھر ترقی کرتے کرتے چرس اور ہیروئن کی طرف بڑھ گئے کچھ لوگ نشہ اور ادویات کا استعمال کرنے لگے جبکہ موجودہ دور میں آئس کا نشہ ایک عام سی بات ہوگئی ہیں‘ بڑے بڑے نامور افراد جس میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں اپنی بدبختی کے سبب اس گندے نشے کا شکار ہوگئے ہیں اور ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے شہر کے مختلف علاقوں میں کھلے عام بیچے چانیوالے آئس و دیگر منشیا ت کی طرف پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نظریں اتنی نہیں جسکے باعث یہ خطرناک وباء اب خطرناک صورتحال اختیار کرتا جارہا ہے. اسی نشے کے شکار افراد کے جرائم میں ملوث ہونے کے تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے لیکن اس پر توجہ کوئی نہیں دے رہا.

پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس کی روک تھام کیلئے کیا اقدامات کرتے ہیں یہ الگ بات ہے اور اس پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے اور لکھا جا چکا ہے لیکن اس نشے کے شکار افراد کو معمول کی زندگی کے طرف لانے کیلئے جو ری ہیبلٹیشن کے نام پر سنٹرز قائم کئے جارہے ہیں اور اس کی مد میں غریب والدین اور مجبور شہریوں سے جو وصولیاں کی جارہی ہیں وہ ابھی تک عام لوگوں کیساتھ ساتھ محکمہ صحت‘ سیکورٹی اداروں سے چھپی ہیں جس کی وجہ سے اب یہ کاروبار بن رہا ہے جس کی روک تھام کیلئے اگر بروقت قانون سازی اور اقدامات نہ اٹھائے گئے تو یقینا اس کے خطرناک اثرات ہمارے معاشرے پر مرتب ہونگے.

پشاور سمیت ملک کے دیگر بڑے شہروں میں دیوار وں سمیت اخبارات میں اشتہارات آرہے ہیں کہ نشے کے عادی افراد کیلئے ری ہیبلٹیشن سنٹر قائم کئے جارہے ہیں‘ لیکن یہ سنٹرز کس قانون کے تحت بن رہے ہیں اس بارے میں مکمل طور پر خاموشی ہیں.فلاحی کاموں کے نام پر کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے جن میں بیشتر رجسٹرڈ بھی نہیں نے اپنی دکانداری چمکاتے ہوئے ری ہیبلٹیشن سنٹر قائم کردئیے ہیں نہ تو یہ سنٹرز متعلقہ تھانوں کے پاس رجسٹرڈ ہیں‘ نہ ہی سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کیساتھ‘ نہ ہی محکمہ صحت کے ہیلتھ ریگولٹیری اتھارٹی کو اس بارے میں کچھ معلوم ہیں.کہ کتنے سنٹرز اس وقت شہر میں کام کررہے ہیں‘ پشاور میں اس وقت کم و بیش اٹھارہ کے قریب مراکز مختلف علاقوں میں کام کررہے ہیں لیکن..

مزے کی بات یہی ہے کہ ان مراکز کے قیام کیلئے بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں کی جارہی‘ نشے کے عادی افراد کو عام لوگوں کی طرف لانے کیلئے صحت مندان سرگرمیاں ضروری ہوتی ہیں ان سنٹرز میں نہ تو چمن موجود ہیں بس کمرے ہی کمرے ہیں‘ لیکن ایسے کمرے ہیں جہاں پرآکر لگتا ہے کہ جیسے کسی قیدی کو لاکر ڈالا جاتا ہوں‘ ایک ایک کمرے میں آٹھ سے دس افراد‘ جن کا علاج بھی تشدد سے ہو‘ علاج کیلئے لانے والے افراد کا ڈیٹا بھی کسی کے پاس نہیں کہ کب سے متعلقہ نشئی نشہ کررہا ہے‘ وجوہات جاننے کی کوئی کوشش نہیں کررہا‘ نہ ہی اس بارے میں کوئی ڈیٹا لکھا جارہا ہے‘ آٹھ کمروں کے ری ہیبلٹیشن ک نام پر بننے والے ان سنٹرز میں ایک سو کے قریب افراد کو رکھا جاتا ہے‘ مزے کی بات یہ ہے کہ ان افراد کی سیکورٹی کیلئے کوئی اہلکار نہیں‘ نہ ہی ان کے کھانے پینے کی فراہمی کیلئے کوئی کک‘ یا میس ہے‘ بس جس نشئی کو کسی نے داْخل کردیا‘ اس کے رشتہ داروں یا لانے والے افراد سے تیس سے پچاس ہزار روپے وصول کئے گئے. لانے والے شخص کا کوئی ٹیسٹ نہیں کیا جاتا کہ ری ہیبلٹیشن سنٹر میں لانے والا شخص کس نشے کا رسیا ہے‘ کہنے کو تو یہ بتایا جاتا ہے کہ ان افراد کے ٹیسٹ کروائے جاتے ہیں لیکن یہ ٹیسٹ کروانے والے کون ہیں‘ اور کونسی لیبارٹری سے ان کی تشخیص کرائی جاتی ہیں اس بارے میں خاموشی ہیں.

