صحافت ، خواہ جس زبان کی ہو ، اس کی اہمیت اور
افادیت کو ہر زمانہ میں تسلیم کیا گیا ہے۔ ہماری سماجی، سیاسی، معاشرتی،
تہذیبی اوراقتصادی زندگی پر جس شدّت کے ساتھ اس کے اثرات مثبت اورمنفی
دونوں طریقے سے مرتسم ہوتے رہے ہیں ۔اس کا بہر حال اعتراف تو کرنا ہی
ہوگا۔صحافت ترسیل وابلاغ کا اتنا مؤثراور طاقتور ذریعہ ہے اورواقعات حاضرہ
کی معلومات بہم پہنچانے کااتنا مضبوط وسیلہ ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے سماجی
پیشوا، سیاسی رہنما اور مشاہیرادب نے نہ صرف اس کی بھرپور طاقت کے سامنے
سرتسلیم خم کیا بلکہ اپنے افکار واظہار کی تشہیر کے لیے صحافت سے منسلک بھی
رہے ۔تاریخ شاہد ہے کہ صحافت نے کتنے ہی ملکوں کے تختے پلٹ دئے، بڑے بڑے
انقلابات کوجنم دیا، اورظالم حکمرانوں کے دانت کھٹّے کردیے۔ عالمی پیمانہ
پر ایسے کئی مقام آئے، جب صحافت کی بے پناہ طاقت، اس کی عوامی مقبولیت
اوراس کی تنقید سے خوف زدہ ہوکر اس پرپابندیاں عائد کی گئیں۔ صحافت نے جیسے
جیسے بتدریج ترقی کی ، ویسے ویسے اس کی مقبولیت، اہمیت اورافادیت بڑھتی گئی
اورلوگوں کومتوجہ کرانے میں کامیاب بھی ہوتی گئی ۔ اس طرح صحافت انسانی
زندگی کا ایک اہم حصہ بن گئی۔
ا قوام متحدہ کے ذریعہ گزشتہ 1993ء سے ہرسال 3؍ مئی کوعالمی سطح پر یوم
آزادیٔ صحافت کا انعقاد کیا جاتا ہے ۔ہم اس حقیقت سے قطیٔ انکار نہیں کر
سکتے ہیں کہ عصر حاضر میں اخبارات اور ٹیلی ویژن کے نیوز چینلوں نے جس طرح
گھرگھر میں اپنی جگہ بنا لی ہے، اس سے اس کی روز بروز بڑھتی مقبولیت کا
اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔اسی مقبولیت، اہمیت اور افادیت کے پیش نظر آج کے
دن کو اقوام متحدہ نے آزادیٔ صحافت کے لئے مخصوص کیا ہے۔
صحافت نے جیسے جیسے اپنے قدم بڑھائے ویسے ویسے دنیا کے بڑے بڑے عظیم مفکر،
دانشور، سربراہ، ادیبوں،سیاستداں اوررہنما اس اہمیت کے معترف ہوتے چلے گئے۔
لیکن جب صحافت پر سیاست حاوی ہونے لگی اور دنیا کے بڑے بڑے صنعت کار ، دولت
مند اور بعض ممالک کی حکومتیں، صحافت کی بے پناہ طاقت کا اپنے مفاد میں
استعمال کرنے لگیں ،تب ایسے حالات سے متاثر ہو کر اقوام متحدہ کی جنرل
اسمبلی نے 1991 ء کی اپنی 26ویں اجلاس میں منظور قرارداد کو نافذکرتے ہوئے
1993ء سے ہر سال 3 ؍ مئی کو عالمی سطح پر یوم آزادیٔ صحافت کے انعقاد کا
فیصلہ کیا ۔ جس کے تحت صحافتی تحریروں پر پابندی لگانے، انھیں سنسر کرنے،
جرمانہ عائد کرنے، صحافیوں کو زدوکوب کئے جانے ، ان پر جا ن لیوا حملہ یا
انھیں اغوأ کئے جانے اور انھیں بے دردی سے قتل کئے جانے پر غور و فکر کرنے
اور ان کے سدّباب کی کوششوں کے ساتھ ساتھ ایسے حالات سے نپٹنے ، حکمت عملی
تیار کئے جانے اورحکومت وقت کو انتباہ کئے جانے پر زور دیا گیا ہے۔
یونیسکو نے ایسے مقامی اور عالمی سطح کے اداروں ، شعبوں ، این جی اوز وغیرہ
کوصحافتی حفاظت ، آزادیٔ صحافت اور ترقی ٔ صحافت کے لئے مثبت اقدام اور اس
