استاد کا احترام

استاد اللہ تعالٰی کی دی ہوئی نعمتوں میں سے افضل ترین نعمت ہے ۔ استاد بمثل چراغِ ہے جو شاگردوں کو تاریکی سے روشنی کی طرف لاتا اور گمراہی سے سیدھی منزل کی طرف گامزن کرتا ہے۔

جس طرح ہمارے والدین بہت شفقت سے ہماری تربیت فرماتے ہیں ہماری ظاہری تربیت و پرورش کرتے ہیں ہماری جسمانی ضروریات کو پورا کرتے ہیں اور ہمیں زندگی میں جینے کا سلیقہ سکھاتے ہیں اسی طرح ایک استاد ہماری روحانی تربیت فرما کر ہمیں ایک باشعور اور باعمل انسان بناتے ہیں۔ایک استاد کی قابلیت اس بات سے وضع ہوتی ہے کہ ایک استاد لوہے کو تپا کر کُندن اور پتھر کو تراش کر ہیرا بناتا ہے تو ایک استاد لوہار اور معمار بھی ہے۔

استاد کو ہر زمانے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ہے.استاد کی اہمیت اور ان کا مقام ومرتبہ کی ایک خاص وجہ یہ بھی ہے کہ وہ ہماری شخصیت اور کردار میں مددگار ثابت ہوتا ہے.

استاد علم کے حصول کا برائے راست ایک ذریعہ ہے۔اسلئے انکی عزت اور ان کے احترام کا حکم دیا
گیا ہے۔

استاد کا احترام اسلامی نقطہِ نظر سے دو اعتبار سے بڑی اہمیت کا حامل ہے:-

ایک تو وہ علم رکھنے والے ہوتے ہیں اور اِسی افضلیت کے ناطے ہمارے روحانی والدین ہوا کرتے ہیں.ہماری اخلاقی اور روحانی اصلاح وفلاح کے لئے اپنی زندگی صرف کرتے ہیں۔

دوسرا یہ کہ وہ عموم شاگرد سے بڑے ہوتے ہیں اور مذہب اسلام اپنے سے بڑوں کے احترام اور عزت کا حکم بھی دیتا ہے.

