محترم جناب وزیراعلی و زیر کھیل خیبر پختونخواہ محمود خان!

اگر کسی کے شلوار میں سوراخ ہوں اور کوئی اس سوراخ کی نشاندہی کرے تو بجائے سوراخ کی نشاندہی کرنے والے شخص کے خلاف کاروائی کے‘ سوراخ کو بند کیا جائے تو پھر شلوار میں سوراخ ہے کی آواز کوئی نہیں نکالے گا

عنوان: ضم اضلاع میں سپورٹس کے حوالے سے پالیسیاں تضاد کا شکار کیوں

جناب عالی !

گزارش ہے کہ آپ خیبر پختونخواہ کے کھیلوں کے وزیر ہیں اضافی وزارت ہونے کی وجہ سے آپ سیکرٹری کے ذریعے اس محکمے کو چلا رہے ہیں‘ لیکن آپ کی دلچسپی بھی اتنی ہی ہے جتنی اس ملک کی سیاسی پارٹیوں کو پاکستان سے ہے‘ میری بات یقینا آپ کو بری بھی لگے لیکن یہ حقیقت ہے کہ یا تو آپ انتہائی سادہ گل شخصیت ہیں یا پھر آپ کو صوبائی بیورو کریسی ماموں بنا رہی ہیں اور گذشتہ دو ادوار سے جب سے آپ وزیر کھیل ہیں بیورو کریسی کے ہاتھوں ماموں بن رہے ہیں جس کے اثرات صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ سمیت اب ضم اضلاع پر بھی پڑ رہے ہیں.
محترم محمود خان صاحب!
ضم اضلاع جو ایک زمانے میں قبائل کہلائے جاتے تھے زندگی کے ہر شعبے کیساتھ ساتھ کھیلوں کے شعبے میں بھی ٹاپ پر ہیں لیکن حیران کن طور پر سابق قبائلی علاقے جو پہلے وفاق کے زیر انتظام تھے اب صوبے کے زیر انتظام ہونے کے باوجود بھی ان کیساتھ وہی پرانا سلوک ہورہا ہے‘ اگر پہلے سٹیڈیم اور سہولیات کے نام پر وفاقی نمائندے فنڈز اڑاتے تھے تو اب صوبائی حکومت اور آپ کی وزارت ان فنڈز کو اڑا رہی ہیں. جس کا نقصان اس صوبے کے عوام ہی اٹھائیں گے کیونکہ اس صورتحال میں ضم ہونیوالے اضلاع میں وہی احساس محرومی پیدا ہورہی ہیں. کیا آپ نے کبھی پوچھا ہے کہ کتنے ضم اضلاع میں اس وقت سٹیڈیم موجود ہیں اور یہ کب سے تعمیر ہورہے ہیں اب تک کتنے فنڈز اس کیلئے ریلیز ہوچکے ہیں‘ پرانے کھاتے چھوڑیں کہ وفاق سے سٹیڈیم اور سپورٹس پر کتنا فنڈز نکالا گیا اور غرق ہوا.آپ یہ صرف دیکھ لیں کہ آج بھی مہمند میں کرکٹ سٹیڈیم نہیں‘ اسی وجہ سے چھبیس مئی کو پشاور میں پی سی بی ٹرائلز کرکٹ کے ٹرائلز لے گی.
کیا یہ وہاں کے نوجوانوں کیساتھ زیادتی نہیں‘ وہاں پر روزگار کے مواقع نہیں ایسے میں کتنے غریب لڑکے ٹرائلز کیلئے آسکیں گے.کیا یہ ٹرائلز مہمند میں نہیں ہوسکتے‘ صرف مہمند نہیں دیگر ضم ہونیوالے اضلاع کی صورتحال بھی تقریبا یہی ہے حالانکہ خیبر ضلع سے کرکٹ کے میدان سمیت مارشل آرٹ‘ آرچر ی کے میدان کے سٹار نکلے ہیں اور نکل رہے ہیں مگر وہاں پر سہولیات کیا ہے. آپ کے سامنے تو فائل لائی جاتی ہیں اور پی سی ون منظور ہوتے ہیں لیکن یہ پی سی ون کاغذات میں کتنے ہوئے‘ کھیل اور کھلاڑیوں کیلئے کیا کچھ بنا‘ کتنے گیمز صوبائی سطح پر ہوئے. آپ یہ انکوائریں کریں کہ ضم اضلاع کے کن کن اضلاع سے کھلاڑی حقیقت میں آئے اور کونسے اضلاع کے مائیگریٹ ہوکر پشاورآنیوالوں نے اپنے علاقے کی نمائندگی کی.