ضمن میں غیرمعمولی خدمات کے لئے 1997 ء سے چودہ آزاد صحافیوں کی جیوری سمیت
یونیسکو کے اسٹیٹ ممبران کی سفارش پر کولمبیا کے ایک اخبار El Espectador
کے مقتول صحافی Guillermo cano isaza جو کہ 17 ؍دسمبر1986 ء کو کولمبیا کے
ایک بہت بڑے اور دولت مندصنعت کار کے خلاف لکھنے کی پاداش میں ہلاک کر دیا
گیا تھا ، ان کے نام پر ایک باوقار ایوارڈ کا فیصلہ کیا گیا ، تاکہ نہ صرف
جمہوریت کا استحکام اور اس کا افادی پہلو کا دائرہ وسیع ہوبلکہ مفاد عامّہ
کے لئے صحافت اور صحافتی خدمات پر معمور صحافیوں کی اہمیت اور افادیت کو
تسلیم کیا جائے کہ کس طرح نامساعد حالات میں عوامی مفاد کے لئے رائے عامّہ
تیار کرتے ہیں ۔
اس کے لئے 1سے3 مئی 2011 ء میں امریکہ کے واشنگٹن شہر میں عالمی یوم آزادیٔ
صحافت کا جلسہ بڑے پیمانہ پر انعقادکیا گیا اور اس موقع پر اکیسویں صدی کے
میڈیا اور اس کی بنیادی آزادی پر کئی ممالک کے مندوبین نے بحث و مباحثہ میں
حصّہ لیا تھا ۔
لیکن افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ان تمام کوششوں کے باوجود دنیا کے بیشتر ممالک
بشمول بھارت میں آزادیٔ صحافت پر پہرے بٹھائے جانے ، صحافیوں پر پُر تشدّد
حملے اور قتل کے واقعات تیزی سے بڑھ ہیں ۔ امریکی فریڈم ہاؤس کی جانب سے
جاری ایک جائزہ کے مطابق گزشتہ سال 70 ممالک میں صحافتی آزادی ، 61 ممالک
میں جزوی طور پر اور 64 ممالک میں آزادیٔ صحافت پر مکمل پابندی رہی۔ سوویت
یونین ، مشرق وسطیٰ اورشمالی افریقہ میں صحافت کی آزادی سلب رہی ، جبکہ
اسرائیل ، اٹلی اور ہانگ کانگ میں ایران ، لیبیا، شمالی کوریا ، میانمار،
روانڈا اور ترکماستان وغیرہ میں صحافت ،اپنی آزادی کے لئے کراہتی رہی۔
آزادیٔ صحافت یعنی Press freedomکے ضمن میں بین الاقوامی سطح پرہونے والے
ایک سروے کی رپورٹ کے مطابق2021 ء میں180 ممالک میں ہمارا ملک بھارت پائدان
در پائدان نیچے گر کراب142 ویں پائدان پر آ گیا ہے۔
آزادیٔ صحافت کو جس طرح مختلف مما لک میں سلب کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں
اور آئے دن جس طرح صحافیوں کو یرغمال بنا کر اور پھر انھیں جس بے دردی سے
ہلاک کیا جا رہا ہے ، یہ انتہائی افسوسناک ہے ۔ نیو یارک میں قائم صحافیوں
کے تحفظ کی ایک تنظیم سی پی جے ( to protect Journalists Comittee ) نے
اپنی 2021ء کی جاری کی جانے والی اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اس سال جیلوں
میں قید کئے جانے والے صحافیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے ۔دنیا بھر میں
293 صحافیوں کوآزادانہ صحافتی ذمّہ داریوں کے باعث جیلوں میں بند کیا گیا
ہے جبکہ 24 صحافیوں کو انھیں ڈیوٹی کے دوران ہلاک کیا گیا۔جیلوں میں قید
کئے جانے والے 293 صحافیوں میں بڑی تعداد چین اور میانمار کی ہے ۔ دوسری
جانب اپنی صحافتی خدمات کے درمیان عالمی سطح پر ہلاک کئے جانے والے 24
صحافیوں میں زیادہ تعداد 5 کی بھارت کی ہے ۔ ہندوستان میں گزشتہ دو برسوں
میں ملک کے 256 صحافیوں پر تشدد کے واقعات سامنے آئے ۔اس سلسلے میں عوامی
