سویڈن میں قرآن سوزی کے افسوس ناک واقعات

سویڈن میں ایک بدبخت اور ملعون کی جانب سے ایسٹر کے موقع پر سویڈن کے مختلف شہروں میں قرآن سوزی کے واقعات سے دنیا بھر کے مسلمانوں میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔ جب بھی کوئی بد بخت اسلام کے خلاف بے بنیاد پروپوگنڈا کرتا ہے یا ختم المرسلین ؐ، صحابہ اکرامؓ، اہل بیت اطہارؓ اور اسلام کی دیگر عظیم شخصیات کے بارے میں گستاخانہ باتیں کی جاتی ہیں اور قرآن حکیم کی توہین کی جاتی ہے تو ایک مسلمان کے لئے اس سے بڑی دل آزادی اور تکلیف دہ امر اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ اسلام دشمن عناصر یہ سب جان بوجھ کر کرتے ہیں۔ ان کا مقصد اہل اسلام کے جذبات سے کھیلنااور انہیں زچ کرتے ہوئے تعصب اور مذہبی منافرت کا نشانہ بنانا ہوتا ہے۔ وہ آزادی رائے کی آڑ میں ایسی مذموم حرکتیں کرکے شہرت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ سویڈن میں قرآن سوزی کے افسوس ناک واقعات کا سلسلہ چند سال پہلے شروع ہوا۔ اس بدبخت شخص کو یورپ کے دیگر ممالک مثلا جرمنی، فرانس، بیلجیئم، برطانیہ نے داخلہ کی اجازت نہیں دی اور اس پر پابندی عائد کردی۔ وہ شخص بنیادی طور پر سویڈن کا رہنے اور اس وقت ڈنمارک میں مقیم ہے اور دائیں بازو کی انتہا پسند جماعت سے وابستہ ہے۔ سویڈن میں مسلمان سراہا احتجاج ہیں اور جن شہروں میں اس بد بخت نے قرآن سوزی کی مذموم حرکت کی وہاں اس کے مخالف زبردست مظاہرے ہوئے جن میں کئی مظاہرین اور پولیس والے باہمی جھڑپوں میں زخمی بھی یوئے۔ مظاہرین کا شدید رد عمل کی وجہ ایک تو اس بدبخت شخص کو قرآن سوزی کی اجازت دینا اور پھر پولیس کا اسے تحفظ فراہم کرنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب دیگر یورپی ممالک نے اس پر پابندی لگائی ہے تو سویڈن اسے کیوں اجازت دے رہا ہے؟ اس کی وجہ سویڈن کا شہری آزادی کا قانون ہے جو یہاں کے آئین میں لکھا ہے اور اس پر حکومت پابندی عائد نہیں کرسکتی۔ سویڈن میں اگر کوئی احتجاج کرنا چاہے تو اسے قانون کے مطابق روکا نہیں جاسکتا۔

تین برس قبل جب دنیا میں کورونا کی وبا شروع ہوئی اور دنیا کے تمام ممالک نے نقل و حمل پر پابندیاں عائد کیں اور لاک ڈاؤن کیا گیا لیکن سویڈن میں ایسا کچھ نہیں ہوسکا۔ اس کی وجہ بھی یہی شہری آزادیوں کا آئینی حق تھا۔ جب کورونا کے حالات بہت شدید ہوئے تو پھر پارلیمنٹ نے عارضی طور پر کچھ اقدامات کرنے کی اجازت دی لیکن لاک ڈاؤن کی اجازت پھر شامل نہ تھی۔ قرآن سوزی کرتے والا بدبخت اسی قانون کی آڑ میں یہ شیطانی حرکتیں کررہا ہے لیکن شدید رد عمل نے سویڈن کی حکومت کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اسے سویڈن کے شہر بوروس میں اجازت نامہ نہیں دیا گیا لیکن اس نے یکم مئی کو سویڈن کے مختلف شہروں میں یہ شیطانی کام کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ سویڈن کے مختلف شہروں میں پرامن مظاہرے بھی ہوئے ہیں جن میں شرکاء نے حکومت سویڈن پر واضح کیا ہے کہ آزادی رائے کو توہین مذہب سے نہ جوڑا جائے۔