اللّٰہ پاک کا ارشاد مبارک ہے
وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ (آل عمران:۱۶۴)
اور انہیں کتاب اور حکمت کا علم عطا فرماتے ہیں
ترجمۂ کنزالایمان
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے
"لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا وَلَمْ يُوَقِّرْ كَبِيرَنَا*أْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ
ترجمہ
جو شخص ہمارے چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور ہمارے بڑوں کی توقیر نہیں کرتا ، نیکی کا حکم نہیں کرتا اور نہ وہ برائی سے روکتا ہے ، وہ ہم میں سے نہیں.‘‘ رواہ الترمذی (۱۹۲۱)
اسلامی تعلیم میں استاد کی عزت کا جا بجا حکم ملتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے
اِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّماً
کہ مجھے ایک معلم بنا کر بھیجا گیا ہے
اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس دنیا میں تشریف آوری کا مقصد لوگوں کو علم دینا ہے اور انکی فلاح ہے
نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اللہ تعالی نے معلم بنایا ہے ، آپ مخلوق کی تعلیم سے معلم ہرگز نہیں بنے۔ حُضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اگرچہ اوّل درجہ کے عابد بھی ہیں لیکن حُضور کی عبادت عملی تعلیم ہے۔ لہٰذا آپ نماز پڑھتے ہوئے بھی معلم ہیں اس بات کی واضح دلیل ہے کہ استاد کا مقام ومرتبہ نہایت بلند وبالا ہے. جبرئیل امین نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے زانوئے تلمذ طے کر کے آنے والے طلبہ کو یہ تعلیم دے دی کہ انہیں استاد کے سامنے کیسے بیٹھنا چاہئے،صحابہ کرام نبی کے سامنے ایسے بیٹھتے معلوم ہوتا کہ انکے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہوں.یہ حدیث بھی استاد کے مقام ومرتبہ کے لحاظ سے ایک شاندار دلیل ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کہ تم میں بہتر وہ ہے جو خود قرآن سیکھے اور دوسروں کو بھی سکھائے"تو اس حدیث مبارکہ سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دین اسلام میں علم حاصل کرنے اور تعلیم دینے کو کتنا پسندیدہ عمل قرار دیا گیاہے۔
ایک اور حدیث شریف ہے۔
*تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ، وَتَعَلَّمُوا لَهُ السَّکِینَةَ وَالْوَقَارَ، وَتَوَاضَعُوا لِمَنْ تَتَعَلَّمُونَ مِنْهُ وَلِمَنْ تُعَلِّمُونَه، وَلاَ تَکُونُوا جَبَابِرَة َالْعُلَمَاءِ*
*ترجمہ*
علم حاصل کرو۔ اس کے لئے سکینت ووقار بھی سیکھو۔ جن سے علم حاصل کرتے ہو اور جنھیں سکھاتے ہو اُن کے لیے تواضع اورعاجزی اختیارکرو۔جبر کرنیوالے علما مت بنو۔
جامع ترمذی:1919
سنن ابوداؤد:8
جامع بیان العلم وفضلہ:1/512
ملت اسلامیہ کی اہم شخصیات جنہوں نے اپنے اساتذہ کے ادب واحترام کی بہت سی مثالیں قائم کیں ان میں سے چند درج ہیں جن سے استاد کے احترام کی واضح دلیل ملتی ہے۔
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے ایک جنازے پر نماز پڑھی.پھر آپکی سواری کے لئے خچر لایا گیا تو عبداللہ بن عباس آگے بڑھ کر رکاب تھام لی.تو اس پر زید بن ثابت نے کہا اے ابن عم رسول اللہ! آپ ہٹ جائیں.اس پر ابن عباس نے جواب دیا کہ علمائے دین اور اکابر کی عزت اسی طرح کرنی چاہئے.
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ مجلس درس بڑی باوقار ہوا کرتی تھی.تمام طلبہ ادب سے بیٹھتے.حتی کہ ہم لوگ اپنی کتابوں کا ورق بھی آہستہ الٹتے تاکہ کھڑکھڑاہٹ کی آواز بلند نہ ہو.
ہارون رشید کے دربار میں جب کوئ عالم دین تشریف لاتے تو ہارون رشید ان کے استقبال کے لئے کھڑے ہوجاتے .اس پر انکے درباریوں نے ان سے کہا اے بادشاہ سلامت! اس طرح سلطنت کا رعب جاتا رہتا ہے تو ہارون رشید نے جو جواب دیا یقیناًوہ آب زر سے لکھنے کے لائق ہے.آپ نے کہا اگر علماء دین کی تعظیم سے رعب سلطنت جاتا ہے جائے.
امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: میرے باپ نے مجھے وصیت کی. پیارے بیٹے!بچپن کا زمانہ اب ختم ہوا ، اب تم سن شعور کو پہنچ گئے ہو، اب پورے طور سے خیر کی طلب یعنی حصول علم میں لگ جاؤ اور ایک ضروری بات کہ اس راہ میں سب سے زیادہ ضروری چیز یہ ہے کہ اہل علم اساتذہ کرام کی اطاعت و خدمت کی جائے ۔ اگر تم ان کی اطاعت و خدمت کرو گے تو علم و فضل سے بہرہ ور ہو گے۔
استاد بمثل چراغِ ہے جو شاگردوں کو تاریکی سے روشنی کی طرف لاتا اور گمراہی سے سیدھی منزل کی طرف گامزن کرتا ہے۔
آس لیے ہمیں استاد کا احترام بہت ہی احسن انداز میں کرنا چاہئے ان کے ادب میں کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہیے اور ادب کے ساتھ ساتھ ان کی عزت بھی کرنی چاہیے ان کی شان میں ایسے الفاظ کا ارتکاب نہ کیا جائے جس سے ان کی عزت آبرو پر کوئی حرج ہو۔
استاد اللہ پاک کی دی ہوئی بہت بڑی نعمت ہے پر موجودہ زمانے میں ما ديت پرستی کے بڑھتے طوفان کی بدولت استاد کو وہ مرتبہ مقام نہیں دیتے جو گزشتہ دور میں ہوتا تھا۔
استاد کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ استاد ایک ایسا رہنما ہے جو شاگردوں کی اچھی طرح رہنمائی کرتا ہے اور استاد سے بہترین کوئی رہنما نہیں ہو سکتا
آج کل استاد شاگرد کو اُنکی اصلاح کے لئے ڈانٹ بھی لیں تو شاگرد فورآ اپنے والدین کو شکایت کردیتے ہیں اور والدین اس شکایت کو لے کر استاد کی طرف آتے ہیں اور بجائےاستاد کی حکم کی تابعداری کرنے کے اپنے بچوں کی بات مان کر استاد سے بحث و مباحثہ کرنے لگ جاتے ہیں جس سے بچوں کو استاد کا ادب کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی اس لیے پھر اُنکی تربیت میں کمی رہ جاتی ہے پہلے لوگوں میں ادب بہت معتبر اور احسن درجے کا حامل تھا اور استاد کے ادب کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا تھا۔ جس سے شاگردوں میںاستاد کا احترام پیدا ہوتا تھا اور وہ انکے ادب میں کوتاہی نہ کرتے تھے پر آج کل والدین بچوں کی حوصلہ افزائی کرکے اُنکو استاد کے احترام سے دور کردیتے ہیں ۔
استاد کا احترام کرنے سے علم میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ علم کی بدولت دنیا میں ترقی کرتا ہے اس لیے جو طالبِ علم استاد کے احترام کو ملحوظ خاطرنہیںرکھتا وہ علم کی دولت سے ہمیشہ محروم رہتا ہے
قرآن اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں اور اقوال سلف سے معلوم ہوا کہ استاد کی عزت اور ان کا مقام ومرتبہ امر مسلم ہے جس کا انکار کوئی بھی فرد وبشر نہیں کر سکتا.لہذاہم سب پر واجب ہے کہ ہم اپنے استاد کی عزت کریں انکے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں تبھی ہم اپنے اسلاف کی طرح لوگوں کے دلوں میں زندہ رہ پائیں گے۔
سیدہ راحت معین۔


 
Syeda Rahat Moin
About the Author: Syeda Rahat Moin Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.