خودرو گھاس کی طرح مسلسل بڑھنے والے ان ری ہیبلٹیشن سنٹرز کے مالکان کا ڈیٹا کسی کے پاس نہیں‘ بعض اگر سنٹرز اگر رجسٹرڈ ہیں تو سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کے پاس 1961 کے ایک پرانے قانون کے تحت‘ پولیس ویریفیکیشن کا عمل نہیں‘ کہ دیکھا جائے کہ سنٹرز کھولنے والا کون ہے‘ کیا اس کے پاس کوالیفائیڈ سٹاف ہے یازیر تربیت نرسز اور ہیلتھ سنٹرز میں انجکشن کی تربیت حاصل کرنے والے افراد ڈاکٹرز ہیں‘ بعض ایسے سنٹر ہیں جنہوں نے برانچ پر برانچ کھول رکھے ہیں اور ایک ہی سنٹر کے دستاویز دکھا کر لوگو ں کو بے قوف بنا رہے ہیں. ان سنٹرز میں لائے جانے افراد کو اگر لایا جاتا ہے تو لازما ان افراد کے جیبوں میں آئس‘ ہیروئن‘ چرس اور دیگر نشہ اور اشیاء ہوتی ہیں‘ یہ چیزیں کہاں پر جاتی ہیں کوئی ریکارڈ ہی نہیں‘ کیا ان سنٹرز کے مالکان یہ چیزیں اپنے لئے بیچتے ہیں یا پھر کہیں گراتے ہیں اس بارے میں مکمل طور پر خاموشی ہیں. نشے کے استعمال کے عادی افراد کو علاج کیلئے لانے والے افراد سے فارم پر لکھ کر دستخط لی جاتی ہیں کہ اگرلانے والا نشی مر گیا تو اس کی ذمہ داری کسی پر نہیں ہوگی‘.ان سنٹرز کی طرف سے جاری ہونیوالے ان فارم کی قانونی حیثیت کیا ہے‘ کیا تشدد کے ذریعے نشہ آور چیزوں کے استعمال سے لوگوں کو روکا جاسکتا ہے.

نشہ بیماری ہے یا عادت‘ یہ وہ بنیادی سوال ہیں جس کے بارے میں نشے کے عادی افراد کے بحالی کے سنٹرز کے کرتا دھرتا کچھ نہیں جانتے‘ خوراک اور سیکورٹی کیلئے ان نشئی افراد کو استعمال کیا جاتا ہے جنہیں ان کا من پسند نشہ دیا جاتا ہے تاکہ یہ لوگ دوسرے افراد کیلئے کھانا تیار کرسکیں‘ ان میں آئس جیسے خطرناک نشے سمیت چرس و ہیروئن کے عادی کک اور سیکورٹی اہلکار بھی ہیں جنہیں ان کے رشتہ دار علاج کیلئے ان سنٹرز میں لائے ہیں مگر انتظامیہ ان سے یہ کام لے رہی ہیں کیونکہ دس سے بارہ ہزار میں کوئی کام کرنے کو تیار نہیں‘ سب سے مزے کی بات یہی ہے کہ آئس‘ ہیروئن‘ چرس سمیت میڈیسن نشہ کے طور پر استعمال کرنے والوں کا ایک ہی علاج ہے‘ ڈنڈا اور تشدد‘ اوراگر کوئی ماہر کہیں پر علاج بھی کررہا ہے تو وہ وہ حال حال ہی ہے‘ ذہنی طور پر ان افراد میں معاشرے کا مفید شہری بنانے کیلئے کوئی سائیکاٹرسٹ کہیں پر بھی نہیں.