سویڈن میں کچھ مسلم راہنماؤں کی رائے ہے کہ قرآن سوزی ایک جرم ہے اور اس مذموم حرکت کا کوئی جواز نہیں۔ یہ نفرت انگیز اور شرمناک عمل ہے اور ہم ایسی حرکتوں پر اپنی آنکھیں بند نہیں کرسکتے۔ ایسے واقعات آزادی اظہار کو پامال کرنے اور معاشرتی تقسیم اور نفرت پھیلانے کا باعث ہیں۔ ایک مسلمان ماہر سیاسیات بیرول باسکان کا کہنا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان پریشان ہیں اور یہ کہ احتجاج کرنا مناسب ہو سکتا ہے، لیکن تشدد کا سہارا نہیں لینا چاہیے۔ غیر مسلموں کو مسلمانوں کے مذہب کا احترام کرنا چاہیے، لیکن مسلمانوں کو بھی ملکی قوانین اور آزادیوں کا احترام کرنا چاہیے۔ اہم بات یہ ہے قرآن سوزی کے واقعات کے مخالف ہونے والے مظاہروں میں سویڈش مسلمانوں کی نمائندہ تنظیمیں اور مذہبی راہنما نمایاں طور پر سامنے نہیں آئے۔ سویڈن میں مسلمانوں کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ یہ بدبخت شخص مسلمانوں کے جذبات سے کھیل رہا ہے اور یہ جانتا ہے کہ اس کے شیطانی عمل کے بعد مسلمانوں میں شدید اضطراب پیدا ہو گا اور رد عمل آئے گا اور اس کی تشہیر ہوگی۔ اس لئے ہمیں چاہیے کہ ہم اسے بالکل نظر انداز کریں تاکہ نہ یہ میڈیا میں آئے اور نہ اس کے مذموم مقاصد پورے ہوں۔ ایسے واقعات کی ویڈیو، خبریں اور دیگر تفصیلات نہیں پھیلانی چاہیں اور نہ ہی سوشل میڈیا پر ان کی تشہیر کرنی چاہیے۔ ہمیں قانون کے اندر رہ کر کوشش کرنی چاہیے اور حکام پر واضح کرنا چاہیے کہ یہ آزادی رائے نہیں بلکہ توہین مذہب اور دوسروں کے جذبات کے ساتھ کھیلنا ہے اور اس کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ آزادی رائے کے قانون میں اس حوالے سے ترمیم ہونی چاہئے۔ اس کے لئے لابنگ اور قانونی جدوجہد کی ضرورت ہے اور مسلم سیاستدانوں او ر ماہرین قانون کو یہ کوشش کرنا ہوگی۔

سویڈش سیاسی جماعت کرسچن ڈیموکریٹس کی سربراہ ایبا بش نے اس حوالے سے متنازعہ بیان دیتے ہوئے کہا کہ قرآن سوزی کے واقعات کے خلاف پر تشدد ہنگامہ کرنے والوں سے پولیس کو سختی سے نبٹنا چاہیے تھا اور ان پر فائرنگ کرنی چاہیے تھی۔ انہوں نے کہا کہ پرتشدد مظاہرین کے ہاتھوں پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں حالانکہ زخمی تو مظاہرین کو ہونا چاہیے تھا۔ اس بیان کے بعد ایبا بش پر بہت تنقید کی گئی۔ تنقید کرنے والوں میں سویڈش خود پولیس کے اہلکار شامل ہیں۔ پولیس ملازمین کی یونین کے راہنما پیٹر لندستروم کا کہنا ہے کہ کرسچین ڈیموکریٹ پارٹی کی سربراہ نے بہت خطرناک بات کی ہے۔ سویڈش پولیس جمہوری اصولوں کے تحت ایسا نہیں کرسکتی۔ ہمیں فخر ہے کہ ہماری پولیس نہ اپنے لوگوں پر گولی چلاتی ہے اور نہ انہیں نقصان پہنچاتی ہے۔ سویڈن کے وزیر انصاف مورگن جوہانسن نے بھی انہی خیالات کا اظہار کیا ہے کہ پولیس عوام کے تحفظ کے لئے ہوتی ہے نہ یہ ان پر تشدد کرنے کے لئے ہوتی ہے۔ جہاں تک قرآن سوزی کرنے وا لے بدبخت شخص کا معاملہ ہے تو وہ خدا کے قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکے گا جس کا ذکر سورہ العنکبوت کی آیت 4 میں یوں ہے کہ کیا جو لوگ برے کام کرتے ہیں یہ گمان کئے ہوئے ہیں کہ وہ ہمارے قابو سے باہر نکل جائیں گے؟ کیا ہی برا ہے جو وہ (اپنے ذہنوں میں) فیصلہ کرتے ہیں‘‘
 

Arif Kisana
About the Author: Arif Kisana Read More Articles by Arif Kisana: 276 Articles with 264190 views Blogger Express Group and Dawn Group of newspapers Pakistan
Columnist and writer
Organiser of Stockholm Study Circle www.ssc.n.nu
Member Foreign Pr
.. View More