بوڑھا بھکاری

عید کے بعد رات کے وقت کھانے کے بعد میں اپنے دوست کے ساتھ کڑک الائچی والی گرما گرم بھاپ اڑاتی خوشبودار چائے کی تلاش میں لاہور کی سڑکوں پر آرام دہ ٹھنڈی کار میں رواں دواں تھا ساتھ میں ہم رمضان المبارک کے جانے کی اداسی روح پرور عبادات کا ذکر بھی کرتے جار ہے تھے کہ اچانک ریڈ سگنل پر کار رک گئی تو ہمیشہ کی طرح بھکاریوں کے ریوڑ نے رکنے والی مختلف گاڑیوں پر حملہ کر دیا اِن بھکاریوں میں زیادہ تعداد ہیجڑوں اور چنگڑوں کی اجڈ خواتین اور بچوں کی تھی جو تعلیم و تربیت تہذیب و تمدن اخلاقیات سے ہزاروں میل دور جنگلی جانوروں کی طرح اچھل اچھل کر گاڑیوں پر مکوں گھونسوں کی برسات جاری رکھے ہوئے تھے یہ بھکاری کم چنگیزی فوج کے جنگجو زیادہ لگ رہے تھے کہ اگر انہیں پیسے نہ دئیے تو وہ کار اور کار کے سواروں کو کچل کر رکھ دیں گے گاڑیوں کے اندر ڈرے سہمے لوگوں نے فوری طور پر اِن حملہ آوروں سے جان چھڑانے کے لیے پیسے دینے شروع کر دئیے جن کے پاس پیسے نہیں تھے وہ ہاتھ جوڑ کر اِن حملہ آوروں سے معافیاں مانگ رہے تھے جب کوئی اِن کو انکار یا معافی مانگتا تو اِن کی وحشت میں اضافہ ہو جاتا ماتھے پر غصے گستاخی کے بل پڑ جاتے دھمکی آمیز لہجے اور مکا لہراتے ہوئے کہتے نکالو پیسے اتنی مہنگی گاڑی میں مہنگے کپڑے پہن کر پھر رہے ہو اور ہمارے لیے تمہارے پاس پیسے نہیں ہیں اور اگر کوئی اِن کو دس روپے کا نوٹ دیتا تو یہ گرج دار آواز میں دھاڑتے حکم صادر فرماتے بڑا نوٹ نکالو نہیں تو ہماری بد دعاؤں کے لیے تیار ہو جاؤ خاک ہو جاؤ گے برباد ہو جاؤ گے اب گاڑیوں میں بیٹھے خو ف زدہ لوگ بیچارے بار بار ریڈ سگنل کو گرین ہونے کے انتظار کی سولی پر لٹکے کہ کب گرین سگنل ہو اور یہ بیچارے اِن خونخوار حملہ آوروں کی گرفت سے بھاگ نکلیں پھر جیسے ہی گرین سگنل ہوا ہم حملہ آوروں کی گرفت سے آزاد ہو کر آگے بڑھ گئے جب بھی رمضان المبارک کا مہینہ آتا تو حق تعالیٰ کے ارشاد اور آقا کریم ﷺ کے فرمان کے مطابق امت مسلمہ اپنی تجوریوں کے منہ کھول دیتی سنگدل سے سنگدل مسلمان بھی سخاوت پر اُتر آتے تاکہ بخشش کے اِس مہینے میں اپنی آخرت سنوار سکے مسلمانوں کے سخاوت کے جذبے کو دیکھتے ہوئے ملک کے کونے کونے سے بھکاریوں گدا گروں کے گروہ حملہ آور جتھوں کی شکل میں بڑے شہروں پر حملہ آور ہو جاتے ہیں اِن میں زیادہ تعداد خانہ بدوش چنگڑوں کی ہو تی ہے جو مذہب معاشرتی اخلاقیات سے کو سوں دور ہوتے ہیں پھر اِن میں ہیجڑوں کی فوج بھی شامل ہو جاتی ہے اِن خونخوارحملہ آوروں میں اصلی مظلوم حق پیس جاتے ہیں مضبوط جسم و جان کے مالک یہ حملہ آوران کمزور یتیموں مسکینوں لا وارث بوڑھوں کو روندتے ہوئے دھکے دیتے ہوئے گاڑیوں پر حملہ آور ہو تے ہیں تو اصل حق دار مدد سے محروم رہ جاتے ہیں یہ بد معاش حملہ آور لوٹ مار کر جاتے ہیں اِن وحشی درندوں میں اگر کوئی اکا دکا مظلوم کمزور نظر آبھی جائے تو وہ بیچارہ ابھی بات یا سوال کر ہی رہا ہو تا ہے کہ یہ اُس کو پیچھے دھکیل کر خود لوٹ مار شروع کر دیتے ہیں عید سے پہلے آخری عشرے میں ایک دوست کے ساتھ میں کسی حق دار فیملی کو راشن دینے کے لیے نکلا تو اِسی طرح ایک چوراہے پر ٹریفک