پشاور سمیت صوبے کے مختلف علاقوں میں قائم ان سنٹرز میں سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب کا کوئی سسٹم نہیں‘ کہ پتہ چل سکے کہ کون آرہا ہے‘ کون جارہا ہے‘ اسی طرح یہ بھی ایک عام سی روش ہے کہ ان سنٹرز میں لانے والے افراد کے بارے میں پولیس سے کسی قسم کا ریکارڈ نہیں دیکھا جاتا کہ سنٹر میں لانے والا شخص کسی کریمنل ریکارڈ کا حامل تو نہیں‘ بس ان سنٹرز کو چلانے والے افراد کو رقم کی ضرورت ہے جو کوئی بھی اداکرکے یہاں پر آسکتا ہے‘ کیا کوئی شخص قتل کرکے‘ بینک میں ڈکیتی کرکے ان سنٹر میں نشئی کے نام پر داخل نہیں ہوسکتا‘ کیوں نہیں‘ کیونکہ ریکارڈ تو کسی کے پاس نہیں‘ یعنی اگر کوئی شخص جرم کرکے اپنا موبائل آف کرکے ان سنٹرز میں علاج کے نام پر داخل ہوں اورتین ماہ بعد نکل آئے تو کسی کو یاد بھی نہیں ہوگا کہ متعلقہ شخص کہاں پر روپوش ہوگا. پولیس والے بھی ان سنٹرزکی طرف سے خاموش ہیں.

ان حالات میں سب سے بڑی ذمہ داری پولیس سمیت انٹی نارکاٹکس فورس کی بنتی ہے جو نشہ اور چیزوں کی روک تھام کیلئے کوشاں ہیں جو نہ صرف ان سنٹرز میں علاج کیلئے لانے والے افراد کا ریکارڈطلب کرکے چیک کرے بلکہ یہ بھی دیکھیں کہ ان افراد کا علاج کرنے والے افراد کون ہیں‘ ان سے برآمد ہونیوالی نشہ اور چیزیں کہاں پر جارہی ہیں‘ اور کیا ان سنٹرز میں علاج کے نام پررہائش پذیر افراد کسی قسم کے کریمنل‘ منشیات فروشی کے کیسوں میں مطلوب تو نہیں‘ اسی کے ساتھ ساتھ صوبائی ہیلتھ ریگولیٹری اتھارٹی کے کرتا دھرتاؤں کو اپنے دفاتر سے نکلنے کی ضرورت ہے کہ جا کر دیکھ لیں کہ ان سنٹرز میں کام کرنے والے کیا قانونی طور پر کام کرنے کے قابل بھی ہے یا نہیں یا صرف سفید کوٹ پہن کر عطائی سے ڈاکٹر بنے ہیں‘ ان کے پاس کونسی لیبارٹریاں ہیں جن کی رجسٹریشن بھی ضروری ہے ساتھ میں یہ دیکھنے کی بھی کہ کس نشے کے عادی افراد کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے‘ کیا آئس کا نشہ بڑھ رہا ہے‘ کیا ہیروئن اور کیا چرس‘ ساتھ میں کس عمر کے لوگ نشے کا شکار ہورہے ہیں‘ ان میں معاشرے کی کتنی غلطیاں ہیں‘ انفرادی طور پر خاندان کے افراد کی کتنی غلطیاں ہیں اور سب سے بڑھ کر کہ نشہ کرنے والے افراد میں کس کلاس کے لوگ بڑھ رہے ہیں انہیں کس طرح سے نشہ فراہم کیا جاتا ہے.یہ وہ چیزیں ہیں جس کی طرف اگر توجہ دی جائے تو نہ صرف ری ہیبلٹیشن سنٹرز کے نام پر بننے والے اس کاروبار کو قانونی حیثیت دی جاسکتی ہیں بلکہ اس کے باعث منشیات کا کاروبار کرنے والے افراد کے خلاف بھی کارروائی کی جاسکتی ہیں.


Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 637 Articles with 499495 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More