نور مقدم کو انصاف مل سکتا ہے تو میرے بیٹے کو کیوں نہیں؟ ایک مظلوم کی ماں کا معاشرے کے لوگوں سے سوال

image
 
کوئی بھی معاشرہ اسی وقت ترقی کر سکتا ہے جب کہ اس میں انصاف کا ایسا نظام قائم ہو جو کہ امیر اور غریب دونوں کے لیے یکساں ہو۔ جس معاشرے میں طاقتور کے لیے علیحدہ نظام ہو اور کمزور کے لیے جدا ہو ایسے معاشرے کی بنیادیں کمزور ہو جاتی ہیں اور ایسا ہی کچھ ان دنوں ہمارے معاشرے میں ہو رہا ہے-
 
گزشتہ سال کی عید کے بعد کا وقت ایک ماں کے لیے اس وجہ سے بہت ساری بری یادوں سے جڑا ہے کہ اس وقت میں اس نے اپنے اس بیٹے کو کھو دیا جس کو اگرچہ اس نے اپنے بطن سے جنم نہیں دیا تھا مگر چار سال کی عمر سے اس یتیم بچے کو اس نے ایک ماں ہی کی طرح پالا تھا-
 
احسان نامی ایک نوجوان کا سب سے بڑا قصور یہ تھا کہ وہ ایک غریب عام انسان تھا وہ نور مقدم کی طرح کسی سفارتکار کا بیٹا نہیں تھا۔ اس کے قتل کی آواز اٹھانے کے لیے میڈیا اور شوبز کے بڑے بڑے نام پوسٹ کارڈ اور بینر لے کر گھروں سے نہیں نکلے- یہی وجہ ہے کہ آج دس ماہ گزرنے کے باوجود بھی اس کے قاتل کھلے عام پھر رہے ہیں اور قبر میں احسان کی لاش انصاف کے لیے منتظر ہے-
 
image
 
احسان 25 سالہ ایک نوجوان جس نے گزشتہ رمضان اعتکاف بھی کیا اور عید کے بعد اپنے گاؤں صادق آباد میں اپنی کزن سے ملنے کے لیے گیا جس سے وہ شادی کا خواہشمند تھا۔ اس کی کزن بھی اس سے شادی کے لیے تیار تھی مگر احسان ایک غریب یتیم بچہ تھا جب کہ اس کی کزن علاقے کے طاقتور سیاسی اثر وسوخ رکھنے والے باپ کی بیٹی تھی-
 
خاندان والوں کو ان کی یہ محبت اور شادی قبول نہ تھی جس وجہ سے خاندان کے ایک جرگے میں ان دونوں کے قتل کا فیصلہ کر لیا گیا اور اس کے بعد ان دونوں کو ایک کمرے میں بند کر کے بے رحمی سے نہ صرف قتل کر دیا گیا بلکہ مارنے کے بعد ان کی لاشوں کو نہر میں ڈال دیا گیا- جہاں سے ریسکیو والوں نے ان کی لاشوں کو نکال کر پولیس نے لڑکی کے باپ اور خاندان والوں کے خلاف ان کے قتل کا پرچہ بھی کاٹ دیا-
 
مگر احسان جو کہ ایک یتیم بچہ تھا اس کے اس مقدمے کے پیچھے کھڑے ہونے کے لیے اس کی منہ بولی ماں کے علاوہ کوئی اور نہ تھا جس نے اپنے ویڈيو پیغام میں بتایا کہ مرنے سے قبل اس نے اپنی اس ماں کے نام ایک اسٹیٹس لگایا- جس میں اس کا یہ کہنا تھا کہ آپ صرف میری ماں نہیں بلکہ میری بہن بھائی دوست سب کچھ ہیں- اس ماں کا یہ کہنا تھا کہ جب نور مقدم کیس کا فیصلہ عدالتیں صرف چھ ماہ میں کر کے ظاہر جعفر کو چھ ماہ میں پھانسی کی سزا سنا سکتی ہیں تو آج دس ماہ گزرنے کے باوجود احسان کے قاتل کیوں سزا نہیں پا سکے ہیں-
 
image
 
انہوں نے اس بات کا بھی عندیہ دیا کہ اگر ان کو انصاف نہ ملا تو وہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی تحریک کا آغاز کریں گی اور احسان اور اس کی کزن کے دوہرے قتل کے مرتکب افراد کو سزا دلوانے کے لیے ہر ہر جگہ جا کر انصاف کی بھیک مانگیں گی تاکہ ان کو انصاف مل سکے-
YOU MAY ALSO LIKE: