پرامن معاشرے کی تشکیل میں مذہبی قائدین اور کمیونٹی لیڈروں کا کردار

اسماء رضوان
امن جس کے معنی بے خوف ہونا ، مطمئن ہونا ہیں اس کا متضاد ”خوف“ ہے جبکہ عدم اطمینان، بے چینی کی کیفیت اوراردو میں خطرہ محسوس کرنا یا متفکر ہونا بھی کہا جاسکتا ہے۔امن کسی مادی شے کا نام نہیں بلکہ ایک کیفیت اور حالت کا نام ہے جس کے بغیر کسی متوازن معاشرے کے کسی بھی شعبے میں تعمیری سرگرمیوں کو انجام دینا ناممکن ہے۔ جو عناصر امن کی فراہمی اور فروغ میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں ان میں ارباب اختیار، اہل ثروت رہنما اساتذہ ، طلبہ و طالبات ،صحافی ، علما غرض مزدور وکلاءو اشرافیہ سب شامل ہیں۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

مذہبی رہنماﺅں کی ذمہ داری امن کی تشکیل میں اس لئے بھی اہم ہے کہ وہ عوام الناس کے نمائندے اور اہل علم کہلاتے ہیں ۔ اگر امن کو محض ”مادی خوشحالی“ سے تعبیر کیا جائے تو یہ امن کی تعریف کے ساتھ نا انصافی ہوگی کیونکہ مادی خوشحالی سے آراستہ و پیراستہ ریاستوں میں بھی خانگی امن کا فقدان نظر آتا ہے۔ خاندانی بے سکونی جذباتی عدم توازن، طبی و ذہنی امراض، سماجی عدم تحفظ، لوٹ ماراورجرائم کی نت نئی وارداتیں روزانہ جنم لیتی ہیں۔ ظاہری امن کے دعوے، خوشحالی کے پرتعین محلات، فلک بوس عمارتیں نظر کو خیرہ تو کرتی ہیں لیکن انسان آج اکیسیوں صدی میں جتنا مایوس ہے اس سے پہلے کبھی نہیں تھا۔ خودکشی کا بڑھتا رجحان، ذہنی امراض معاشی عدم استحکام انفرادی اور اجتماعی حیثیتوں سے انسان کو کمزور سے کمزور ترکر رہاہے ۔ اندرونی عدم راحت و سکون اسے ملحد بنا رہا ہے وہ مذہبی تعلیمات سے دور ہوکر اپنی ذات کا ادراک بھی کھوچکا ہے ۔

مذاہب کی دنیا افکار کی دنیا ہے اس میں وسعت بھی ہے اور رفعت بھی روح کی سیرابی بھی ہے اور سماج میں عزت و سرفرازی بھی ۔ لیکن افسوس عقل و تجربے پر مبنی تیز رفتار ترقی نے مذہب کو ایک گوشے میں رکھ چھوڑا ہے،

پرامن معاشرہ فلاحی ریاست ہی تعمیر کرسکتی ہے۔ جہاں کسی بھی مذہب کے افراد مذہبی شناخت کی بنیاد پرنہیں بلکہ بطورانسان آباد ہوں ۔ان کی جان مال عزت آبرو ،مذہبی آزادی، انصاف اورعلم کا حصول سب کے لئے ممکن ہو۔ اسی طرح ان کی اپنی آزاد شناخت اور پہچان موجود ہو اورانہیں اس پہچان اورشناخت کی آزادی حاصل ہو۔قانون کا موجود ہونا اورقانون کا فعال ہونا دو مختلف حقائق ہیں ۔ جن معاشروں میں عوام بے خوفی اور اطمینان کی نیند سوتے ہیں وہاں تاریخ میں مذہبی و سماجی ذمہ داران اور سربراہوں نے کچھ ایسے فلاحی قوانین وضع کردیئے تھے جو آج تک رائج ہیں ۔ کمیونٹی لیڈر کا معاشرے کے درد سے آشنا ہونا ضروری ہے۔کمیونٹی قائدین کے لئے ضروری ہے کہ رائےعامہ سے براہ راست متعلق رہیں اورعوامی معاملات اور مقدمات سننے کیلئے خود اپنا وقت، صلاحیتیں اورخدمات بھی پیش کریں اس سلسلے میں روابط کا نظام بنائیں تاکہ نزاع اور مقدمات کے فیصلے انصاف سے حل ہوسکیں
The Function of Leadership is to Produce Leaders not more followers. Ralph Nader)

( اسماءرضوان درس وتدریس سے وابستہ ایک سینئر استاد ہے اور کراچی یونیورسٹی سے منسلک ہیں، خواتین کے معروف اصلاحی وتحقیقی مجلہ المحصنات کیلئے بھی خدمات انجام دے رہی ہیں،حال ہی میں ایک غیر سرکاری ادارے وائس میڈیا نیٹ ورک کے صحافت برائے امن کے عنوان پر تربیتی ورکشاپ میں حصہ لیا اور اسی حوالے درج بالا مضمون پیش خدمت ہے )

 

Tahir Shah
About the Author: Tahir Shah Read More Articles by Tahir Shah: 13 Articles with 12374 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.