یہ سب باتیں آپ کو کہانی لگ رہی ہورگی لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ضم اضلاع کے سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں پشتو مثل کے بقول " شپہ تیرول اورحجرہ.... والا کام چل رہا ہے‘ آخری لفظ اس لئے نہیں لکھ رہا کہ یہ بہت سخت لفظ ہے لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ پراجیکٹ میں بھرتی ہونیوالے سفارشی افراد اب بھی ضم اضلاع میں تعینات ہیں جن کی تعیناتی کا ریکارڈ بھی جعلی ہے اور جعلی کاغذات پر سکاؤٹس کو اہم عہدے دے دئیے گئے. پشاور سمیت صوبے کے کسی بھی ضلع میں ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسر کی تعیناتی پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ہوتی ہیں. لیکن یہ پالیسی ضم اضلاع کیلئے نہیں.وہی پرانے میٹرک پاس‘ ایف اے پاس میڈیا مینجرز جنہیں صرف مال بنانے کا کام آتا ہے جو کہ حقیقت بھی ہے ورنہ اگر آپ کو یقین نہیں تو ان سب کے اثاثے چیک کریں کہ سپورٹس کے علاوہ انہیں سب کچھ آتا ہے اور یہ سپورٹس کے شعبے میں بیٹھے عوامی ٹیکسوں کا پیسہ اڑا رہے ہیں.
محترم محمود خان صاحب! آپ ضم اضلاع کے ڈی ایس اوز کی فہرست منگوا کر دیکھ لیں کہ محکمہ تعلیم سے تعلق رکھنے والے کتنے اہلکار اب ڈیپوٹیشن پر سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں تعینات ہے‘ تنخواہیں اپنے ڈیپارٹمنٹ سے لیتے ہیں اور فنڈز ضم اضلاع کے سپورٹس ڈائریکٹریٹ سے‘ لیکن پھر بھی کہیں پر کھیلوں کے مقابلے نہیں ہوتے. کتنے اہلکاروں کا ریکارڈ موجود نہیں‘ کسی بھی سطح پر لیکن وہ بہت کچھ کررہے ہیں بشمول کاغذات میں ٹینڈرز کے‘ سال 2015 میں سائیکلنگ کے مقابلوں کے علاوہ ان اضلاع میں کونسے مقابلے ہوئے جس میں بھی سائیکلوں کی خریداری میں بھی بڑے گھپلے ہوئے جس کی تحقیقات بھی جاری تھی لیکن نامعلوم وجوہات کی بناء پر یہ سب کچھ روک دیا گیا.اس کے علاوہ ضم ہونے کے بعد کونسے کھیلوں کے مقابلے ہوئے‘ بیشتر قبائلی نوجوان پشاور آکر کھیلوں سے وابستہ ہوتے ہیں.اسی طرح ڈی ایس اوز کے عہدوں پر تعینات ہونیوالوں سے یہ پوچھنے کی ضرورت ہے کہ ضم اضلاع میں اب تک کتنے مقابلے کروائے گئے. کتنے کھلاڑی مختلف کھیلوں سے نکلے ہیں.صرف پشاورمیں ضم اضلاع کے سپورٹس ڈائریکٹریٹ اور سیکرٹریٹ میں افسران کے گھروں میں تحائف اور کھیلوں کا سامان بھیجنے سے کچھ نہیں ہوتا. میدان میں بھی کچھ کرنے کی ضرورت ہے.
