آج کل نیوز چینلز پر مشہور ہونے والی دعا کی خبر نے تمام
والدین کو پریشانی سے دوچار کر رکھا ہے ۔
اور سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ لکیر کے فقیر کی طرح سب چینلز نے اس بارے
میں رائے لینے کے لیے ماہرین کو یوں جمع کیا جیسے یہ ایک ایسا موضوع ہے جس
پر بات کر نا اس کی چرچا کرناعین ثواب کا کام ہے ۔
تمام حقائق ایک طرف ایک مسلم ملک کی مسلم شہری ہونے کے ناطے یہ یاد دہانی
کروانہ میرا حق ہے کہ ہمارہ مذہب ایسی باتوں کا چرچا کرنے کا حکم نہیں دیتا
۔ بلکہ پردہ ڈالنے کادرس دیتا ہے ۔ اور پھر ہمارے معاشرے میں تو یہ مانا
جاتا ہے کہ بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں ۔ تو ان معاملات کا اچھالنا سخت
نا مناسب ہے ۔
پھر ایک بات جو ہر ماہر ضرور فرما رہے ہیں کہ ماں باپ تربیت پر زور دیں ۔
بہت معذرت کے ساتھ میں نہ تو کوئی اعلٰی تجزیہ نگار ہوں نہ ہی کوئی بہت
پہنچی ہوئی شخصیت ہو ں پر میرا ماننا ہے کہ والدین کو یہ بتانے کی ضرورت
نہیں ہوتی کہ اپنے بچوں کی تربیت کیسے کریں ۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کوئی بھی ماں باپ اپنے بچوں کو غلط تربیت نہیں دیتے۔
اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق وہ اپنا best اپنی اولاد کو سیکھا رہے ہوتے ہیں۔
آج کل کے بچے سیکھنے کے لیے صرف ماں باپ کے در کے محتاج نہیں ہیں اور بھی
بہت سے ذریعے ہیں جو ماں باپ کے سکھائے گئے سبق کو آگ لگانے میں پیش پیش
ہیں
۔ اس میں سب سے اہم ٹیلی وژن کے مختلف چینلز پر چلائے جانے والے ڈرامے ہیں
۔ والدین بچوں کو ان جدید تفریحی سہولیات سے محروم نہیں رکھ سکتے ۔
ذیادہ تر ڈراموں میں عشق و معشوقی کی داستانوں کو اس طرح دکھایا جاتا ہے کہ
کم عمر بچے بچیاں ان راستوں پر چلنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔
کیا معاشرے میں مثبت رول ادا کرنے کی غرض سے ٹی وی چینلز کا فرض نہیں کہ
مذہب ،معاشرے اور روایت کے دائرے میں رہتے ہوے اور تربیتی پہلو کو مدِنظر
رکھ کر تفریحی مواد پیش کیا جا ہے ۔
کیا ایسا کوئی قانون نہیں جو نئی نسل کو برباد کرنے کے جرم میں ان ٹی وی
چینلز پر بھی لاگو ہوتا ہو ۔ کیا کوئی فتویٰ ایسا ہے جو جو مورننگ شوز کے
نام پر بے حیائی پھیلاتی خواتین کے جسموں پر دوپٹّے نام کی چیز کو پابند
کرے ۔ جو مرد اور عورت کے درمیان مذہبی فاصلے کو پابند کرے ۔
اگر ایسا نہیں ہو سکتا تو میں ان تمام معزز لوگوں کو shut up کہنا چاہوں گی
جو ان ٹی وی چینلز پر آ کر ماں باپ کو تربیت کے طریقے سکھا رہے ہوتے ہیں ۔
|