مغربی معاشرے سے جنم لینے والا شخصی آزادی کا رحجان آہستہ
آہستہ دنیا بھر میں زہر کی طرح پھیلتا جارہا ہے۔مغرب کی شخصی آزادی کا
معیار اس قدر گھٹیا ہوچکاہے کہ اس میں حقیقی رشتوں کا ادب و احترام دب کر
رہ گیا ہے۔آپ نے دیکھا ہوگا کہ والدین مغربی معاشرے میں جنم لینے والی اپنی
اولاد کو خواہ وہ بالغ ہو یا نابالغ اسے اچھا یابرا سمجھانے کی خاطر ڈانٹ
ڈپٹ تو کیا اسے سمجھانے کا بھی حق نہیں رکھتے۔اسی لئے اس شخصی آزادی کی آڑ
میں کمسن لڑکیاں سرعام والدین کے سامنے اپنے بوائے فرینڈز سے بوس و کنار
کرنا اور جنسی تعلق قائم کرنے کو کوئی گناہ نہیں سمجھتیں۔ایک بین الاقوامی
رپورٹ کے مطابق مغربی آزادی کی وجہ سے غیرشادی شدہ کم سن لڑکیوں کی حاملہ
ہونے کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔مغرب کی شخصی آزادی کے برعکس اسلام
نے جس طرح ہر انسان،ہر رشتہ کو بنیادی حقوق اورآزادی دی ہے جس سے معاشرہ
میں بے حیائی اوربے راہ روی نہیں پھیلتی لیکن بدقسمتی سے اکیسویں صدی کے
آغاز کے بعد سے مغربی شخصی آزادی کا کلچر مشرق میں تیزی سے اس قدر سرایت
کرنے لگا کہ اب اس کو کنٹرول کرنا مشکل ہوگیا ہے۔
اسلامی معاشرے میں جہاں لڑکیاں اپنے والدین کی پسند اور رضامندی کو ترجیح
دیتے ہوئے شادی کرتی تھیں وہاں اب کمسن،نابالغ لڑکیوں نے گھر سے بھاگ کر
شادیاں رچانا شروع کردیں ہیں۔ ابھی کچھ روز قبل کراچی کی کمسن لڑکی دعا
زہرا کے لاپتہ ہونے کی خبریں سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگیں تو الیکٹرانک
میڈیاکو بھی سیاسی خبروں سے ہٹ کر ایک نیا موضوع مل گیا۔ دعا زہراء کی
گمشدگی کی خبریں ابھی گردش کررہی تھیں کہ کراچی کی مزید دو لڑکیوں نمرہ
کاظمی اوردینار کی گمشدگی کی خبروں نے ہر طرف ہلچل مچا دی۔کمسن لڑکیوں کے
لاپتہ ہونے کے یکے بعد دیگرے واقعات نے سب کو تشویش میں مبتلا کردیا،ایک
طرف پولیس نے تفتیش شروع کردی تو دوسری جانب میڈیا اینکرز نے اپنے تجزیے
پیش کرنا شروع کردیئے۔کمسن لڑکیوں کی گمشدگی کا معاملہ ایک معمہ بن
گیا۔دوسری جانب والدین نے انجانے خوف اور ڈر کے مارے اپنی بچیوں کو
سکول،کالج بھیجنابند کردیا۔ زیادہ تر لوگوں کا خیال تھا کہ شائد کوئی نیا
گینگ کم سن لڑکیوں کو اغواء کررہا ہے پولیس نے لڑکیوں کے
اغواء،زیادتی،سمگلنگ اوراپنی مرضی سے گھر سے بھاگ جانے جیسے پہلووں کو
مدنظر رکھ کر تفتیش کا دائرہ ملک بھر میں بڑھادیا لیکن کوئی سراغ نہیں مل
رہا تھااس دوران گمشدہ لڑکیوں کے اہل خانہ کے بیانات بھی سامنے آتے رہے
لیکن لڑکیوں کے لاپتہ ہونے کے اصل حقائق تک کوئی بھی پہنچ نہیں پارہا تھاجس
کی وجہ سے نہ صرف کراچی بلکہ دیگر شہروں میں بھی لڑکیاں اغواء کرنے والے
گینگ کا خوف بڑھتا جارہا تھا۔سوشل میڈیا صارفین کے علاوہ فنکاروں اور دیگر
شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد گمشدہ لڑکیوں کے والدین سے ہمدردی کا اظہار
کرتے ہوئے ان کی بازیابی کا مطالبہ کرنے لگے،ہر کوئی لاپتہ لڑکیوں اور ان
کے والدین کے ساتھ ہمدردی کررہا تھا۔
آخرکارچند روز بعدکمسن لڑکیوں کی گمشدگی کا ڈراپ سین سب کے سامنے آہی
گیا،کراچی پولیس نے دیگر شہروں کی پولیس کے ساتھ معاملے کی چھان بین کی تو
پتہ چلا کہ لاپتہ ہونے والی تینوں لڑکیوں کواغواء نہیں کیا گیا بلکہ تینوں
لڑکیوں نے گھر سے بھاگ کراپنی مرضی سے پسند کی شادی کرلی تھی۔ابتدائی تفتیش
کے بعد دعا زہراء کی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں جس میں اس نے
قرار کیا کہ وہ اپنی مرضی سے گھر سے بھاگی تھی اورپھر اپنی پسند کے لڑکے سے
شادی کرلی۔تینوں کمسن لڑکیوں کا یکے بعد دیگرے اچانک لاپتہ ہوجانا اورپھر
ڈراپ سین کے بعد پتہ چلنا کہ ہ تینوں لاپتہ یا اغواء نہیں ہوئیں تھیں بلکہ
مرضی سے گھروں سے بھاگیں،یہ بات ہر کسی کو بہت ناگوار لگی، وہی سوشل میڈیا
صارفین جو تینوں لڑکیوں کے لئے بے حد ہمدردی کرتے ہوئے ان کی بازیابی کے
لئے آوز بلند کررہے تھے انھیں لڑکیوں کااس طرح سے گھر سے بھاگ کر شادی کرنے
کا طریقہ مناسب نہیں لگا خصوصا ایسی لڑکیاں جو ابھی بالغ بھی نہیں ہوئیں
تھیں۔سوشل میڈیا صارفین نے اپنا غصہ نکالنے کے لئے تینوں لڑکیوں کے فنی
میمز بنانا شروع کردیئے جواس سے بھی زیادہ غیر اخلاقی بات ہے جو ان لڑکیوں
نے کی تھی۔ ایک ایشیائی سروے کے مطابق گھر سے بھاگ کر شادی کرنے والی زیادہ
ترلڑکیاں اپنا گھر بسانے میں ناکام رہتی ہیں اور پھر عمر بھر اپنی غلطی کی
سزا بھگتنا ان کا مقدر بن جاتا ہے۔اسی لئے والدین اور اسلامی معاشرے کے ہر
فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں خصوصا لڑکیوں کو اسلامی تعلیمات سے روشناس
کروائیں تاکہ پھرکسی کمسن لڑکی کو دعا،نمرہ یا دینارکی طرح اچانک گھر سے
بھاگ کر شادی کرنے کا غیر اسلامی طریقہ اختیار کرنے کا خیال نہ آسکے۔ |