اب اس سے زیادہ بدقسمتی کی بات اور کیا ہوگی کہ ضم اضلاع کے سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں محکمہ صحت کے ریٹائرڈ اہلکارمفت میں کام کررہے ہیں‘ اور نئے تعمیر ہونیوال سٹیڈیم کے معائنے کررہے ہیں‘ اس سے اندازہ کریں کہ آج کے دور میں مفت کام کیوں کیا جاتا ہے اور یہ سب کچھ ضم اضلاع میں سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں ہورہا ہے لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں. کیونکہ زیادہ سے زیادہ آڈٹ ہوگا اور بقول ایک بڑے افسر کے آڈٹ والے بھی " پیٹ تو رکھتے ہیں نا" بس ہمیں ان پیٹوں کو بھرنا آتا ہے.
محمود خان صاحب !
آپ کے لیڈر نے تو تحصیل سطح پر گراؤنڈز کی تعمیر کے اعلانات کئے تھے مگر ضم اضلاع میں ضلع سطح پر بھی خیرخیریت ہے اور جو بن رہے ہیں وہ بھی جس معیار کے بن رہے ہیں وہ بھی انشاء اللہ اگلے تین سال میں خیر خیریت ہو جائینگے.یعنی عوامی ٹیکسوں کا پیسہ لگا دیا جائیگا اور پھر...
وزیراعلی صاحب! آپ کو ماموں اس طرح بنایا جارہا ہے کہ آپ کو سب اچھا کی رپورٹ دی جاتی ہیں جبکہ بیورو کریٹ جو پہلے پولٹیکل انتظامیہ میں ہوتے تھے آج بھی اپنے آ پکو "زمین کا خدا " سمجھتے ہیں اور کسی قسم کی معلومات دینے سمیت اس بارے میں معلومات دینے کو اپنے شان کے خلاف سمجھتے ہیں. جس میں ان کی غلطی کیساتھ ہمارے اپنے کچھ مخصوص کھیلوں سے وابستہ افراد کی بھی غلطی ہے جنہیں ہر وقت صرف جی حضوری‘ مکھن بازی اور مالش کے علاوہ کچھ نہیں آتا‘اور مخصوص بیورو کریٹ ان کف گیروں کو دیکھتے ہوئے سب کچھ اپنا چمچے سمجھتی ہیں.جو کہ غلط ہے.
محترم وزیراعلی صاحب!
قبائلی علاقے جو کہ اب ضم ہوکر خیبر پختونخواہ کا حصہ بن چکے ہیں کے نوجوان پاکستان کے کسی بھی شہر کے جوانوں کیساتھ کسی بھی شعبے بشمول کھیلوں میں پیچھے نہیں‘ کرکٹ‘ مارشل آرٹ سمیت دیگر کھیلوں میں بین الاقوامی کھلاڑیوں کی موجودگی اس بات کا ثبوت بھی ہے. تاہم انہیں مزید آگے لانے سمیت انہیں مواقع دینے اور ضم اضلاع کے سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی متضاد پالیسی پر نظر ثانی کرنی ہوگی تبھی ضم اضلاع سے تعلق رکھنے والے نوجوان کھلاڑی آگے آسکیں گے..

امید ہے کہ آپ صبر اور برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس خط کو پڑھیں گے‘ اور اس حوالے سے اقدامات اٹھائیں گے کیونکہ بیورو کریٹ اور خصوصا ضم اضلاع کے سپورٹس ڈائریکٹریٹ کو اس حوالے سے آگاہی کے باوجود اس پر کام نہیں ہورہا کیونکہ وہ خود کو احتساب سے بالاتر سمجھتے ہیں. حالانکہ اگر کسی کے شلوار میں سوراخ ہوں اور کوئی اس سوراخ کی نشاندہی کرے تو بجائے سوراخ کی نشاندہی کرنے والے شخص کے خلاف کاروائی کے‘ سوراخ کو بند کیا جائے تو پھر شلوار میں سوراخ ہے کی آواز کوئی نہیں نکالے گا

شکریہ

العارض
سپورٹس رپورٹر

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 637 Articles with 499592 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More