میں نے تو ہر موقع پر صرف قربانی دی ہے... ملک سے باہر رہنے والے شوہروں کی بیویاں ملک میں زندگی کیسے گزارتی ہیں؟

image
 
بلقیس جہاں کی بیٹیاں اب شادی کے قابل ہو گئی تھیں۔ لوگ رشتے بتاتے ان کی سب سے پہلی ڈیمانڈ تھی کہ لڑکا باہر نہ رہتا ہو وہ یہ جانتی تھیں کہ شوہر کے بغیر اکیلے اس معاشرے میں رہنا کتنا مشکل ہوتا ہے آخر ان کی اپنی زندگی کا تجربہ جو تھا۔ کتنے ہی زندگی میں جذباتی اور معاشرتی مسائل درپیش آئے جب انھیں کسی ساتھی کی اشد ضرورت تھی لیکن انھوں نے خود کو تنہا پایا۔ انہیں تو لگتا ہے ان حالات میں میاں بیوی کے اچھے تعلقات قائم ہونا بھی مشکل ہوتے ہیں کیونکہ وہ زیادہ تر اپنے میاں سے نالاں ہی رہیں اور ان کے میاں اپنے باہر رہنے کو مجبوری کا نام دیتے رہے۔
 
آپ کو زندگی میں سب کچھ نہیں ملتا اور کئی بار آپ کو زندگی کے بہتر معیار سے لطف اندوز ہونے کے لیے بہت سی چیزیں قربان کرنی پڑتی ہیں۔ ایسا ہی کچھ ان خواتین کے ساتھ بھی ہوتا ہے جن کے شوہر بہتر مواقع کی تلاش میں بیرون ملک جاتے ہیں۔ تنہائی اور عدم تحفظ ان خواتین کی زندگی کا حصہ بن جاتی ہیں۔
 
 ایک تحقیق کے مطابق شوہروں کی غیر موجودگی میں گھر میں اضافی ذمہ داریوں کا بوجھ بیوی پر پڑ جاتا ہے۔ ہر 10 میں سے ایک خاتون نے محسوس کیا ہے کہ شوہر کی غیر موجودگی میں اکیلے بچوں کی پرورش کرنا سب سے مشکل کام ہے۔
 
image
 
 دس میں سے ایک اس لیے کہ بعض مضبوط خواتین کا خیال ہے کہ اکیلے تربیت کرنا ان کے لئے آسان ہوتا ہے کیونکہ بچے کو کوئی بے جا سپورٹ نہیں ملتی اور وہ بچوں کو اپنی مرضی سے ڈھال سکتی ہیں ۔عموماً حفاظت کی بنیاد پر شوہر حضرات بیویوں کو اپنے گھر والوں کے ساتھ رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف اپنے گھر کی بلکہ سسرال نبھانے کی بھی ذمہ داریاں ان کے سر ہوتی ہیں اور ہمارے ہاں کے ساس بہو تعلقات سے کون واقف نہیں۔ ان سب چیزوں کے درمیان بیوی ایک چکی سی بن کر رہ جاتی ہے اور اس کے حالات کو سمجھنے والا کوئی نہیں ہوتا۔
 
تاہم بعض دفعہ شوہر کی غیر موجودگی میں خاندان کے دوسرے مرد یعنی شوہر کا باپ یا بھائی اس خانداں کی ذمہ داریاں اٹھاتے ہیں ۔ ایسا ان خاندانوں میں زیادہ ہوتا ہے جہاں خواتین کو عام طور پر زیادہ آزادی نہیں دی جاتی۔ اور ظاہر ہے وہ افراد بیوی کے لئے شوہر کا نعم البدل کبھی بھی نہیں ہو سکتے۔
 
تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ اکیلے رہنے والی بیویوں کو درپیش سماجی مسائل میں تنہائی پہلے نمبر پر ہے۔ اس طرح کی خواتین اپنی ساری زندگی ڈپریشن میں گزارتی ہیں۔ اور ریٹائرمنٹ کی عمر میں جب شوہر گھر واپس آتا ہے تو اس کی زندگی گھریلو ناچاقی کی نظر ہو جاتی ہے کیونکہ بیوی اپنی بیماریوں کا ذمہ دار شوہر کو گردانتی ہے۔ اس کے مطابق شوہر نے اپنی زندگی تو عیش میں گزاری ہوتی ہے اور بیوی کو معاملات سے نمٹنے کے لئے اکیلے چھوڑا ہوا ہوتا ہے۔ کیونکہ ہمارے ہاں مرد اپنی مشکلات کا واویلا نہیں مچاتے، ان کا اظہار ہمارے معاشرے میں ان کی مردانگی کو زیب نہیں دیتا۔
 