سگنل پر جب ہماری گاڑ ی رکی چنگڑوں ہیجڑوں کے جتھوں نے سب گاڑیوں پر حملہ کر دیا میں اِن خونخوار حملہ آوروں کو تجسس بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا اِن خونی چہروں میں مجھے ایک بوڑھا شخص جو کمزوری سے اپنے جسم کو گھسیٹتا ہو اہماری کار تک آنے کی کو شش کر رہا تھا کہ ایک چنگڑ عورت بڑے ڈیل ڈول والی مرد نما بوڑھے کو دھکا دیا وہ بیچارہ سڑک پر گر گیا میں تیزی سے نیچے اُترا چنگڑ عورت مدد کی بجائے دوسری گاڑی پر حملہ آور ہو گئی میں نے بوڑھے کو اٹھا یا کا ر کا پچھلا دروازہ کھولا اندر بٹھایا اِسی دوران گرین اشارہ آن ہوا ہماری کار سڑک پر بے نور دھندلی آنکھوں والے بوڑھے شخص کو دیکھا جو حیرت پریشانی میں تھا کہ ہم نے اُس کو اپنی کار میں کیوں بیٹھا لیا ہے میں نے ٹھنڈے جوس کا ڈبہ بوڑھے کو دیا اور پیار سے کہا آپ پریشان نہ ہوں آپ کی مدد کے لیے آپ کو کار میں بٹھا یا ہے ساتھ ہی کچھ پیسے بھی اُس کے ہاتھ میں رکھ دئیے تو بوڑھا کچھ نارمل ہوا تو میں نے پوچھا بابا جی ہم راشن بانٹ رہے ہیں میں آپ کو راشن کا توڑا بھی دینا ہے بلکہ آپ کہاں رہتے ہو آپ کو آپ کے گھر اتار آتے ہیں آپ کے بچے نہیں ہیں جو آپ اِس بڑھاپے میں سڑکوں پر رُل رہے ہیں تو بوڑھا شرمندہ لہجے میں بولا کاش میرا کوئی بیٹا ہو تا میری سات بیٹیاں ہیں میں اکلوتا بوڑھا باپ ان کا کمانے والا آپ مُجھ سے گھر پوچھ رہے ہیں میں تو پنجاب کے دور دراز شہر سے یہاں پر رمضان المبارک کی مزدور ی کرنے آیا ہوں اپنے شہر میں جب بھوکا مرنا شروع کیا رشتہ داروں محلے داروں نے دھکے دینا شروع کئے تومیں مزدوری تو کر نہیں سکتا بھیک مانگنے کے لیے سڑکوں پر آگیا پچھلی بار جب کسی کے کہنے پر لاہور رمضان میں بھیک مانگنے کی مزدور کر نے آیا تو اتنے پیسے اکھٹے ہو گئے کہ سال بھر روٹی کھا سکیں اب اِس بار پھرمیں رمضان کے مبارک مہینے میں لاہور آیا ہوں دن رات سڑکوں پر بھیک مانگتا ہوں رات کو قریبی پارک یا سڑک کے کنارے سو جاتا ہوں سحری افطاری لنگر خانوں یا مسجدوں میں کرتا ہوں جو مزدوری کرتا ہوں اپنے جاننے والے کو دیتا ہوں وہ ایزی لوڈ کے ذریعے میرے گھر پیسے بھیج دیتا ہے اِس بڑھاپے میں کون ہے جو اِس طرح سڑکوں پر دھکے کھا تا ہے پتھریلی سڑک پر گر تا ہے اولاد کا دکھ اور پیٹ بھر نے کے لیے بوڑھی ہڈیاں توڑ رہا ہوں پھر بابا شفیع اپنی غربت کے حالات سنا کر خود بھی اور ہمیں بھی رولاتا رہا میں نے بوڑھے بھکاری سے ایڈریس لیا اپنے دوست کو اُس کے علاقے میں فون کیا جو مالدار تھا اُس کی ڈیوٹی لگائی کہ ہر ماہ اتنے پیسے اِن کے گھر بھیج دیا کرو باقی لاہور میں ایک دوست کی ڈیوٹی لگائی اور بوڑھے شفیع کو بتا دیا کہ اب تم بھیک مانگنا بند کرو اﷲ تم کو گھر میں رزق دے گا پھر بابا شکریہ ادا کر کے چلا گیا آج عید کے بعد میں بھکاریوں کے جتھوں میں دیکھ رہا تھا کہ کوئی بوڑھے بھکاری جیسا مظلوم حق دار تو نہیں جو مدد مدد پکار رہا ہوں ہمیں اپنے اطراف میں ایسے مظلوم حق داروں پر نظر رکھنی چاہیے ۔
 

Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 801 Articles with 653804 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.