بھیانک سچائی سے پردہ اٹھنے کی دیر تھی... وہ خاتون جس کی ایک ضد نے لاکھوں لوگوں کی جانیں بچا لیں

image
 
1960 میں فرانسس کیلسی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کے نئے بھرتی ہونے والوں میں سے ایک تھی۔ اسی سال اس نے ایک لڑائی شروع کی جس سے ہزاروں جانیں بچیں حالانکہ اس وقت کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس کی اس جدوجہد کے تحت ہزاروں جانیں بچ جائیں گی۔ وہ اپنے اس مقصد میں ڈٹی رہی اور بالآخر کیلسی صحت عامہ کے ایک بڑے سانحے کو حقائق کے ذریعے روکنے میں کامیاب ہو گئی۔
 
15 سال کی عمر میں ہائی اسکول سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد اس نے مونٹریال کی میک گل یونیورسٹی سے فارماکولوجی میں انڈر گریجویٹ اور ماسٹرز دونوں ڈگریاں حاصل کیں۔ اس نے فارماکولوجی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ وہاں سے اس نے شکاگو یونیورسٹی کے فارماکولوجی ڈیپارٹمنٹ میں ریسرچ پوسٹ کے لیے اپلائی کیا۔
 
اس کا قبولیت کا خط مسٹر اولڈہم کے نام سے آیا یہ ان کا خاندانی نام تھا۔ کیلسی نے بعد میں اس بات کا مذاق بھی اڑایا کہ اس کو مرد کے نام سے اپوائنٹمنٹ لیٹر آیا۔ اس نے فیکلٹی کے طور پر شکاگو یونیورسٹی کی دعوت کو قبول کیا جہاں اس نے ادویات اور fetal safety پر اہم تحقیق کی۔ 1950 میں اس نے اپنی چوتھی اور آخری میڈیکل ڈگری حاصل کی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایف ڈی اے ( فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن/USA ) جوائن کرنے کے وقت فرانسس کیلسی سب سے زیادہ تعلیم یافتہ تجربہ کار سائنسدانوں میں سے ایک تھیں۔ اگرچہ وہ ایف ڈی اے میں نئی تھی۔ تاہم کیلسی کا بطور سائنسدان ایک معتبر نام تھا۔
 
image
 
پھر بھی ٹیم کے نئے رکن کے طور پر کیلسی کو ایک آسان جائزہ کا کام تفویض کیا گیا تھا۔ ان کے پاس تھیلیڈومائڈ نامی دوا فروخت کرنے کے لیے امریکی دوا ساز کمپنی میرل کی طرف سے ایک درخواست دائر کی گئی۔ تھیلیڈومائڈ جرمنی میں تیار کردہ ایک سکون آور دوا تھی جو پہلے ہی درجنوں ممالک میں بڑے پیمانے پر بے خوابی اور ذہنی تناؤ کے علاج کے لیے استعمال ہو رہی تھی۔
 
تھیلیڈومائڈ متلی روکنے کی خصوصیات رکھتی تھی۔ حاملہ خواتین کی صبح متلی کی کیفیت کو روکنے کے لیے بھی اسے ایک مقبول علاج کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا۔ میرل کا تھیلیڈومائڈ سے متعلق ڈیٹا نا مکمل تھا، کیلسی نے اس سے متعلق مکمل معلومات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ۔آج FDA ، fetal safety کی بنیاد پر ادویات کی درجہ بندی کرتا ہے۔ لیکن 1960 میں بہت سے ماہرین کا خیال تھا کہ ادویات کے اثرات fetus تک نہیں پہنچتے۔
 
کیلسی کی ابتدائی جانوروں پر مبنی تحقیق کے مطابق ادویات ماں کے ذریعے بچے کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ وہ اپنی تحقیق کو ثابت کرنا چاہتی تھی۔
 
اس وقت دیگر ڈرگ کمپنیوں کی طرح میرل نے حاملہ جانوروں پر اپنی دوا کا تجربہ نہیں کیا تھا۔ کیلسی نے انکی رپورٹ ریجیکٹ کرتے ہوئے کہا کہ میرل کے دوا سے متعلق ثبوت صرف خانہ پری لگتے ہیں۔ تحقیق کے زمرے میں نہیں آتے ۔
 
image
 
کیلسی نے میرل کی درخواست مسترد کر دی اور ان سے کہا کہ وہ بہتر ثبوت کے ساتھ آئیں۔ اس کے ایف ڈی اے کے ساتھیوں نے اس فیصلے کی حمایت کی۔
 
