سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد کی روک تھام کی ضرورت

معاشی، معاشرتی اور سیاسی بدحالی اس بات کا پیش خیمہ ہے کہ قوم نہ صرف پستی کا شکار ہے بلکہ وہ ایسے تباہی کے گڑھے میں گرتی چلی جارہی ہے جس سے وہ نکلنے کی کوشش تو کیا اس سے باہرنکلنے کاارادہ تک بھی نہیں کرتے، بلکہ شاید وہ اس بات سے آشنا ہی نہیں ہیں۔ لیکن اس گڑھے میں گرنے کے اسباب کیا ہیں؟ کیسے ہم اس بدحالی سے نجات پاسکتے ہیں؟ کیسے ہم ایک پر امن معاشرے کی بنیاد رکھ سکتے ہیں؟

یہ دور ٹیکنالوجی کا دور کہلاتا ہے۔ اس دور میں مواصلاتی نظام میں جو بہتری آئی ہے وہ یہ کہ انسان ایک سیکنڈ میں اپنی بات دنیا بھر تک پہنچا سکتا ہے اور یہ کام سوشل میڈیا کے ذریعے باآسانی ممکن ہے۔
سوشل میڈیا وہ پلیٹ فا رم ہے جو متنوع افراد سے بھرا پڑا ہے۔ تنوع ایک ایسی چیز ہے جسے ہم اگر سمجھ لیں تو ایک دوسرے سے اختلاف پر لڑنے کے بجائے ایک دوسرے کا احترام کریں۔سوشل میڈیا ایک ایسا آلہ ہے جو لوگوں کو اظہارِ رائے، تبادلہ خیال، تصویر اور ویڈیوز شیئر کرنے کی اجازت دیتا ہے لیکن آج کل سوشل میڈیا ایک ایسا پلیٹ فا رم بنا ہوا ہے جہاں نفرت آمیز مواد، شرانگیزی پھیلانے والے بیانات کی بھر مار نظر آتی ہے۔ عدم برداشت کی ایک بہت بڑی وجہ اس کا بے جا استعمال ہے ہم اپنی عملی زندگی میں ہونے والے واقعات کی خود نمائی کرتے ہیں، جس سے حسد جلن بغض جیسے ناسور پنپنے لگے ہیں۔ یہی ناسور بعد میں جا کر عدم برداشت کی ایک بہت بڑی وجہ بن کر سامنے آتے ہیں، ظاہر ہے جب سامنے والے سے نفرت ہوگی، حسد ہوگا تو ہم کس طرح اس کے اختلاف رائے کا احترام کریں گے۔

خدا نے جیسے کائنات کو مختلف رنگوں سے مزین کیا ہے اسی طرح انسان کی فطرت اس کی سوچ کو ایک دوسرے سے مختلف رکھا ہے، اس کا نظریہ مختلف ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات ہمیں ہم خیال لوگ ملتے ہیں ان سے کوئی اختلاف نہیں ہوتا اور ایک خوشگوار ملاقات سامنے آتی ہے۔ لیکن اس کے برعکس صورت حال میں ہمارا رویہ یکسر مختلف ہوتا ہے ہم لڑنے پر تیار ہوجاتے ہیں، یہی رویہ ایک منفی سوچ کو جنم دیتا ہے ایک عدم برداشت کی کیفیت کو جنم دیتا ہے، اختلاف رکھنا یا اختلاف کرنا یہ ایک علمی امر ہے اس سے ذہن کے نئے دریچے کھلتے ،ہیں نئی تحقیق جنم لیتی ہے لیکن اگر ہم اسے ذاتیات پر حملہ اور اسے اپنی بے عزتی سمجھیں گے تو سوائے تصادم کے اور کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

میں جس بات پر زور دینا چاہ رہی ہوں وہ اختلاف رائے کا احترام ہے۔ مرد ہو یا عورت ، شاگرد ہو یا اساتذہ سب کو ایک دوسرے کی بات کو غور سے سننے کی ضرورت ہے۔ آج ہم صرف اپنےحقوق کے لیے روتے ہیں لیکن جب ہم غور و فکر سے کام لیں گے تو پھر ہمانسانی حقوق کا سوچیں گے اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہم مل بیٹھ کر بات کریں گے، ایک دوسرے کی بات کو غور سے سنیںگے۔ ہمارا مسئلہ یہ بھی ہے کہ جہاں ہمارے مطلب کی بات نہ ہو تو ہم کہنے والے کی بات کو بیچ میں کاٹ دیتے ہیں جس سے دلوں میں دوریاں پیدا ہوتی ہیں۔جب آپ سنیں گے تو سامنے والا بھی آپ کا احترام کرے گا۔ مکالموں کو فروغ دینا اور ایک دوسرے کو سمجھنے کے لیے مختلف سیمینارز کا انعقاد بہترین اقدام ہیں لیکن جو افراد ان سیمینارز میں شریک ہوتے ہیں تو ان کا اولین فرض یہی ہونا چاہیے کہ معاشرے میں پھیلنے والے نفرت انگیز مواد کی روک تھام کے لیے اپنا حصہ ڈالیں۔ بتائیں کہ سب کو مل کر بیٹھنے اور ایک نقطے پر جمع ہونے کی ضرورت ہے اور وہ نقطہ اپنےمذہب پرعمل ہے، چاہے وہ دنیوی معاملات میں ہوں یا دینی معاملات۔

اب یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ جب مکالموں کو فروغ دیا جائے گا تو اختلاف رائے بھی سامنے آئے گا ، جب اختلاف رائے سامنے آئے گا تو دلائل کے انبار بھی ہوں گے لیکن جب ایک دوسرے کو سمجھیں گے ایک دوسرے کی نفسیات کو سمجھیں گے اور یہ جان لیں گے کہ انسانی فطرت میں تنوع ہے تو یہ اختلاف زحمت نہیں بنے گا بلکہ رحمت بن جائے گا اور پھر ہم ایک معاشرہ نہیں بلکہ ایک قوم بن جائیں گے، جس میں مختلف نظریات کے پیروکار ایک نئی ترقی کی طرف گامزن ہوں گے، جہاں جذبات سے کم فکر و نظر سے کام لیا جائے گا۔ جہاں ایک دوسرے کے جان و مال کی حفاظت کی جائے گی ۔ اہل علم کا یہ شیوہ کبھی نہیں رہا کہ وہ ایک دوسرے سےنفرت کریں ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی کریں ، ایک دوسرے کے خلاف شرانگیزی پھیلائیں۔تنوع کائنات کا حسن ہے اس حسن میں بگاڑ اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب ہماری سوچ محدود ہو، جب ہم محدود علم رکھ کر خود کو سب سے بڑا عقلمند سمجھیں ۔

میڈیا اس میں یہ کردار ادا کرسکتا ہے کہ وہ اس بات کو اجاگر کرے کہ سوشل میڈیا صرف بیان بازی کا میدان نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ سے ہم تعلیم حاصل کرسکتے ہیں اور اس کو فروغ دے سکتے ہیں۔ اس کے ذریعے ہم مختلف افراد کے نظریے کو جان سکتے ہیں اور جو منفی پہلو جنم لے رہے ہیں ان کو تحقیقی انداز میں دور کر سکتے ہیں۔ عدم برداشت کی جو فضا چلی ہوئی ہے اسے ایک دوسرے سے بات چیت کر کے ختم کرسکتے ہیں رواداری کی فضا کو قائم کرسکتے ہیں۔

ہمیں یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہر انسان ایک دوسرے سے مختلف ہے، اس کا نظریہ الگ ہے، لیکن جب مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے مل بیٹھتے ہیں تو نئی فکر جنم لیتی ہے، اور اس طرح نئی ایجادات جنم لیتی ہیں، مسائل کے حل ملتے ہیں، ہم جب مل بیٹھیں گے تو بہت سے راستے ایسے کھلیں گے جو ہمیں متحد کرسکیں گے۔یہ بھی بتایا جائے کہ سوشل میڈیا پر جتنی بھی خبریں آتی ہیں جب تک ان کی تصدیق نہ ہو اس کو نہ پھیلائیں اور جذبات میں آکر قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لیں۔
میڈیا ایک نئی سوچ ایک نئی فکر فراہم کرے کہ انسان کی فطرت میں تنوع ہے اس تنوع کو ہمیں سمجھنا ہوگا اسی کے ذریعے ہی معاشرے میں امن قائم ہوسکتا ہے۔

(نسیم بانوملک درس وتدریس سے وابستہ استاد ہے اور ایک پرائیویٹ اسکولز سسٹم سے منسلک ہیں،سوشل میڈیا کے حوالے سے بہت فکر مند رہتی ہیں،اسی مناسبت سے درج بالا مضمون تحریرکیاہے )

 

Naseem Bano
About the Author: Naseem Bano Read More Articles by Naseem Bano: 13 Articles with 10850 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.