ڈاکٹر اسد اللہ نعمتی اسلام آباد میں معروف پلمونولوجسٹ
ہیں یعنیٰ پھیپھڑوں اور سانس کی نالی کے مختلف امراض سے متعلق لوگوں کا
علاج کرتے ہیں۔اُن سے جب بھی بات ہوتی ہے تو ہمیشہ یہ ضرور کہتے ہیں کہ "
لوگوں تک میرا یہ پیغام ضرور پہنچائیں کہ خدارا خود کو اور دوسروں کو وبا
سے بچاؤ کی خاطر ماسک پہنیں"۔ ماسک کی پابندی اس موجودہ وبائی صورتحال میں
لازم ہے اور ایک بہترین حفاظتی تدبیر ہے لیکن پاکستان میں شائد لوگ ماسک کے
استعمال کو عذاب سمجھتے ہیں اور اکثر ایسے لوگوں کو مذاق کا نشانہ بنایا
جاتا ہے جو ماسک کی پابندی کرتے ہیں۔بقول ڈاکٹر اسد اللہ نعمتی کہ اکثر لوگ
کلینک پر آتے ہیں تو انتہائی تعجب سے یہ سوال داغ دیتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب
آپ نے ابھی تک ماسک پہنا ہوا ہے۔ لوگوں کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ وبا
چونکہ ختم ہو چکی ہے لہذا اب ماسک یا دیگر پابندیاں میں خود کو جکڑنے کا
کیا فائدہ۔
لیکن دوسری جانب عالمی ادارے بشمول ڈبلیو ایچ او بدستور خبردار کر رہے ہیں
کہ کووڈ۔19 کو اس قدر غیر سنجیدہ نہ لیا جائے کیونکہ وائرس میں تغیرات کا
سلسلہ بدستور جاری ہے اور دنیا کو مزید محتاط ہونے کی ضرورت ہے اور وسیع
پیمانے پر ویکسینیشن اب بھی لازم ہے۔پاکستان کی ہی بات کی جائے تو ابھی
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ نے اومیکرون کے نئے " سب ویرینٹ بی اے.2.12.1"
کے پہلے کیس کی تصدیق کی ہے جو دنیا کے کئی خطوں میں تیزی سے پھیل رہا ہے ۔
لہذا ابھی وبا نے ہمارا پیچھا نہیں چھوڑا ہے۔ ماہرین کے نزدیک افریقی اور
امریکی خطے میں اس مرض کی نئی شکلیں سامنے آ رہی ہیں جو انسانی صحت و
سلامتی کے لیے باعث تشویش ہیں۔
ایک جانب اگر پاکستان سمیت دنیا کے اکثر ممالک میں انسداد وبا کی پابندیاں
اٹھا لی گئی ہیں ،تو دوسری جانب چین اپنے عوام کی صحت و سلامتی کو یقینی
بنانے کے لیے آج بھی وبا کی روک تھام کے لیے مضبوط اقدامات پر عمل پیرا
ہے۔چینی حکومت کا بڑا واضح موقف ہے کہ عوام کا تحفظ سب سے بڑھ کر ہے جس پر
کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ دارالحکومت بیجنگ کی ہی بات کی جائے تو
25 اپریل کے بعد سے یہاں ہم جیسے رہائشیوں کا 08 مرتبہ نیو کلک ایسڈ ٹیسٹ
کیا چکا ہے جس سے چینی حکام کی سنجیدگی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
یہاں چینی عوام کے نظم و ضبط اور اپنی حکومت کے ساتھ مثالی تعاون کی داد نہ
دینا بھی زیادتی ہو گی۔ہماری دفتر کی چینی ساتھی نورین کا یومیہ بنیادوں پر
ہمیں پیغام موصول ہوتا ہے کہ جناب آج پھر ٹیسٹ کے لیے جانا ہے ، ساتھ ساتھ
یاددہانی بلکہ تاکیدی پیغام بھی الگ سے اس روٹین میں شامل ہے۔اس ٹیسٹ کا
نتیجہ "منفی" ہونے کی بنیاد پر ہی آپ دفاتر ،مارکیٹس یا دیگر تمام عوامی
مقامات پر جا سکتے ہیں۔
ان احتیاطی تقاضوں کی وجہ یہی ہے کہ بیجنگ میں اس وقت نوول کورونا وائرس کے
خلاف جنگ جاری ہے کیونکہ دارالحکومت میں مجموعی کیسز کی تعداد 700 سے زائد
ہو چکی ہے۔ وائرس کی انتہائی متعدی قسم اومیکرون کی "منتقلی چین" کو منقطع
کرنے کے لیے، شہر وبا کی روک تھام اور کنٹرول کے انتہائی سخت اقدامات پر
عمل درآمد کر رہا ہے۔اس ضمن میں اسمارٹ اپروچ کے تحت پُر خطر علاقے کے
رہائشی گھروں سے کام کر رہے ہیں اور یومیہ نیو کلک ایسڈ ٹیسٹ بھی کروا رہے
ہیں۔
یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ نیوکلک ایسڈ ٹیسٹنگ کے آٹھ راؤنڈز کے بعد بھی
کیا مزید یہ عمل جاری رہ سکتا ہے اور کیا اتنی زیادہ تعداد میں ٹیسٹنگ
ضروری ہے ؟ جواب "ہاں" میں ہے کیونکہ کسی بھی پچھلے ویرینٹ کی نسبت
اومیکرون انتہائی تیزی سے پھیلتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق، انفیکشن کی
شرح دو سے تین دن میں دگنی ہوتی ہے۔ انفیکشن کے ابتدائی مراحل کے دوران
اومیکرون ویرینٹ کا پتہ لگانے کے لیے بار بار نیوکلک ایسڈ ٹیسٹنگ ضروری ہے۔
یہی وجہ ہے کہ چینی حکومت نے وبا کے خلاف جنگ مکمل طور پر جیتنے کے لیے
"جلد تشخیص، جلد قرنطینہ اور جلد اسپتال میں داخلے" کی حکمت عملی وضع کی
ہے، جس میں وقت کے خلاف اس دوڑ میں ماس نیوکلک ایسڈ ٹیسٹنگ سب سے مؤثر
ہتھیار ہے۔اسی بنیاد پر صحت عامہ کے حکام نئے کیسز کی فوری تحقیقات، قریبی
رابطوں کے سراغ اور کم سے کم وقت میں ٹارگٹڈ لاک ڈاؤن کی جانب آتے ہیں۔ اس
آزمودہ فارمولے نے ہزاروں قیمتی جانیں بچانے میں مدد کی ہے، اور عمومی طور
پر ملک کی معاشی سرگرمیوں کو بنیادی ٹریک پر برقرار رکھا ہے۔اس پالیسی کے
نفاذ میں جو چیز سب سے کارگر ثابت ہو رہی ہے وہ انسداد وبا کے امور میں
شامل تمام فریقوں کے درمیان زبردست ہم آہنگی ہے۔ چینی حکام کے نزدیک وائرس
کے دوبارہ پھیلاؤ کا خطرہ بدستور موجود ہے اور صورتحال اب بھی چیلنجنگ اور
پیچیدہ ہے جس کے باعث انسداد وبا اقدامات میں کوئی نرمی نہیں برتی جا رہی
ہے۔اس ضمن میں کسی غلطی ، سستی ، ہچکچاہٹ یا پھر تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں
ہے، کیونکہ اس کا براہ راست تعلق عوام کی صحت اور بہبود سے ہے۔
|