میرل جلد از جلد دوا کی اپروول چاہتی تھی تاکہ چھٹیوں کے موسم کے لیے تھیلیڈومائڈ لانچ کر سکے۔ انہوں نے کیلسی کو دوا کی منظوری کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی۔ کیلسی اپنے مؤقف پر ڈٹی ہوئی تھی۔ جب وہ اس کو قائل کرنے میں ناکام رہے تو میرل کے ایگزیکٹوز نے اس کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ مسئلہ تھیلیڈومائڈ کا نہیں کیلسی کا ہے جو ضدی اور بال کی کھال نکالنے والی ہے۔ ایف ڈی اے نے کیلسی کی بھرپورحمایت کی اور کیلسی صحیح ڈیٹا نہ آنے تک ہر نئی درخواست کو مسترد کرتی رہی۔
 
 اسی دوران تھیلیڈومائڈ کے مضر اثرات کی خبریں منظر عام پر آنے لگیں۔ ڈاکٹروں نے 1961 کے اوائل میں اعصابی نقصان کے کیسز رپورٹ کیے اور ایک بھیانک سچائی سے پردہ اٹھایا۔ تھیلیڈومائڈ حاملہ خواتین کے بچوں میں شدید پیدائشی نقائص کا سبب بنتا رہا تھا۔ حتیٰ کہ بعض کیسز میں دوران حمل بچوں کی موت بھی واقع ہوئی۔
 
 ان تحقیقات کی بنیاد پر نومبر1961 میں جرمن مارکیٹ میں تھیلیڈومائڈ پر پابندی لگا دی گئی۔ اس پابندی کے باوجود میرل نے اسے امریکہ میں منظور کروانے کی کوشش جاری رکھی۔ اب کیلسی تھیلیڈومائڈ کے خطرات کی نشاندہی کرنے والی واحد سائنسدان نہیں تھی۔ اس کی مہم نے اس ڈرگ کو اربوں ڈالر کی امریکی ڈرگ مارکیٹ سے دور رکھا۔ جیسے جیسے تھیلیڈومائڈ سانحے کے بارے میں عوامی شعور میں اضافہ ہوا سائنسدان میڈیا کے لئے سنسنی بن گئے۔ اخبارات اور رسائل کی شہ سرخیوں نے کیلسی کی بہادری کا اعلان کیا۔ جبکہ صدر جان ایف کینیڈی نے انہیں وائٹ ہاؤس میں ایک ایوارڈ پیش کیا۔
 
تھیلیڈومائڈ واقعے کے بعد، کانگریس نے ایسے قوانین منظور کیے جنہوں نے ایف ڈی اے کے اختیارات کو بڑھایا اور ڈرگ کی نئی درخواستوں کے لیے سخت تقاضے مقرر کئے- کیلسی کو ایجنسی کی ڈرگ انویسٹی گیشن برانچ کا سربراہ مقرر کر دیا گیا کیونکہ وہ اس کی صحیح حقدار تھی۔ اس نے رائے پر حقائق کو ترجیح دینا، اور شارٹ کٹس پر پابندی، جیسے اصول مرتب کئے جو آج بھی لوگوں کی زندگی اور صحت کی حفاظت کر رہے ہیں۔
 
 واضح رہے یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب کسی خاتون کو کوئی اہم پوسٹ ملتی تو اس کو یہ احساس دلایا جاتا کہ وہ کسی مرد کا حق مار رہی ہے۔ زیادہ تر خواتین اسی دباؤ میں آکر کوئی پروفیشن نہیں اختیار کرتی تھیں۔ کیلسی نے اپنی جدوجہد کے ذریعے نہ صرف آگے آنے والی خواتین کے راستے ہموار کئے بلکہ اپنے اصولوں پر ڈٹے رہنے کی بھی تعلیم دی۔
YOU MAY ALSO LIKE: