نشہ‘مفت کے دس لاکھ‘ اور سپورٹس ڈائریکٹریٹ کا دہرا قانون
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
نئے مالی سال سے قبل تمام ڈیلی ویجز کو ایک مرتبہ پھر رگڑا دینے کا پروگرام ترتیب دیا گیا ہے یعنی ڈیلی ویجز تمام ملازمین کو گھر بھیج دیا جائے گا اور یہ اسی تبدیلی ووالی سرکار کا کارنامہ ہوگا جو لوگوں کو روزگار کے دعوے کررہی ہیں جون میں امکان ہے کہ تمام ڈیلی ویجر فارغ ہونگے اور پھر اگلے ماہ سے ممبران اسمبلی کی وساطت سے نئی بھرتی من پسند افراد کی پھر ہو |
|
نشہ ہر چیز کا برا ہوتا ہے‘ خواہ وہ اقتدار کا ہو‘ کرسی کا ہو‘ طاقت کا ہو یا پھر پیسے کا‘ اسی وجہ سے مذہب اسلام میں بھی نشے کو حرام قرار دیا گیا ہے کچھ لوگ اسے صرف شراب‘ منشیات تک محدود سمجھتے ہیں لیکن اقتدار کا نشہ‘ طاقت‘ کرسی اور پیسے کا نشہ بھی اتنا ہی خطرناک ہے جتنا شراب یا منشیات کا‘ کیونکہ طاقت‘ کرسی‘ اقتدار اور پیسے کے نشے میں بھی انسان کے آنکھوں پر پٹی بندھی ہوتی ہیں اور وہ صرف اپنے آپ کو ٹھیک سمجھتا ہے باقی سارے لوگ انہیں غلط نظر آتے ہیں.اور پھر یہی نشہ انہیں اس مقام پر لاکھڑا کرتا ہے جس کے بعد اس کے پاس جائے پناہ ہ نہیں ہوتی‘ تبدیلی کے نام پر آنیوالے حکمران بھی تقریبا اسی نشے کا شکار ہیں اس سے قبل کے حکمران بھی اسی نشے کا شکار تھے - کل تک اپنے آپ کو فرعون سمجھنے والے نرگسیت کے شکار حکمران آج پشاور میں عورتوں کے بازار میں تسبیح ہاتھ میں پھرا کر یہ ظاہر کرتے ہیں کہ انہیں اقتدار کی پروا نہیں اور نسوار کھانے والی اس قوم سے انہیں بہت محبت ہے..حالانکہ اسی کرسی اور اقتدار سمیت... دوسرے نشے کیلئے کیا کیا کچھ کیا گیا او ر کیا کچھ کرایا جارہا ہے یہ بھی آنیوالے وقت میں اس ملک کے عوام ہی دیکھ لیں گے.
دیکھنے پر یاد آیا‘ کچھ دنوں سے سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ جس کی اضافی وزارت وزیراعلی خیبر پختونخواہ کے پاس ہے میں کچھ ایسوسی ایشنز کے زعماء آج کل زیادہ نظر آنے لگے ہیں کیونکہ نئے مالی سال کیلئے بجٹ پیش ہونا ہے اور پرانے سرکاری فنڈز کو ٹھکانے لگانے کیلئے بہت سارے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں‘ ایسوسی ایشن کو گرانٹ اینڈ ایڈ کی مد میں رقم بھی دینی ہے ہے چونکہ یہ ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل کا استحقاق ہوتا ہے کہ وہ کس ایسوسی ایشنز کو فنڈز جاری کرے لیکن اس کیلئے بھی ضروری ہے کہ ایک کمیٹی ہو جس میں عوام کا ایک نمائندہ بھی شامل ہوگا تاکہ شفافیت کا عمل نظر آئے. لیکن بدقسمتی یہاں پر ہے کہ ایسوسی ایشن کو سالانہ گرانٹ اینڈ ایڈ کی مد میں فنڈز جاری کرنے میں تبدیلی والی سرکار بھی ویسے ہی ہے جیسے پہلے والے حکمران تھے. اب بھلا یہ کوئی بات ہے کہ ایسے ایسوسی ایشنز کو فنڈز دی جائے جنہوں نے سال بھر میں کوئی سرگرمی نہیں کی ہو‘ ہاں ان کے زعماء سرکار کی چاپلوسی یا پھر مکھن بازی میں ایک صوبائی وزیر کے آگے پیچھے ہوں اس لئے فنڈز انکی سفارش پر وزیراعلی جاری کرنے کے احکامات دئیے جبکہ دوسرے طرف ایسے ایسوسی ایشنز جو اے پی ایس شہداء کے نام پر باڈی بلڈنگ کے مقابلے ہر سال کروائے‘ مسٹر پشاور کے مقابلے منعقد کروانے سمیت متعدد کلب سطح کے مقابلے بھی کروا چکی ہوں انہیں یہ کہہ کر فنڈز جاری کرنے سے انکار کیا جائے کہ فنڈز ختم ہو چکا ہے. بھلا یہ کوئی بات ہوئی کہ جو ایسوسی ایشن اپنی جان مارے‘ نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں کی طرف لائے انہیں کوئی پوچھنے والا نہ ہو حالانکہ صوبائی وزارت کھیل کا یہ بنیادی کام ہے کہ کھیلوں اور مثبت سرگرمیوں کے فروغ کیلئے کام کیا جائے لیکن یہاں پر بھی تبدیلی والی سرکار نے ڈنڈی مار دی ہے.