اب مردوں کو درپیش مشکلات کی طرف آتے ہیں۔ مرد اچھی نوکری کی لالچ میں اپنے خاندان کی خاطر ملک بدر ہوتا ہے ضروری نہیں اسے شروع ہی میں کوئی اچھی نوکری مل جائے ابتدائی سال کافی محنت طلب ہوتے ہیں۔ عرب ممالک میں جانے والے مرد عموماً تعمیرات اور اس سے متعلقہ ملازمتیں، مکینک، الیکٹریشن یا یہاں تک کہ باغبان کے طور پر بھی کام کرتے ہیں جبکہ کچھ سائٹ سپروائزر اور ڈرائیور بن جاتے ہیں۔ شوہر کے دور رہنے سے معاشی مشکلات بھی پیدا ہو سکتی ہیں۔ اگر مرد اچھی ملازمت حاصل نہیں کر سکے تو خاندان کو زیادہ معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اور مرد کو شدید ذہنی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ وہ خاندان کا واحد کفیل ہوتا ہے۔
 
image
 
خاندان کی بہتر معیار زندگی اور بچت کی خاطر شوہر تہواروں یا تقریبات کے موقع پر 2-3 سال بعد گھر جاتے ہیں ۔ خاص طور پر کم تنخواہ والے افراد اپنے خاندانوں کو ساتھ نہیں لے جا سکتے ۔ اس طرح اسکے بچوں کا لگاؤ اس سے کم ہو جاتا ہے وہ اپنے ہی گھر میں ایک مہمان بن کر رہ جاتا ہے۔
 
تاہم اکیلے رہنے والی خواتین شوہر کی غیر موجودگی میں اپنی خود مختاری میں اضافہ محسوس کرتی ہیں۔ مہینوں اور سالوں تک اپنے شوہروں کی غیر موجودگی میں، خواتین گھریلو بجٹ کے حوالے سےگھر کے سربراہ کا کردار ادا کر تی ہیں۔ گھریلو اختیارات ان کے ہاتھ میں ہوتے ہیں، معاشی معاملات میں فیصلہ سازی اپنی ذمہ داریوں کے طور پر نبھاتی ہیں۔ یہ نقل و حرکت کی آزادی انھیں کافی حد تک آزاد بنا دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پھر اپنے معاملات میں مداخلت پسند نہیں کرتیں چاہے وہ شوہر کی ہی مداخلت کیوں نہ ہو۔ یعنی گھر میں شوہر کی حیثیت ایک اے ۔ ٹی ۔ ایم مشین کی رہ جاتی ہے۔
 
شوہروں کی غیر موجودگی کی وجہ سے خواتین میں وقت گزارنے کے لئے ملازمت کا رجحان بھی پیدا ہوتا ہے۔ بعض خواتین اپنے خرچوں کو اتنا بڑھا لیتی ہیں جن کو پورا کرنے کے لئے میاں بیوی کے درمیان ناچاقی بڑھتی ہے جو طلاق کے امکان کی طرف بھی لے جا سکتا ہے کیونکہ ان میاں بیوی کے درمیان تعلقات ساتھ رہنے والوں کے مقابلے میں کمزور ہوتے ہیں۔
 
 شادی دو لوگوں کا ملاپ ہوتی ہے تاکہ وہ دونوں عمر بھر ایک ساتھ رہ کر ہر خوشی غم کا مل کر سامنا کریں ہم انسان ہیں مشین نہیں- فطرت نے ہمیں زندگی گذارنے کے یہی اصول سکھائے ہیں اگر شوہر اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کی خاطر کمائی کے لئے باہر جاتا بھی ہے تو بیوی کی پہلی شرط ہونی چاہئے کہ حالات اچھے ہونے کے ساتھ ہی خاندان ایک ساتھ آباد ہو جائے۔ آخر میں بچے بھی اپنی زندگیوں میں لگ جائیں گے اور ان قربانیوں کا خمیازہ صرف اور صرف میاں بیوی کو بھگتنا پڑے گا۔ بزرگوں کی کہاوت ہے کہ اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلائیں۔
YOU MAY ALSO LIKE: