اصل میں ہم لوگ مغربی ممالک کے معاشرہ کے بڑے نقّال ہیں۔
یہ بات قابل تحقیق ہے کہ ان کے معاشرہ کو اچھا سمجھنا ہمیں بتایا گیا ہے یا
ہم نے خود اپنے ذہن میں اس بات کو بٹھا لیا ہے؟اگر کویٔ صاحب اس نتیجہ پر
پہنچیں تو خاکسار کو ضرور مطلع فرمائیں۔ ہمارے یہاں ابتدائی درجات کی
انگریزی کتابوں میں ’اے‘ فار ’ایپل‘، ’بی‘ فار بال، ’سی‘ فار کیٹ وغیرہ
تصویروں کی مدد سے بچوں کوانگریزی کے حروف سکھائے جاتے ہیں۔ ’جی‘ فار جنٹل
مین(G for Gentle man) ۔اس حرف کے پاس ایک تصویر بنی ہوتی ہے جس میں ایک
شخص سوٹ بوٹ پہنے بیٹھا ہے۔یعنی سوٹ بوٹ پہننے والا ہی ’جنٹل مین(شریف
آدمی)‘ہوتا ہے۔انگریزی دور میں انگریز یہی سوچتے تھے اور یہی ہم کو بتا گئے
اورہم آج بھی اپنے بچوں کو وہی تصویر دکھا کر بتا رہے ہیں کہ سوٹ بوٹ پہننے
والا ہی شریف آدمی ہوتا ہے۔دھوتی کرتا،صدری،کرتا پائجامہ شیروانی پہننے
والا شریف انسان نہیں ہو سکتا۔ہم بھارت والے آج تک G for Gentle manکی
تصویر ہی نہیں بدل پائے ہیں۔
اسی طرح سے مغرب میں ’’لیو اِن رِلیشن (Live in relation)‘‘کا سلسل بھی
بھارت میں جڑ پکڑ گیا ہے اور ہمارے یہاں بھی اس طرح کی زندگی پسند کی جانے
لگی ہے۔اصل میں ’لیو اِن ریلیشن شپ(Live in relationship)‘مغربی تہذیب سے
آیا ہے،دراصل وہاں لوگ خاندان کے قید میں اب رہنا نہیں چاہتے،وہاں کا مرد
شادی بیاہ،بچے،پریوارکو اب بوجھ سمجھنے لگے ہیں اسی لیے لیو ان ریلیشن شپ
یا باہم باشی کے لیے دو بالغ مرد وعورت یا دو ہم جنس پارٹنر آپسی رضامندی
سے ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔ دونوں ہی معاشی طور پرآزاد ہوتے ہیں اور اپنے
اخراجات پر ایک دوسرے پر انحصارنہیں کرتے لیکن وہ میاں بیوی نہیں صرف ایک
دوسرے کے جزوقتی ساتھی ہیں۔چونکہ بھارت میں بغیر شادی کے مرد و عورت کا ایک
ساتھ رہنابھارتیہ تہذیب میں رائج نہیں ہے۔لیکن بدلتے ہوئے طرز زندگی میں
اسے بھارت میں بھی اپنایاجا رہا ہے۔بڑے شہرو ں میں’ لیو اِن رلیشن شپ‘ عام
ہو گئی ہے اس لیے سپریم کورٹ نے اسے قانونی درجہ قراردے دیا ہے۔چونکہ بھارت
کے پارلیمنٹ نے ’لیو اِن ریلیشن شپ‘کے حوالے سے کوئی قانون پاس نہیں کیا ہے
اس لیے سپریم کورٹ کا حکم خود اس معاملے میں ایک قانون کی طرح کام کرتا ہے
اور سپریم کورٹ ’لیو اِن ریلیشن شپ‘ کو مکمل طور پر درست مانتی ہے۔
گھریلو تشدد ایکٹ 2005کے سیکشن2( f )کے تحت لیو ان ریلیشن کی تعریف کی گئی
ہے اور اسے قانونی شناخت دی گئی ہے۔اس طرح کے رشتہ میں کچھ شرائط ہیں جو
حسب ذیل ہیں:
• جوڑے کے لیے ایک ساتھ رہنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ رشتہ داری کے لیے میاں
بیوی کی طرح ایک ساتھ رہیں۔اگرچہ اس کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں ہے لیکن ان
کا مسلسل ساتھ رہنا ضروری ہے۔ ایسے رشتے کو ’لیو اِن‘ نہیں سمجھا جائے گا
جس میں کوئی ایک ساتھ رہا ہو اور پھر الگ ہو جائے، پھر کچھ دن ساتھ رہے۔
• اس رشتے میں رہنے والے جوڑے کے لیے لازمی ہو گا کہ وہ ایک ہی گھر میں
شوہر اور بیوی کی طرح رہیں۔
• انہیں ایک ہی گھر کی اشیا کو مشترکہ طور پر استعمال کرنا ہوگا۔
• اس رشتے میں رہنے والے دونوں لوگوں کو گھریلوکاموں میں ایک دوسرے کی مدد
کرنی ہوگی جیسے شوہر اور بیوی۔