مسائل اورایسے معاملات پر تحقیقات کرنے والی نیو یارک کی ایک تنظیم پولیس
پروجیکٹ نے بتایا ہے کہ بھارت میں صحافیوں کو جھوٹے مقدمات میں گرفتار ی سے
لے کر قتل کئے جانے تک کئی طرح کے تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔جس کی وجہ
کر اس ملک میں صحافت ایک خطرناک پیشہ بن چکا ہے ۔ اس تنظیم سے وابستہ سچترا
وجیئن نے اس بات پر افسوس ظاہر کیا کہ بھارت کی حکومت صحافیوں کو اپنی پیشہ
ورانہ ذمّہ داریاں ادا کرنے سے روکنے کے لئے مختلف طریقے اپنا رہی ہے ۔ان
کے مطابق ـ’’ موجودہ حکومت بھارت میں صحافیوں کو ڈر ا دھمکا کر ،گرفتار کر
یا فرضی کیس درج کرکے یا ان پر ملک سے غڈّاری کے الزامات عائد کئے جاتے ہیں
اور انھیں مسلسل اپنی صحافتی رپورٹنگ پر گرفتار کئے جانے کا خطرہ ستاتا
رہتا ہے ۔ سچترا نے اس ضمن میں مذید بتایا کہ ’ جو صحافی حکومت سے سوال
کرتے ہیں ان کے خلاف سخت قوانین کے تحت مقدمات درج کئے جاتے ہیں ۔ بھارت
میں میڈیا پر بڑھتی ہوئی غیر اعلانیہ پابندیوں نے پریس کی آزادی کے لئے بڑا
خطرہ پیدا کر دیا ہے ۔صحافیوں کے تحفظ کی ایک بین الاقوامی تنظیم ورلڈ پریس
فریڈم انڈیکس نے سال رواں میں 37 ایسے رہنماوں کی فہرست جاری کی ہے جو
میڈیا پر مسلسل حملہ ور ہیں ان میں بھارت کے وزیر اعظم کا بھی نام شامل ہے
۔ پولیس پروجیکٹ 2021 کی رپورٹ آنے سے چند دنوں قبل ہی اقوام متحدہ کے
سکریٹری جنرل انٹونیو گوئٹریش نے دنیا بھر میں صحافیوں کی آزادی کے حق میں
ایک اہم بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک آزاد نہیں
رہ سکتا جب تک کہ اس میں صحافیوں کو ارباب اختیار کے غلظ اقدامات کی تفتیش
کرنے اور سچ بولنے کی اجازت نہ ہو۔
اس امر سے ہم انکار نہیں کر سکتے ہیں کہ اظہار رائے کی آزادی اور انسانی
حقوق کے الفاظ معاصر منظر نامے میں بے معنی اور بے وقعت ہوتے جا رہے ہیں ۔
اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے ، لیکن قلم اور کیمرے کو جس طرح جبر و تشدّد
کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اورآزادیٔ صحافت اور اس کی آواز کو دبانے کی
کوششیں کی جارہی ہیں ۔ وہ بہت ہی تشویشناک ہے۔حقیقت یہ ہے کہ صحافت کا اصل
کام اداروں کا ہمہ وقت احتساب کرنا اور حکومت اور عوام کے درمیان رابطے کی
ذمّہ داریوں کو نبھانا ہوتا ہے ۔ لیکن آج مختلف ممالک میں جس طرح اقتدار پر
قابض ہونے والے حکمراں تمام تر اخلاقی، انسانی ، آئینی تقاضوں کو فراموش
کرتے ہوئے حکمرانی کر رہے ہیں ۔ ظاہر ہے ایسے حالات میں وہ سچ اور ہمت و
جرأت کے ساتھ صحافتی تقاضوں کو پورا کرنے والی صحافت کو کس طرح برداشت کر
سکتے ہیں۔ جب کہ کسی بھی جمہوری ملک کی جمہوریت اور اس کے استحکام و بقا کے
لئے ، سیکولرزم کے فروغ اور سماج کا رخ موڑنے میں صحافت نے جو رول ادا کیا
ہے اور کر سکتے ہیں، انھیں فرا موش نہیں کیا جا سکتا ہے ۔آج کے یوم آزادیٔ
صحافت کے موقع پر ایسا محاسبہ ضرور ہونا چاہئے ۔ |