ڈنڈا تو صوبائی وزارت کھیل میں تعینات ایک اہم شخصیت نے جو نمک منڈی میں اپنے اثاثوں کی وجہ سے بہت مشہور ہیں نے بھی صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کو دیا ہے‘ اپنے ایک رشتہ دار کو جنہوں نے ہاکی لیگ میں بغیر دس لاکھ روپے جمع کرائے ٹیم لی تھی اور بغیر کسی خرچے کے ٹیم کے مالک بن بیٹھے تھے انہیں دس لاکھ روپے انعام کی رقم تو دیدی ہے. حالانکہ اس وقت کسی بھی ٹیم کو لینے کیلئے دس لاکھ روپے جمع کرانے تھے لیکن بھلا ہوئی اس ڈبل رشتہ داری کا‘ بھلا یہ کوئی بات ہے کہ خرچہ بھی کوئی نہ کرے لیکن لاکھوں کے فنڈز سرکار کے کھاتے سے نکالے جائیں تو پھر کیا بچتا ہے.ہاں اس کا نقصان مختلف ایسوسی ایشنز کو اٹھانا پڑتا ہے جن کی سرگرمیاں سارا سال جاری رہتی ہیں مگر انہیں صاحب لوگوں کے آگے پیچھے ہونے کا طریقہ نہیں آتا اور جون کے مہینہ آتے ہی انہیں گرانٹ اینڈ ایڈ کی مد میں بھی کچھ نہیں دیا جاتا.ایسے میں ایسوسی ایشنز کس طرح مثبت سرگرمیوں کے فروغ کیلئے کام کرے گی اور نوجوانوں کو کھیلوں کے میدانوں تک لائے گی یہ وہ سوال ہیں جو وزارت کھیل میں بیٹھے افسران سمیت وزارت کھیل کے انچارج وزیر محمود خان کو بھی خود سے کرنے کی ضرورت ہے. کیونکہ تبدیلی صرف نوجوانوں کے ڈانس پر نہیں آتی. بلکہ اس کیلئے نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں کی طرف لانا بھی پڑتا ہے.جو شائد وزیراعلی اور ا نکی وزارت میں بیٹھے بڑے بڑے قابل اور جغادری افسران بھی نہیں کرسکتے.
وزارت کھیل کے قابل اور جغادری افسران جن کی آمد پر میرٹ کی بالادستی کے نعرے لگائے گئے تھے‘ پانچ ماہ میں کچھ بھی نہیں ہوا‘ صرف تبادلے ہی ہوتے رہے ہیں جس پر بیشتر پر عملدرآمد بھی نہیں ہوا کیونکہ سیاسی مداخلت کے باعث سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی بہتری کیلئے اٹھائے جانیوالے اقدامات کو بھی واپس لیا گیا‘ جن کے تبادلوں کے احکامات جاری کئے گئے ان میں کچھ مزوں میں ہیں اور کچھ کھڈے لائن ہو کر بس نوکری کرنے پر مجبور ہیں‘ جنوبی اضلاع میں ایک مخصوص خاندان کی مداخلت سے لیکر مردان میں ایک سابق صوبائی وزیر کی مداخلت کے سامنے وزیراعلی بھی کمزور ہیں تو پھر بیور کریٹ کی کیا مجال کہ وہ کچھ کرسکیں انہوں نے بھی نوکری کرنی ہے اور اپنی نوکری کو بچانے کیلئے بہت سارے غیر قانونی اقدامات بھی اٹھانے پڑتے ہیں.کلاس فور کو برطرف کرنے سمیت اپنے من پسند افراد کو دوبارہ بھرتی کے عمل میں اگر ممبران اسمبلی کے مزے ہیں تو سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے مخصوص اہلکاروں کے بھی مزے ہیں کیونکہ پوچھنے والابھی کوئی نہیں .
چلتے چلتے ایک خبر یہ بھی سن لیں کہ نئے مالی سال سے قبل تمام ڈیلی ویجز کو ایک مرتبہ پھر رگڑا دینے کا پروگرام ترتیب دیا گیا ہے یعنی ڈیلی ویجز تمام ملازمین کو گھر بھیج دیا جائے گا اور یہ اسی تبدیلی ووالی سرکار کا کارنامہ ہوگا جو لوگوں کو روزگار کے دعوے کررہی ہیں جون میں امکان ہے کہ تمام ڈیلی ویجر فارغ ہونگے اور پھر اگلے ماہ سے ممبران اسمبلی کی وساطت سے نئی بھرتی من پسند افراد کی پھر ہوگی..مولا خوش رکھے۔
|