• اس رشتے میں رہنے والے جوڑے کے لیے یہ ضروری ہوگا کہ اگر ان کے بچے ہیں
تو انہیں بھرپور پیار دیں اور ان کی مناسب پرورش اور دیکھ بھال کریں۔
• معاشرے کو اس بات کو علم ہونا چاہئے کہ یہ لوگ ’لیو اِن رلیشن ‘ میں رہ
رہے ہیں۔چونکہ یہ درست رشتہ ہے اس لیے اس کی تشہیر ہونی چاہئے۔
• اس رشتے میں رہنے والے افراد کا بالغ ہونا بہت ضروری ہے۔اگر جوڑا بالغ
نہیں ہے تو رشتہ درست نہیں مانا جائے گا۔
• اس رشتے کی سب سے اہم شرط یہ ہے کہ دونوں کا پہلے سے کوئی شوہر یا بیوی
نہ ہو۔اگر کوئی شخص ماضی میں شوہر یا بیوی ہوتے ہوے کسی اور کے ساتھ’لیو
اِن رلیشن‘ کا رشتہ بناتا ہے تو اسے غیر قانونی سمجھا جائے گا۔
• اس رشتے میں رہنے والی عورت اپنے ساتھی مرد سے کفالت کا مطالبہ کرنے کا
حق رکھتی ہے۔ عدالت نے واضح کیا ہے کہ عورت کو یہ کہہ کر نفقہ کے حق سے
انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس نے قانونی نکاح نہیں کیا ہے۔
• سپریم کورٹ نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اگر کوئی بچہ لیو ان میں رہتے ہوئے
پیدا ہوتا ہے تو ا س کے والدین کی جائداد میں اس کا پورا حق ہوگا اور کوئی
بھی لیو ان کا جوڑا اس سے بچ نہیں سکتا ہے۔
لیو ان رلیشن والی زندگی میں قانونی طور پر وہ ساری سہولت ملتی ہیں جو
سماجی طور پر شادی کے بعد ملتی ہیں۔اس میں مناسب’ بر‘ تلاش کرنے کے لیے
والد کو دربدر بھٹکنا نہیں پڑتا،نہ تلک نہ لگن،نہ بارات نہ جہیزنہ دولہے کے
خریدنے کی فکر۔اسی لیے شاید بہت سی لڑکیاں اپنے ماں باپ کو پریشانیوں سے
چھٹکارا دلانے کے لیے اس طرح کے رشتے کو اپنا لیتی ہیں بھلے ہی ان کی اِس
تیاگ سے خاندان کی عزت کا فالودہ نکل جائے۔اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ بعد میں
لوگ شادی بھی کر لیتے ہیں۔شادی کرلینے والے جوڑے خوش قسمت ہوتے ہیں لیکن یہ
خوش قسمتی بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔
’لیو ان رلیشن شپ ‘میں مرد اور عورت ایک دوسرے سے لطف اندوز تو ہوتے ہیں
لیکن آئندہ کی زندگی کو لیکر پریشان اور فکرمند بھی رہتے ہیں۔ مرد مہاشے
شادی اور خاندانی ذمہ داریوں سے بچنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ دونوں باہمی
رضامندی کے ساتھ تو رہتے ہیں،دونو ہی معاشی طور پرآزاد ہوتے ہیں اور اپنے
اخراجات کے لیے ایک دوسرے پر انحصار نہیں کرتے لیکن گھر کے اخراجات مل جُل
کر اٹھاتے ہیں۔مگر تلوار ہمیشہ عورت کے ہاتھ میں ہی رہتی ہے وہ جب چاہے گاج
بن کر اپنے ’پارٹنر‘ پر گر سکتی ہے۔عورت کی نظر ٹیڑھی ہوتے ہی مرد کسی وقت
بھی مصیبت میں پھنس سکتا ہے۔ایک خبر کے مطابق’’ ایک صاحب کسی ضلع میں
بطورنائب کپتان تعینات تھے۔مدھہ پردیش کی ایک لڑکی فیس بُک کے ذریعہ ان کی
زندگی میں داخل ہوئی اور دونو ں سرکاری مکان میں’لیو ان رلیشن شپ ‘ میں
رہنے لگے۔شاید جب لڑکی کا دِل اوب گیا تو اس نے یہ الزام لگایا کہ نائب
کپتان صاحب نے اس کی آبروریزی کی ہے۔اور یہ بات سچ مانی گئی اورصاحب کو
پہلے تو معطل کیا گیااور جب متاثرہ نے انصاف کی گہار لگائی تونائب کپتان
صاحب کو ملازمت سے برخاست کر دیا گیا‘‘۔ اس طرح سے متاثرہ کے کلیجے کو
ٹھنڈک ملی اورملزم کو اس کے کرموں کی سزا۔لہذا یہ ہمیشہ ذہن میں رکھناہے
کہ’’ مذہب کی نا فرمانی ہی جرم کا راستہ کھولتا ہے‘‘۔
|