|
|
میکہ کسی بھی شادی شدہ لڑکی کا مان، بھرم اور فخر ہوتا
ہے۔ سسرال والوں کے سامنے میکے کی دال روٹی کا ذکر ایسے بھرم کے ساتھ کرتی
نظر آتی ہیں کہ سننے والا مسحور سا ہو جاتا ہے- اسی سبب گزشتہ کچھ دن پہلے
ایک ویڈیو بھی کافی وائرل ہوئی کہ نائی، قصائی، درزی سے لے کر ڈاکٹر حکیم
تک سب ہی میکے کے قریب کے ہی اچھے لگتے ہیں- |
|
میکے سے جڑی کسی بری بات کو لڑکیاں چھپا لیتی ہیں تاکہ
ان کے سسرال میں جو میکہ کا نام بنا ہوا ہے اس پر کوئی اثر نہ پڑے۔ بھائیوں
کی محبت اور لاڈ کے چھوٹے چھوٹے واقعات بھی بیٹیاں اتنا بڑھا چڑھا کر پیش
کرتی ہیں کہ سب کو محسوس ہوتا ہے کہ بہن کے لیے بھائی کچھ بھی کرنے کو تیار
ہو جائيں گے- |
|
میکے سے محبت کرنے والی
لڑکیاں اور جائیداد کا حصہ |
ہم میں سے اسی سے نوے فی صد لوگ ان ماؤں کے بچے ہوتے ہیں
جنہوں نے اپنے میکے کے اسی بھرم اور محبت کو قائم رکھنے کے لیے باپ کی
جائیداد سے اپنا حصہ انگھوٹھا لگا کر بھائيوں کو دے دیا ہوتا ہے- |
|
تاکہ میکے سے اس کا تعلق ہمیشہ قائم رہے لیکن اگر کوئی لڑکی یہ انگوٹھا
لگانے سے انکار کرتے ہوئے میکے والوں سے اپنا وہ حصہ طلب کرتی ہے جو اس کے
باپ کی جانب سے اس کو شرعی طور پر حاصل ہوتا ہے تو اس کے نتیجے میں اس کو
جن مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے وہ کچھ اس طرح سے ہو سکتا ہے- |
|
|
|
1: ماں کا دباؤ |
سب سے پہلے ماں جو کہ بیٹوں اور بیٹیوں دونوں کی ہی ہوتی
ہے مگر جائیداد کے معاملے میں صرف بیٹوں کی ماں بن جاتی ہے کیونکہ اس کو
بھی پتہ ہوتا ہے کہ اگر اس معاملے میں اس نے بیٹی کا ساتھ دیا تو اپنی آخری
عمر خراب ہو جائے گی اور وہ آخری عمر داماد کے ٹکڑوں پر تو نہیں گزار سکے
گی- |
|
اسی وجہ سے وہ ہر طریقے سے بیٹیوں کو اس بات پر قائل
کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ وہ اپنا حق بھائیوں کے لیے چھوڑ کر انگوٹھا لگا دے
تاکہ ماں اپنے بیٹوں کی نظروں میں سرخرو ہو سکے- |
|
2: بھابھیوں کے طعنے |
نند بھاوج کا رشتہ ویسے ہی بہت نازک ہوتا ہے اور انتہا
درجے کی بے تکلفی کے باوجود اس میں ایک فاصلہ موجود ہوتا ہے جو کہ ذرا سے
تناؤ کی صورت میں میلوں تک پھیل سکتا ہے- یہی وجہ ہوتی ہے کہ اگر نند
جائيداد میں سے حصہ مانگتی ہے تو اس کے ردعمل کے طور پر بھابھی کی آنکھیں
ماتھے پر آجاتی ہیں اور یہ سجمھے بغیر کہ وہ خود بھی کسی کی بیٹی ہے اس کو
لگتا ہے کہ نند حصہ مانگ کر اس کے شوہر کو بد ترین نقصان پہنچا رہی ہے- |
|
جس کی وجہ سے بھابھی کے منہ سے نند کے خلاف گرم سرد
نکلنے لگتا ہے اور اس کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ نند یا تو اپنے دعویٰ سے
دستبردار ہو جائے یا اپنے بھائی کو چھوڑ دے- |
|
|
|
3: بھائیوں کی چیخ پکار
|
ہم نے جہیز دے تو دیا ہے ہر عید تہوار پر خرچہ اور کپڑے
وغیرہ بھی دے دیتے ہیں اب یہ کیا ہمارا خون پینا چاہتی ہے- یہ وہ جملے ہوتے
ہیں جو کہ ایسے موقعوں پر اکثر بھائی اپنی بہنوں کے لیے بولتے ہیں-ان کو یہ
محسوس ہوتا ہے کہ اس طرح شور شرابا کر کے وہ اپنی بہنوں کو چپ کروا سکیں گے
اور ان کو یہ ڈر ڈال کر کہ اگر انہوں نے اپنا حصہ مانگا تو اس کے نتیجے میں
ان کے میکے کے دروازے ان کے لیے بند بھی ہو سکتے ہیں جو اس لڑکیوں کے لیۓ
سسرال میں انتہائی سبکی کا باعث بن سکتے ہیں- |
|
4: میکے کے دروازے بند |
اگر ان تمام دھمکیوں لڑائی جھگڑوں کے باوجود بھی کوئی
لڑکی اپنے حصے کو مانگنے کے لیے مصر رہے تو اس کے بعد اس کو حصہ تو دے دیا
جاتا ہے مگر اپنا حق مانگنے کے جرم کی سزا کی صورت میں اس کے لیے میکے کے
دروازے ہمیشہ کے لیے بند کر دیے جاتے ہیں- |
|
بیٹی کا حق تو ہر حال
میں دینا ہوگا |
یاد رکھیں! کہ قرآن کے مطابق بیٹی کا بھی باپ کی جائیداد
میں شرعی حصہ ہوتا ہے اور جو لوگ اس حصے کو اس دنیا میں نہیں دیتے ہیں ان
کو اگلے جہاں میں یہ حصہ دینا ہوگا جو ان کے اعمال اور نیکیوں کی صورت میں
ہوگا جو کہ ایک بڑا نقصان ہوگا- اس وجہ سے حق دار کو اس کا حق دینے کی عادت
بنائيں- |